حکومت کو جلدی کس بات کی ہے
حکومت کو ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی اس ترمیم کو ہماری اعلیٰ عدلیہ تسلیم بھی کرے گی یا نہیں
26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت نے جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے اُسے نہ صرف عوام کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اچھی خاصی سبکی بھی اُٹھانی پڑی، جو تھوڑی بہت مقبولیت اس نے معاشی بحالی کے ضمن میں حاصل کی تھی وہ بھی اس کی اس حرکت سے ضایع ہوگئی۔ وہ ایسا نہ کرتی تو کیا ہوجاتا، حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے اس نے جو جتن کیے تھے، وہ سارے کے سارے دھرے رہ گئے۔ ہمارے خیال میں اس حکومت کو سب سے زیادہ پریشانی سپریم کورٹ کے متوقع فیصلوں سے ہے۔
اُسے دھڑکا لگا رہا ہے کہ کہیں یہ عدالت اس کے سب سے بڑے مخالف کی ضمانت منظور کر کے رہا نہ کردے اور وہ شخص اگر رہا ہوگیا تو پھر اُسے کوئی بھی قابو نہیں کر پائے گا۔ یہ ڈر اور خوف اُسے ایک لمحے بھی چین سے حکومت کرنے نہیں دے رہا۔ اس لیے اس کی اولین کوشش یہی ہے کہ کسی طرح اس شخص کو جیل سے باہر آنے نہیں دیا جائے۔ عوام کے اندر اس کی زبردست مقبولیت ہے ۔ اکتوبر کے اواخر میں موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے، ان کے بعد جس شخص کو چیف جسٹس بننا ہے وہ موجودہ دستور کے مطابق سب سے سینئر شخص کو بننا ہے۔
حکومت اس مروجہ آئینی قانون میں تبدیلی کر کے اُس کا راستہ روکنا چاہتی تھی جو تمام ترکوششوں کے باوجود ہو نہ سکا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومت کو اتنی کیا جلدی تھی کہ اس نے اتوار کے دن دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا کر بھی رات گئے تک اس مجوزہ آئینی ترمیم کو منظور نہیں کروا پائی بلکہ اپنی جلد بازی اور حماقت کی وجہ سے مولانا جیسے شخص کی حمایت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ اب مولانا شاید ہی اس بات پر راضی اور رضا مند ہو پائیں۔ فی الحال یہ معاملہ سرد خانے کے سپرد کردیا گیا ہے لیکن حکومت کی کوشش ہوگی کہ ایک بار پھرکسی نہ کسی طریقہ سے اسے پھر ایوان میں لاکر فوری ووٹنگ کروا کے پاس کروا لے۔
حکومت کو ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی اس ترمیم کو ہماری اعلیٰ عدلیہ تسلیم بھی کرے گی یا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمان سپریم ہے، وہ جو فیصلہ کر لے اُسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے لیکن ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ پارلیمان سے اوپر بھی ایک ادارہ ایسا ہے جو اگر چاہے تو اس پارلیمنٹ کی کسی بھی ترمیم پر جائزہ لے کر اُسے رد یا مسترد بھی کرسکتا ہے، وہ اگر چاہے تو کسی بھی پاس شدہ قانون کو خلاف آئین یا عوامی حقوق کے برخلاف قرار دے کر منسوخ بھی کرسکتاہے۔ حکومت ایسی صورت میں کہاں کھڑی ہوگی یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کوئی حکومت بھی ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے ٹکر نہیں لے سکتی ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جب جب کسی نے اعلیٰ عدلیہ سے ٹکر لینے کی کوشش کی نقصان اسی شخص کا ہوا ہے۔ آپ کوئی بھی قانون بنا لیں وہ نافذ العمل اسی وقت ہوگا جب تک اعلیٰ عدالت سے اس کی توثیق نہیں آجاتی۔ عدالت نے اسے خلاف دستور قرار دے دیا تو پھر وہ ترمیم ازخود ختم ہوسکتی ہے۔ عدلیہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی دستوری قانون کی تشریح اس کا کام ہے ۔ پارلیمان صرف اس قانون کو بنا سکتی ہے لیکن اس کے جائز اور ناجائز ہونے کا فیصلہ صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔
