پاکستانی خالص مفاداتی جمہوریت
1985 سے 1999 تک جو بھی اسمبلیاں قائم ہوئیں ان میں کوئی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی
15 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا جو بین الپارلیمانی یونین کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر نئی جمہوریتوں کی حمایت اور ملکوں میں حکومتی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے اقدامات کرنا ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے عالمی یوم جمہوریت پر اپنی اپنی مرضی کے پیغامات جاری کیے اور جمہوریت کی تعریف میں آسمانی قلابے ملائے اور دعویٰ کیا کہ جمہوریت کا مقصد عوام کو ان کے حقوق فراہم کرنا بھی ہے جو انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں کبھی فراہم ہی نہیں کیے گئے اور جمہوریت کی اچھی باتیں انھیں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد یاد آتی ہیں۔ اپنی حکومتوں میں جمہوریت کی آڑ میں شخصی آمریت قائم کرنے اور تمام جمہوری روایتوں کو پامال کرنے والوں کو یاد آجاتا ہے کہ جمہوریت ہی عوام کو درپیش چیلنجز کا کلیدی حل ہے۔
جمہوریت عوام کو بااختیار بنانے اور سماجی واقعاتی ترقی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انھیں یاد آ جاتا ہے کہ جمہوری عمل کا تسلسل ملک میں ترقی کا ضامن ہے اور عالمی یوم جمہوریت تمام شرکت داروں کو جمہوریت کے تسلسل اور فروغ میں مثبت کردار ادا کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ یوم جمہوریت پر ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے سربراہوں کو بیانات جاری کرنے کا موقعہ دیتا ہے کہ جمہوریت آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کا نام ہے۔
عالمی یوم جمہوریت پر سال بھر غیر جمہوری فیصلے کرنے والوں کو ان کی طرف سے جاری سرکاری پیغامات کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن کرانے کے لیے جمہوری عمل کا تسلسل ضروری اور اداروں کو جوڑنے کے عمل کا نام ہے۔ یوم جمہوریت ہی پاکستانی جمہوریت پرستوں کو یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت ہی پاکستان کی ترقی کی بنیاد ہے جس کے ذریعے ہی معاشی اور سیاسی مسائل کا حل مضبوط اور بلاتعطل جمہوریت میں ہے جس کے لیے ہمیں اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔
حکومت کی آئینی ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد پارلیمان میں وزیروں کا کہنا تھا کہ اس ادارے کو سربلند اور طاقتور رکھنا ہماری ذمے داری ہے اور پارلیمنٹ کا کردار ربڑ اسٹیمپ کا نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر قانون کو احساس ہو جاتا ہے کہ ملک کے بعض عدالتی فیصلوں سے جمہوریت کمزور اور پارلیمنٹ بری طرح متاثر ہوئی اگر یہ بااثر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر مداخلت نہ کرتا تو پارلیمنٹ بااختیار ہوتی اور اس کی وجہ ہمارے باہمی سیاسی اور غیر قانونی اقدامات ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت ڈی ریل اور پارلیمنٹ کمزور ہوئی جس سے سیاست متاثر ہوئی اور جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچا اور جمہوریت برقرار نہ رہ سکی۔
عالمی یوم جمہوریت پر چیئرمین سینیٹ اور وفاقی وزیروں نے اپنے بیانات میں جمہوریت کی جو تعریف اور خوبیاں بیان کی ہیں ان پر عوام بھی حیران ہیں کہ یہ جمہوریت جو عوام کے لیے بتائی جاتی ہے ان خوبیوں میں سے تو ایک بھی خوبی پاکستانی جمہوریت میں نظر نہیں آتی بلکہ پاکستان میں جمہوریت کہلانے والی مفاداتی جمہوریت تو صرف حکومتی عہدیداروں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے مختص ہے جس سے عوام کو نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر اسمبلیوں میں پہنچ کر اور حکومتیں بنانے والوں کو ہی فائدہ ہوتا رہا ہے اور وہی امیر سے امیر تک ہوئے۔
ان کی جائیدادیں بڑھیں اور انھوں نے اس جمہوریت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اقتدار کے مزے لوٹے، عوام کو اپنا غلام سمجھ کر ان پر حکمرانی کی اور عوام کی بہتر حالت کو بدتر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر قیام پاکستان کے بعد سے جو کھلواڑ ہوتا آیا ہے اس سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ موجودہ جمہوریت میں تو 1999 تک کسی اسمبلی کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔ پی ٹی آئی اکتوبر میں امید لگائے بیٹھی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں ختم ہو کر ملک میں نئے انتخابات ہوں گے اور اگر ایسا ہوا تو 1973 کے بعد یہ پہلی بار ہوگا کہ فروری 2024 میں منتخب کرائی گئی اسمبلیاں اسی سال کے آخر تک تحلیل کیے جانے کا ریکارڈ قائم کریں گی۔
1985 سے 1999 تک جو بھی اسمبلیاں قائم ہوئیں ان میں کوئی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی کیونکہ منتخب وزرائے اعظم کی پہلے آمر صدر سے بن سکی نہ بعد میں دو سویلین بااختیار صدور سے جنھوں نے 58/2-B سے حکمرانوں کو دو تین سال بعد ہی عوام کے پاس بھیجا اور کمزور صدور آنے کے بعد جنرل پرویز کے سوا خود بھی اپنی مدت پوری اور اسمبلیوں کی بھی مدت پوری ہوئی جن کے حکومتی عہدیداروں اور ارکان کو پانچ سال بعد عوام کے پاس جانے کا موقعہ ملا اور انھیں یاد آیا کہ یہ جمہوریت تو انھی عوام کے باعث آتی ہے۔
جنھیں ارکان اسمبلی منتخب ہو کر بھول جاتے ہیں اور شلوار قمیض سے سوٹوں میں آ جانے کے بعد انھیں صرف امیر یاد رہتے ہیں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں بھوکے سوکھے رہ کر زندگی گزارنے والے بے بس عوام بھی اس ملک میں بستے ہیں جن کا کام صرف لائنوں میں لگ کر ووٹ دینا ہے۔ اس عوام کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پیسوں اور بریانی پر ووٹ دیتے ہیں ہم پر تو یہ احسان نہیں کرتے بلکہ ہم تو بالاتروں کی مہربانی سے ہی اسمبلیوں میں پہنچتے اور اسی عوام پر حکومت کرتے ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی کے رکن محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ یہاں ایسے ارکان بھی ہیں جو پانچ سال میں ایک بار بھی تقریر نہیں کرتے اور خاموش رہتے ہیں۔ یہ بات غلط بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ارکان بولے بغیر مالی معاملات سمیٹتے رہتے ہیں اور بولنے والے ذاتی مفادات اٹھانے کے ساتھ اپنی تقریروں سے میڈیا میں شہرت بھی پاتے ہیں۔ یہ پارلیمان میں سیاسی طور پر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ الزام تراشیاں ہوتی ہیں اور یہی پھر جمہوریت کے نام پر مفادات کے لیے اکٹھے بھی ہو جاتے ہیں اور عوام اسمبلیوں میں یہ جمہوری تماشے دیکھ کر حیران اور خود حکومت کے ہاتھوں غریب سے غریب تر اسی جمہوریت میں ہوتے آ رہے ہیں جو عوام کے نام پر چل رہی ہے جو خالص مفاداتی جمہوریت ہے۔