بلآخر
افغانستان کا سب سے بڑا کاروبار منشیات کی پیداوار اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ ہے
تاریخ کسی آئین یا قانون کی محتاج نہیں ہوتی۔ تاریخ اپنی راہیں خود متعین کرتی ہے اورکبھی ایسے واقعات ہوجاتے ہیں، ایسے موڑ بھی آجاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ خود ہی ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت مارشل لاء تو نہیں آسکتا مگر اور وہ اس لیے نہیں کہ یہ آئین اور قانون کا تقاضا ہے بلکہ وہ اس لیے کہ تاریخ کے اس موڑ پر، تاریخ اس راہ کا خود تعین کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم قانون اور آئین کی راہ پر چل نہ سکے مگر وہ اس لیے کہ جن کو آئین اور قانون کی تشریح کرنی تھی، وہ یہ تشریح آئین اور قانون کے مطابق کر نہ سکے۔
ماضی میں آئین و قانون کا راستہ شبِ خون نے روکا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ایک طرف وکیلوں کی بڑی تنظیمیں اس بات کو مانتی ہیں کہ آئین و قوانین میں ترامیم کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ ہر آئینی ترمیم آئین سے متصادم نہ ہو۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ سب پر واجب ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔ آئین و قوانین میں تشریح وہاں کی جاتی ہے جہاں کوئی لفظ یا کوئی جملہ مبہم ہو، جو سلیس ہو اور واضح ہو، جیسا کہ آرٹیکل 51 میں ہے، اس کی تشریح تو ایسے نہیں کی گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ، اقامہ کا فیصلہ اور بھی کئی ایسے فیصلے ہیں جو مبہم ہیں واضح نہیں اور اگر اس بات کی اجازت دی جاتی ہے تو بہت کچھ ٹوٹنے کو ہے۔ یہاں سے شروعات ہو تی ہے کہ تاریخ کا اپنی راہ متعین کرنا۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ افغان بارڈر پرحالات بہت سنگین ہیں۔گنڈا پور صاحب کی زبان بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ افغانستان کے قونصلرز کا ہمارے قومی ترانے کو تعظیم نہ دینا جب کہ افغانستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سمندر کا کنارہ موجود نہیں اور تاریخی اعتبار سے افغانستان ہماری سمندری حدود سے مستفیض ہوتا رہا ہے۔
افغانستان کا سب سے بڑا کاروبار منشیات کی پیداوار اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ ہے اور یہ تمام کاروبار پاکستان کی راہداری سے ہوئے ہیں، اگر پاکستان، افغانستان کو محدود تعلقات تک رکھتا، کیونکہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے لہٰذا ان کو سمندری راستے سے روکا جاتا اور ساتھ ہی ان کے منشیات و اسلحے کے کاروبار اور بہت سی اشیائے خورونوش جیسا کہ گندم، تیل کی رسائی وغیرہ کو بھی روکتے، اس وقت تک جب تک کہ افغانستان ایک ذمے دار ریاست بن کر نہ ابھرے کیونکہ پاکستان میں بہت سے لوگ ہیں جن کے غیرقانونی کاروبار افغانستان سے وابستہ ہیں اور وہ بھی اس سے متاثر ہوںگے۔ ایسے ''شرفاء'' پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا تعلق نو مئی سے تھا اور ان کو فوج کی موجودہ پالیسی اور پوزیشن سے اختلاف ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی شبِ خون مارا گیا، اعلیٰ عدالتیں آمروں کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس بات کا اعتراف سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کے کیس میں خود کیا۔ اب جوکل تک اکٹھے تھے یعنی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ وہ آج ساتھ نہیںہیں۔ ماضی میں پارلیمان کو عدالتوں نے جب بھی کمزورکیا، ان کو اسٹبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی، مگر آج اسٹبلشمنٹ اور پارلیمان اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک پیج پرکھڑے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ عدالتیں صحیح ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمان صحیح ہو یا پھر دونوں ہی غلط ہوں۔ میرے اس کالم کا مقصد صحیح اور غلط کا تعین کرنا نہیں، یہ جاننا بھی نہیں کہ کون آئین اور قانون پر ہے اورکون نہیں ہے۔ تاریخ کے اس موجودہ موڑ پر پاکستان کی کونسی قوت زیادہ طاقت رکھتی ہے، عدالت یا پارلیمنٹ۔