ہم نے ماضی میں ایسے بہت سے فیصلے بھی دیکھے ہیں جو آج کے جمہوری نظام میں ہرگز ممکن نہیں ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت کسی زمانے میں آئین کی سراسر خلاف ورزی اور پامالی کو بھی جائز قراردیا جاچکا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں 1997 میں اس وقت کی نواز حکومت کے ساتھ محاذ آرائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ قانون کے مطابق عدلیہ کے بینچ تشکیل دینا صرف چیف جسٹس کا اختیار ہوا کرتا تھا جسے موجودہ چیف نے کچھ سینیئر ججوں میں بانٹ دیا ہے۔ اب ایک چیف اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کون سا جج کسی کیس کو سنے گا اور کون نہیں۔ اس حوالے سے موجود چیف جسٹس یقینا ستائش کے حقدار ہے کہ انھوں نے اپنا یہ اختیار اپنی مرضی سے کچھ سینئر ججوں میں تقیسم کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس طرح انھوں نے فیصلوں کی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا ہے۔
اس سے پہلے ہمارے یہاں چیف جسٹس جب اور جسے چاہتا تھا کسی مخصوص کیس کے سماعت سے علیحدہ رکھ کر اور اپنے ہم خیال ججوں کو بیچ میں شامل کر کے اپنی مرضی ومنشاء کے فیصلے صادر کروا سکتا تھا۔ موجودہ حکومت عدلیہ سے بلاوجہ محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مسلم لیگ نون جو فروری 2024 انتخابات میں حکومت لینے کے لیے خوشدلی سے رضامند بھی نہ تھی اور دوسری جماعتوں کے انکارکی وجہ سے اُسے یہ فریضہ اپنے ذمے لینا پڑا تھا، نجانے کیوں اس حکومت کو بچانے کے لیے اتنی مضطرب اور پریشان ہے۔ عدلیہ کے کسی فیصلے سے وہ اگر اس سے محروم بھی ہوجاتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ جس حکومت کا حق بھی اسے عوام نے نہیں دیاتھا اُسے بچانے کی خاطر اتنے جتن کیوں کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی حفاظت اور معاشی خوشحالی کی ذمے داری صرف ایک سیاسی پارٹی پر تو لاگو نہیںہوتی۔ یہ تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
حکومت نے بلاشبہ سات آٹھ مہینوں میں بہت سے تعمیری کام کیے ہیں اور ملک و قوم کو معاشی بحران سے باہر نکالا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، وہ اگر باقی رہتی ہے تو شاید یہ کام بھی مقررہ وقت پر ممکن ہوپائیں گے، لیکن اس کے پاس جو عوامی مینڈیٹ کی کمی ہے اس کی وجہ سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کسی وقت بھی وہ محروم اقتدار نہ ہوجائے، اور اسے سب سے زیادہ خطرہ اعلیٰ عدلیہ سے ہی ہے۔
اسی لیے وہ بے چین ہوکر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور اس جلد بازی میں اس سے بہت سے غلطیاں بھی سرزد ہورہی ہیں، جو کام وہ گزشتہ اتوار کوکروانا چاہتی تھی اور جو ہو بھی نہ سکا اس کام کے لیے وہ اگر کچھ دن لے لیتی تو شاید اُسے یہ خفت اور سبکی اُٹھانا نہ پڑتی۔ ٹائمنگ کی غلطی نے اُسے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے، وہ اب دوبارہ بھی کوشش کریگی تو وہ کامیابی شاید حاصل نہ کر پائے گی جو وہ اس مجوزہ ترمیم سے چاہتی تھی۔ اب اسے یہ ترمیم سب کے لیے قابل قبول بنانا ہوگی اور اس تاثر کو دورکرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ اس نے کسی ایک شخص کو بچانے کے لیے کیا تھا۔
