ہم ذہنی مریضوں کے نرغے میں ہیں

روس کی ملکہ کیتھرائن ان خطوط کوکھولتی نہ تھی، جن پر سرنامہ کے طورپر ’’ملکہ معظمہ ‘‘ نہ لکھا ہوتا تھا

فرانس کا عظیم ادیب وکٹر ہیوگوکہتا ہے '' مرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ زندہ نہ رہنا خوفناک ہے اور پھر بھی، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پہلے ہی مرچکا ہوں، ایک بھوت ایسی زندگی کا شکار ہے جسے میں اب پہچان نہیں سکتا۔ دن ایک دوسرے میں دھندلا جاتے ہیں، معنی سے خالی۔ میں دنیا کو اپنے بغیر آگے بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں اور میں حیران ہوں کہ یہ کیسے جاری رہتا ہے جب کہ میں وقت میں منجمد رہتا ہوں، اپنی ہی مایوسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوں۔

ہر سانس ایک وزن کی طرح محسوس ہوتا ہے، ہر لمحہ میرے اندر کے خالی پن کی ظالمانہ یاد دہانی۔'' آپ نے کبھی اس بات پرغور کیا ہے کہ آپ کو درپیش سارے عذابوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ، اذیت ناک اور وحشت ناک عذاب کونسا ہے اگرنہیں تو پھر میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ کون سے عذاب کی تکلیف سب سے زیادہ ہوتی ہے اور سب سے زیادہ اذیت کس عذاب سے پہنچتی ہے اس عذاب کا نام طاقتور اور بااختیار لوگوں کا احساس برتری میں مبتلا ہونا ہے۔

ہمارے ملک کے سارے طاقتور، بااختیار، خوشحال، امیروکبیر، جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹس سب کے سب اسی عذاب میں مبتلا ہیں اور ہم ان کے اس عذاب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس عذاب کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہم سب روز اسی احساس برتری کے ہاتھوں کچلے اور روندیں جاتے ہیں۔ انسانی رویوں میں سب سے بدترین رویہ ہے جو تمام بدیوں کی ماں ہے جھوٹی شان وشوکت، دیمک زدہ غرور و تکبر، بدبودار پروٹوکول، اپنے ہی جیسے لوگوں کو حقیر سمجھنا، اپنے سے کم لوگوں کی بات بے بات پر بے عزتی کرنا ان کے نفس کی بے حرمتی کرنا اسی ماں کے ناجائز بچے ہیں۔

اس بیماری میں مبتلا سب عیاریوں اور مکاریوں کے بازاروں کے بڑے سوداگر ہیں جنہوں نے زندگی کی تمام کی تمام لذتوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یہ ہی ہمارے ملک کی معاشی عدم مساوات، تمام ناانصافیوں، غربت،افلاس، بیروزگاری،کرپشن، بیڈ گورنس کے ذمہ داران ہیں، یہ سب اپنے آپ کو دیوتا سمجھے بیٹھے ہیں، جو یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے بیس کروڑ عام انسان دن رات ان کی پوجا کرتے رہیں۔اس لیے کہ وہ طاقتور، بااختیار، بڑی بڑی جاگیروں، بڑے بڑے محلات، ملوںکے مالک ہیں اور وہ پیدا ہی حکمرانی کیلئے ہیں وہ ہر قانون،آئین، تمام اخلاقی اقدار سے بالاتر ہیں۔ یاد رہے ان ہی لوگوں کی وجہ سے پاکستان کے آدھے لوگ روز بھوکے سوتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ وہ سب کے سب عذاب میں مبتلا ہیں۔ اصل میں یہ سب ذہنی مریض ہیں، ان کے تمام احساسات سلب ہوچکے ہیں۔ بیسویں صدی کے مشہور ترین ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈکہتے ہیں کہ ہمارے ہر فعل کے دو محرک ہوا کرتے ہیں جنسی خواہش اور بڑا بننے کی امنگ، امریکاکے بہت بڑے فلسفی پروفیسر جان ڈیوی اس بات کو ذرا دوسروں لفظوں میں بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسانی فطرت کی سب سے بڑی خواہش '' اہم بننے کی امنگ '' ہے، تقریباً انسان کی سبھی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔


ان میں سے ایک خواہش ایسی ہے جو تقریباً اتنی ہی شدید اور لازمی ہے جتنی طعام یا نیندکی خواہش لیکن اس کی تکمیل شاید ہی کبھی ہوتی ہو اور وہ ہے جسے فرائیڈ '' بڑا بننے کی امنگ '' کہتا ہے اور ڈیوی '' اہم بننے کی امنگ '' عظیم ماہر نفسیات ولیم جیمز نے ایک مرتبہ کہا تھا۔'' انسانی فطرت کی سب سے بڑی آرزو تو قدر شناسی کی بھوک ہے'' یاد رکھیے انہوں نے قدر شناسی کی خواہش یا تمنا آروز نہیں بلکہ بھوک کہا ہے، اسی لیے یہ انسان کی مستقل اور اہم بھوک ہے جو آدمی اس بھوک کی تسکین کرنا چاہتا ہے وہ لوگوں کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے اس کے بھوکے احساس برتری کے مریض بن جاتے ہیں۔

کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر بعض لوگوں کو حقیقی دنیا میں برتری کا احساس نصیب نہ ہو تو وہ اسے دیوانگی کے خواب زار میں تلاش کرنے کی غرض سے پاگل ہوجائیں۔ امریکی اسپتالوں میں سب سے زیادہ تعداد ان مریضوں کی ہے جو دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ امریکا میں ذہنی مریضوں کے پوسٹ مارٹم کے دوران ان کے دماغ کی رگیں بڑی سے بڑی طاقت والی خورد بین سے بھی دیکھی گئی ہیں لیکن ان کے دماغ بظاہر بالکل اسی طرح صحیح و سالم نظر آئے جیسے کہ ہمارے اور آپ کے ہیں پھر یہ لوگ پاگل کیوں کر ہوئے۔ یہ سوال پاگلوں کے ایک بہت بڑے اسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے کیا گیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب دیوانگی کے علم میں ماہرہونے کی بنا پر بڑے سے بڑا خطاب اور بڑے سے بڑا انعام حاصل کرچکے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ لوگ کیوں کر پاگل ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک سے کوئی نہیں جانتا لیکن انہوں نے یہ ضرورکہا ہے کہ بہت سے پاگل ہونیوالے لوگ دیوانگی میں احساس برتری کی تسکین حاصل کرتے ہیں،کیونکہ اصلی زندگی میں وہ اپنے اس جذبے کی تسکین نہ کرسکے۔ تاریخ ایسے مشہور افراد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو بڑابننے کی انتھک کوشش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جارج واشنگٹن بھی اپنے آپ کو جناب عالی ہمت، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکا کہلانا پسند کرتے تھے۔ کولمبس نے '' امیر البحر و وائسرائے ہند کے خطاب کی درخواست کی تھی۔

روس کی ملکہ کیتھرائن ان خطوط کوکھولتی نہ تھی، جن پر سرنامہ کے طورپر ''ملکہ معظمہ '' نہ لکھا ہوتا تھا۔ مسز لنکن وائٹ ہاؤس میں مسزگرانٹ پر یہ کہہ کر برس پڑیں کہ '' میری اجازت کے بغیر تم نے میرے سامنے بیٹھنے کی جرأت کیسے کی۔'' وکٹر ہوگیو کا خیال تھا کہ اس کی حوصلہ افزائی جب ہی ہوسکتی ہے کہ پیرس شہر کا نام بدل کر اس کے نام پر رکھا جائے، یہاں تک کہ شیکسپیئر جیسے دنیا کے سب سے بڑے فنکار نے بھی اپنے خاندان کی شان و شوکت میں چار چاند لگانے کیلئے شاہی ڈھال حاصل کی، جس پر اس کے خاندان کا نشان خصوصی کھدا تھا، لیکن یہ سب وہ بھوکے تھے، جنہوں نے اپنی بھوک کی وجہ سے انسانوں اور انسانیت کو ہرگز ہرگزکوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

ہماری بدقسمتی کہ ہمیں ایسے بھوکوں سے پالا پڑا ہے، جو اپنی بھوک کو مٹانے کیلئے کسی بھی حد کو پار کرجاتے ہیں جنہیں نہ تو انسانوں سے کوئی محبت ہے، نہ ملک سے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ ہے اور سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب ذہنی طور پر دیوالیہ اور قلاش ہوچکے ہیں اور ان میں کوئی خوبی ہونا تو بہت دورکی بہت ہے۔ الٹا تمام کی تمام خامیاں، برائیاں لادھے لادھے پھرتے ہیں۔ دنیا بھرکی تمام جہالتیں اپنے اندر بسائے بسائے پھرتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیرکہ دنیا بھرکے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں، جو خود کو ناگریز سمجھے بیٹھے تھے اورکونسا ایسا ظلم، ستم اور ناانصافی انہوں نے روا نہ رکھی ہوئی تھی جس کا وجود دنیا میں موجود ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ ہر احتساب سے بالاتر ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ دنیا میں موجود رہیں گے۔

ایک بات ہم سب کیلئے سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہم سب کوئی مستقل چیز نہیں ہیں۔ ہم سب نے ایک روز چلے جانا ہے اور کچھ عرصے بعد ہی دنیا ہمارا نام تک بھول جائے گی، پھر دوسروں کے سامنے اپنی بڑ مارنے اور کھوکھلے غرور و تکبر اور مصنوعی احساس برتری کے مرض میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کے حسین دن کیوں ضائع کریں اور آپ کے پاس بڑ مارنے، غرور و تکبر اور احساس برتری کیلئے آخر ہے ہی کیا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو پاگل بننے سے کیا چیز بچائے ہوئے ہے وہ بہت ہی معمولی شے ہے آپ کے ایک غدود میں خشخاش برابر آیوڈین۔ اگرکوئی ڈاکٹر آپ کے گردن والے غدود کو چیرے اور ان میں جو ذرا سی آیوڈین ہے نکال لے تو آپ فوراً پاگل ہوجائیں گے، آپ اور پاگل خانے کے درمیان ذرا سی آیوڈین حائل ہے۔ جو ہر بازارکے دوا فروش سے چار آنے میں خریدی جاسکتی ہے وہ آیوڈین جس کی قیمت تابنے کا ایک ادنیٰ سکہ ہے اور آپ خوامخواہ ساری زندگی بے آرامی، بد دعائیں، بیماریاں مول لیتے پھرتے ہیں۔
Load Next Story