اس دفعہ عدالت میں دو واضح موقف نظر آرہے ہیں۔ آٹھ یا نو ججز ایک موقف پرکھڑے ہیں اور چھ یا سات ججز دوسرا موقف لیے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صورتحال تھی جب سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کی تھی مگر اس وقت ان کو آشیرواد حاصل تھا اسٹبلشمنٹ اور پارلیمان کا۔ اسٹبلشمنٹ جنرل جہانگیرکرامت کی قیادت میں خاموش تھی اور صدر لغاری کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اس وقت پاکستان کے خارجی حالات آسان تھے، اس وقت نہ سی پیک تھا اور نہ افغانستان سے ٹکراؤ تھا۔ نہ اس وقت اسٹبلشمنٹ اپنے ماضی سے ہٹنا چاہتی تھی۔
حالات اس وقت بہت مختلف ہیں ہر طرف دراڑیں ہیں، عدالتوں کے اندر، پارلیمنٹ کے اندر، اسٹبلشمنٹ کے اندر، ایسے لوگوں کا کورٹ مارشل کر ہورہا ہے جو فوج کے اندر دراڑیں ڈال رہے تھے۔کون کس کے ساتھ تھا اورکون کس کے ساتھ نہیں تھا۔ سمجھ یہ آتا ہے کہ کوئی بھی حق پر نہیں،کوئی بھی سچ پر نہیں۔کل تک عدالتیں اور پارلیمنٹ آمروں کے ساتھ کھڑی تھیں اور آج بھی اس ملک میں ہائبرڈ جمہوریت رائج ہے۔اسی لیے تاریخ اپنی راہیں خود متعین کرے گی اور اب وہ طاقتور کو نشست دیگی۔ یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کون طاقتور ہے۔
وکلاء تحریک بھی عمل میں نہیں آسکتی کیونکہ وکلاء میں بھی دو دھڑے ہیں۔ خان صاحب کی پارٹی محض اپنے کندھوں پر تحریک نہیں چلا سکتی۔ نو مئی جیسے واقعات اب نہیں ہوسکتے۔ تحریک چلانے کے اعتبار سے مولانا فضل الرحمان اب بھی مضبوط ہیں، وہ کیا راہ اختیارکرتے ہیں اگرچہ وہ آئین کی ترمیم کے حق میں نہیں مگر کیا وہ ان ترامیم کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اگر حکومت ایک سال کے اندر ڈالرکی اڑان کو قابو نہ کرتی، زرِ مبادلہ بہتر نہ ہوتے، ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوتا، افراطِ زر میں کمی نہ ہوتی، آئی ایم ایف سے معاہدے نہ ہوتے تو دوسرا دھڑا مضبوط ہوتا۔ اس لیے کہ اب ملک کی معیشت بحرانوں سے نکل کر بہتری کی طرف جا رہی ہے۔
ماضی میں آئین و قانون کا راستہ شبِ خون نے روکا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ایک طرف وکیلوں کی بڑی تنظیمیں اس بات کو مانتی ہیں کہ آئین و قوانین میں ترامیم کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ ہر آئینی ترمیم آئین سے متصادم نہ ہو۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ سب پر واجب ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔ آئین و قوانین میں تشریح وہاں کی جاتی ہے جہاں کوئی لفظ یا کوئی جملہ مبہم ہو، جو سلیس ہو اور واضح ہو، جیسا کہ آرٹیکل 51 میں ہے، اس کی تشریح تو ایسے نہیں کی گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ، اقامہ کا فیصلہ اور بھی کئی ایسے فیصلے ہیں جو مبہم ہیں واضح نہیں اور اگر اس بات کی اجازت دی جاتی ہے تو بہت کچھ ٹوٹنے کو ہے۔ یہاں سے شروعات ہو تی ہے کہ تاریخ کا اپنی راہ متعین کرنا۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ افغان بارڈر پرحالات بہت سنگین ہیں۔گنڈا پور صاحب کی زبان بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ افغانستان کے قونصلرز کا ہمارے قومی ترانے کو تعظیم نہ دینا جب کہ افغانستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سمندر کا کنارہ موجود نہیں اور تاریخی اعتبار سے افغانستان ہماری سمندری حدود سے مستفیض ہوتا رہا ہے۔