افراد سے اپنے حق میں توقع رکھنے سے بہتر ہے اپنے عوام سے حمایت کی توقع رکھی جائے۔ ایسے کام کیے جائیں جن سے عوام اُن کے لیے اُسی طرح سڑکوں پر نکل آئیں جس طرح ترکی کے طیب اردگان کے لیے لوگ نکل پڑے تھے۔
اُسے دھڑکا لگا رہا ہے کہ کہیں یہ عدالت اس کے سب سے بڑے مخالف کی ضمانت منظور کر کے رہا نہ کردے اور وہ شخص اگر رہا ہوگیا تو پھر اُسے کوئی بھی قابو نہیں کر پائے گا۔ یہ ڈر اور خوف اُسے ایک لمحے بھی چین سے حکومت کرنے نہیں دے رہا۔ اس لیے اس کی اولین کوشش یہی ہے کہ کسی طرح اس شخص کو جیل سے باہر آنے نہیں دیا جائے۔ عوام کے اندر اس کی زبردست مقبولیت ہے ۔ اکتوبر کے اواخر میں موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے، ان کے بعد جس شخص کو چیف جسٹس بننا ہے وہ موجودہ دستور کے مطابق سب سے سینئر شخص کو بننا ہے۔
حکومت اس مروجہ آئینی قانون میں تبدیلی کر کے اُس کا راستہ روکنا چاہتی تھی جو تمام ترکوششوں کے باوجود ہو نہ سکا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومت کو اتنی کیا جلدی تھی کہ اس نے اتوار کے دن دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا کر بھی رات گئے تک اس مجوزہ آئینی ترمیم کو منظور نہیں کروا پائی بلکہ اپنی جلد بازی اور حماقت کی وجہ سے مولانا جیسے شخص کی حمایت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ اب مولانا شاید ہی اس بات پر راضی اور رضا مند ہو پائیں۔ فی الحال یہ معاملہ سرد خانے کے سپرد کردیا گیا ہے لیکن حکومت کی کوشش ہوگی کہ ایک بار پھرکسی نہ کسی طریقہ سے اسے پھر ایوان میں لاکر فوری ووٹنگ کروا کے پاس کروا لے۔
حکومت کو ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی اس ترمیم کو ہماری اعلیٰ عدلیہ تسلیم بھی کرے گی یا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمان سپریم ہے، وہ جو فیصلہ کر لے اُسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے لیکن ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ پارلیمان سے اوپر بھی ایک ادارہ ایسا ہے جو اگر چاہے تو اس پارلیمنٹ کی کسی بھی ترمیم پر جائزہ لے کر اُسے رد یا مسترد بھی کرسکتا ہے، وہ اگر چاہے تو کسی بھی پاس شدہ قانون کو خلاف آئین یا عوامی حقوق کے برخلاف قرار دے کر منسوخ بھی کرسکتاہے۔ حکومت ایسی صورت میں کہاں کھڑی ہوگی یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کوئی حکومت بھی ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے ٹکر نہیں لے سکتی ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جب جب کسی نے اعلیٰ عدلیہ سے ٹکر لینے کی کوشش کی نقصان اسی شخص کا ہوا ہے۔ آپ کوئی بھی قانون بنا لیں وہ نافذ العمل اسی وقت ہوگا جب تک اعلیٰ عدالت سے اس کی توثیق نہیں آجاتی۔ عدالت نے اسے خلاف دستور قرار دے دیا تو پھر وہ ترمیم ازخود ختم ہوسکتی ہے۔ عدلیہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی دستوری قانون کی تشریح اس کا کام ہے ۔ پارلیمان صرف اس قانون کو بنا سکتی ہے لیکن اس کے جائز اور ناجائز ہونے کا فیصلہ صرف عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔
ہم نے ماضی میں ایسے بہت سے فیصلے بھی دیکھے ہیں جو آج کے جمہوری نظام میں ہرگز ممکن نہیں ہیں۔ نظریہ ضرورت کے تحت کسی زمانے میں آئین کی سراسر خلاف ورزی اور پامالی کو بھی جائز قراردیا جاچکا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں 1997 میں اس وقت کی نواز حکومت کے ساتھ محاذ آرائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ قانون کے مطابق عدلیہ کے بینچ تشکیل دینا صرف چیف جسٹس کا اختیار ہوا کرتا تھا جسے موجودہ چیف نے کچھ سینیئر ججوں میں بانٹ دیا ہے۔ اب ایک چیف اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کون سا جج کسی کیس کو سنے گا اور کون نہیں۔ اس حوالے سے موجود چیف جسٹس یقینا ستائش کے حقدار ہے کہ انھوں نے اپنا یہ اختیار اپنی مرضی سے کچھ سینئر ججوں میں تقیسم کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس طرح انھوں نے فیصلوں کی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا ہے۔
اس سے پہلے ہمارے یہاں چیف جسٹس جب اور جسے چاہتا تھا کسی مخصوص کیس کے سماعت سے علیحدہ رکھ کر اور اپنے ہم خیال ججوں کو بیچ میں شامل کر کے اپنی مرضی ومنشاء کے فیصلے صادر کروا سکتا تھا۔ موجودہ حکومت عدلیہ سے بلاوجہ محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مسلم لیگ نون جو فروری 2024 انتخابات میں حکومت لینے کے لیے خوشدلی سے رضامند بھی نہ تھی اور دوسری جماعتوں کے انکارکی وجہ سے اُسے یہ فریضہ اپنے ذمے لینا پڑا تھا، نجانے کیوں اس حکومت کو بچانے کے لیے اتنی مضطرب اور پریشان ہے۔ عدلیہ کے کسی فیصلے سے وہ اگر اس سے محروم بھی ہوجاتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ جس حکومت کا حق بھی اسے عوام نے نہیں دیاتھا اُسے بچانے کی خاطر اتنے جتن کیوں کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی حفاظت اور معاشی خوشحالی کی ذمے داری صرف ایک سیاسی پارٹی پر تو لاگو نہیںہوتی۔ یہ تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
حکومت نے بلاشبہ سات آٹھ مہینوں میں بہت سے تعمیری کام کیے ہیں اور ملک و قوم کو معاشی بحران سے باہر نکالا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، وہ اگر باقی رہتی ہے تو شاید یہ کام بھی مقررہ وقت پر ممکن ہوپائیں گے، لیکن اس کے پاس جو عوامی مینڈیٹ کی کمی ہے اس کی وجہ سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کسی وقت بھی وہ محروم اقتدار نہ ہوجائے، اور اسے سب سے زیادہ خطرہ اعلیٰ عدلیہ سے ہی ہے۔
اسی لیے وہ بے چین ہوکر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور اس جلد بازی میں اس سے بہت سے غلطیاں بھی سرزد ہورہی ہیں، جو کام وہ گزشتہ اتوار کوکروانا چاہتی تھی اور جو ہو بھی نہ سکا اس کام کے لیے وہ اگر کچھ دن لے لیتی تو شاید اُسے یہ خفت اور سبکی اُٹھانا نہ پڑتی۔ ٹائمنگ کی غلطی نے اُسے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے، وہ اب دوبارہ بھی کوشش کریگی تو وہ کامیابی شاید حاصل نہ کر پائے گی جو وہ اس مجوزہ ترمیم سے چاہتی تھی۔ اب اسے یہ ترمیم سب کے لیے قابل قبول بنانا ہوگی اور اس تاثر کو دورکرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ اس نے کسی ایک شخص کو بچانے کے لیے کیا تھا۔
افراد سے اپنے حق میں توقع رکھنے سے بہتر ہے اپنے عوام سے حمایت کی توقع رکھی جائے۔ ایسے کام کیے جائیں جن سے عوام اُن کے لیے اُسی طرح سڑکوں پر نکل آئیں جس طرح ترکی کے طیب اردگان کے لیے لوگ نکل پڑے تھے۔