افغانستان کا سب سے بڑا کاروبار منشیات کی پیداوار اور غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ ہے اور یہ تمام کاروبار پاکستان کی راہداری سے ہوئے ہیں، اگر پاکستان، افغانستان کو محدود تعلقات تک رکھتا، کیونکہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے لہٰذا ان کو سمندری راستے سے روکا جاتا اور ساتھ ہی ان کے منشیات و اسلحے کے کاروبار اور بہت سی اشیائے خورونوش جیسا کہ گندم، تیل کی رسائی وغیرہ کو بھی روکتے، اس وقت تک جب تک کہ افغانستان ایک ذمے دار ریاست بن کر نہ ابھرے کیونکہ پاکستان میں بہت سے لوگ ہیں جن کے غیرقانونی کاروبار افغانستان سے وابستہ ہیں اور وہ بھی اس سے متاثر ہوںگے۔ ایسے ''شرفاء'' پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا تعلق نو مئی سے تھا اور ان کو فوج کی موجودہ پالیسی اور پوزیشن سے اختلاف ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی شبِ خون مارا گیا، اعلیٰ عدالتیں آمروں کے ساتھ کھڑی رہیں۔ اس بات کا اعتراف سپریم کورٹ نے بھٹو صاحب کے کیس میں خود کیا۔ اب جوکل تک اکٹھے تھے یعنی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ وہ آج ساتھ نہیںہیں۔ ماضی میں پارلیمان کو عدالتوں نے جب بھی کمزورکیا، ان کو اسٹبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی، مگر آج اسٹبلشمنٹ اور پارلیمان اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک پیج پرکھڑے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ عدالتیں صحیح ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمان صحیح ہو یا پھر دونوں ہی غلط ہوں۔ میرے اس کالم کا مقصد صحیح اور غلط کا تعین کرنا نہیں، یہ جاننا بھی نہیں کہ کون آئین اور قانون پر ہے اورکون نہیں ہے۔ تاریخ کے اس موجودہ موڑ پر پاکستان کی کونسی قوت زیادہ طاقت رکھتی ہے، عدالت یا پارلیمنٹ۔
اس دفعہ عدالت میں دو واضح موقف نظر آرہے ہیں۔ آٹھ یا نو ججز ایک موقف پرکھڑے ہیں اور چھ یا سات ججز دوسرا موقف لیے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صورتحال تھی جب سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کی تھی مگر اس وقت ان کو آشیرواد حاصل تھا اسٹبلشمنٹ اور پارلیمان کا۔ اسٹبلشمنٹ جنرل جہانگیرکرامت کی قیادت میں خاموش تھی اور صدر لغاری کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اس وقت پاکستان کے خارجی حالات آسان تھے، اس وقت نہ سی پیک تھا اور نہ افغانستان سے ٹکراؤ تھا۔ نہ اس وقت اسٹبلشمنٹ اپنے ماضی سے ہٹنا چاہتی تھی۔
حالات اس وقت بہت مختلف ہیں ہر طرف دراڑیں ہیں، عدالتوں کے اندر، پارلیمنٹ کے اندر، اسٹبلشمنٹ کے اندر، ایسے لوگوں کا کورٹ مارشل کر ہورہا ہے جو فوج کے اندر دراڑیں ڈال رہے تھے۔کون کس کے ساتھ تھا اورکون کس کے ساتھ نہیں تھا۔ سمجھ یہ آتا ہے کہ کوئی بھی حق پر نہیں،کوئی بھی سچ پر نہیں۔کل تک عدالتیں اور پارلیمنٹ آمروں کے ساتھ کھڑی تھیں اور آج بھی اس ملک میں ہائبرڈ جمہوریت رائج ہے۔اسی لیے تاریخ اپنی راہیں خود متعین کرے گی اور اب وہ طاقتور کو نشست دیگی۔ یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کون طاقتور ہے۔
وکلاء تحریک بھی عمل میں نہیں آسکتی کیونکہ وکلاء میں بھی دو دھڑے ہیں۔ خان صاحب کی پارٹی محض اپنے کندھوں پر تحریک نہیں چلا سکتی۔ نو مئی جیسے واقعات اب نہیں ہوسکتے۔ تحریک چلانے کے اعتبار سے مولانا فضل الرحمان اب بھی مضبوط ہیں، وہ کیا راہ اختیارکرتے ہیں اگرچہ وہ آئین کی ترمیم کے حق میں نہیں مگر کیا وہ ان ترامیم کے خلاف تحریک چلائیں گے؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ اگر حکومت ایک سال کے اندر ڈالرکی اڑان کو قابو نہ کرتی، زرِ مبادلہ بہتر نہ ہوتے، ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوتا، افراطِ زر میں کمی نہ ہوتی، آئی ایم ایف سے معاہدے نہ ہوتے تو دوسرا دھڑا مضبوط ہوتا۔ اس لیے کہ اب ملک کی معیشت بحرانوں سے نکل کر بہتری کی طرف جا رہی ہے۔