کیئر اکانومی عالمی ہدف…خواتین کے بلامعاوضہ کام کو تسلیم کرنا ہوگا!

2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم نے ’کیئر اکانومی‘ کی تعریف میں تبدیلی کرکے بلامعاوضہ کیئر ورک کو بھی شامل کیا۔ یہ موضوع نیا ہے جس کے بارے میں پاکستان میں پہلی باقاعدہ تحقیق کی گئی ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف سے بھی ہے۔

کیئر اکانومی، بلامعاوضہ کیئر ورک کیا ہے اور اس ریسرچ میں کن پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے؟ اس کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ریسرچر سمیت حکومت اور سول سوسائٹی کی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عظمیٰ کاردار

(رکن پنجاب اسمبلی)

گھر پہ خواتین کے بلامعاوضہ کیئر ورک کے قانونی، معاشی اور معاشرتی پہلو ہیں۔ میرے نزدیک فی الوقت اس کی قانونی ومعاشی حیثیت نہیں ہے، یہ معاشرتی مسئلہ ہے جس کا تعلق ہمارے سماجی رویوں سے ہے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ہمارے سماجی رویے اس مسئلے کی اصل روح کو سمجھنے کے بجائے اس کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کریں گے اورانہیں ہائی لائٹ کیا جائے گا۔یہ معاملہ مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔

مرد کی حاکمانہ سوچ والے اس معاشرے میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خواتین کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار نہیں، غریب گھرانوں کی خواتین کو بولنے کی بھی اجازت نہیں۔ اب تو امیر گھرانوں میں بھی رجحان ہے کہ کم تعلیم یافتہ بہو لائی جائے تاکہ وہ دب کر رہ سکے لہٰذا جب خواتین کے بلامعاوضہ کیئر ورک کی بات کی جائے گی تو لوگ سمجھیں گے کہ خاندانی نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے، بہو کو سر پر بٹھانے کی بات کی جا رہی ہے۔

اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی کی جائے اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ خواتین کس طرح کاموں میں دن رات ایک کر رہی ہیں۔خواتین کا بدترین استحصال ہمارے سماجی رویوں کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔ دین اسلام نے خواتین کو سب سے زیادہ حقوق دیے۔ وراثت کا حق بھی دیا اور مرد پر فرض کیا کہ وہ اپنی بیوی کے اخراجات اٹھائے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا اور اپنانا ہوگا۔ عورت سپر ویمن ہے جو گھر میں بھی کام کرتی ہے اور باہر بھی۔ ہمیں گھر سے لڑکوں کی تربیت کرنی ہے، ان کی سوچ اور رویوں کو بدلنا ہے، صرف خواتین کو آگاہی دینے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ ضرورت ہے کہ معاشرے کے مردوں کی سوچ اور مجموعی رویے تبدیل کیے جائیں۔

صباحت جمیل

(اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ لیبر پنجاب)

مزدوروں کی فلاح ہمارا کام ہے اس میں ہر طرح کے ورکرز شامل ہیں۔ حکومت اور ہمارے محکمے کی خصوصی توجہ ڈومیسٹک ورکرز پر ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ پنجاب میں 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنا اوریہ خوش آئند ہے کہ پہلی مرتبہ ڈومیسٹک ورکرز کی عزت اور وقار کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ’ورکر‘ تسلیم کیا گیا۔ 2023ء میں پہلی مرتبہ پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت مقرر کی گئی۔ پنجاب حکومت نے 5 ستمبر 2024ء کو کم از کم اجرت میں اضافہ کرکے 37 ہزار مقرر کر دی ہے، یہ ان سکلڈ ورکرز کے حوالے سے ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے ان کی چھٹیاں، اوور ٹائم، دوران زچگی چھٹیاں و دیگر سہولیات جو وکررز کو حاصل ہیں، انہیں بھی مل گئی ہیں۔

محکمے نے اس حوالے سے سیکرٹری لیبر کی ہدایت پر آگاہی مہم بھی چلائی۔ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی بہترین حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جا رہا ہے۔ ہمیں قوانین کی خلاف ورزی خصوصاََ کم از کم اجرت کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی ہیں،خلاف ورزی پر پر بھاری جرمانے بھی کیے گئے ہیں اور بعد میں فالو اپ بھی کیا جاتا ہے۔ شکایات کیلئے ہماری ہیلپ لائن 1314 موجود ہے ۔

شکایت موصول ہونے کی صورت میں7 دن کے اندر اندر مسئلہ حل کیا جاتا ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں ڈومیسٹک ورکرز ویلفیئر فنڈکے قیام کی بات بھی کی گئی تھی جس میں حکومت نے فنڈز دینے تھے اور کچھ حصہ آجر اور ورکرز نے ادا کرنا ہے۔ محکمہ لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے 5 ملین کی رقم اس فنڈ میں جمع کروا دی ہے جس کے بعد ڈومیسٹک ورکرز کو سوشل سکیورٹی و دیگر سہولیات دی جا سکیں گی۔ ڈومیسٹک ورکرز کے بلامعاوضہ کیئر ورک کا مسئلہ نیا ہے، اس پر جو تحقیق ہوئی وہ قابل تعریف ہے۔ ہم نے بھی سروے کروایا جس کے نتائج ان سے ملتے جلتے ہیں۔ ہمیںا س مسئلے پر لوگوں کو آگاہی دینی ہے اور انہیں صحیح انداز سے سمجھانا ہے کہ یہ مسئلہ کیا ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں۔ اس میں میڈیاکا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہم قانون سازی کے حوالے سے کمیٹی کی میٹنگ میں سفارشات پیش کریں گے۔

ڈاکٹر شہلا تبسم

(سربراہ جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی)

2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم نے جب کیئر اکانومی کی تعریف میں تبدیلی کرکے بلامعاوضہ کیئر ورک کو شامل کیا تو سوال اٹھا کہ اس کا حساب کس طرح کیا جائے گا۔ ہم نے اس پر کام کا آغاز کیا ۔ سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، کمیونٹی ورکرز، ماہرین معاشیات، طلبہ و دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ 6 ماہ کی مسلسل مشاورت اور محنت سے سوالنامہ تیار کیا گیا اور حکومت کی 2023ء میں مقررکردہ کم از کم اجرت کے مطابق معاوضے کا تعین کیا گیا۔

ہم نے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی اور یہ پاکستان کی پہلی رپورٹ ہے جو بلامعاوضہ کیئر ورک کے حوالے سے ہے جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے 5.4.1 ہے۔ اس ہدف میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بلامعاوضہ کیئر ورک کو تسلیم کیا جائے، اہمیت دی جائے اور اس کی معاشی حیثیت کا حساب بھی لگایا جائے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں کارکردگی کی جو رپورٹ جمع کروائی ہے اس میں اس ہدف کے بارے میں صفر کی رپورٹ ہے، ہم ارباب اختیار کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس پر ہم نے کام کیا ہے، اسے شامل کیا جائے۔ ہم نے 209 ڈومیسٹک ورکرز پر یہ تحقیق کی ہے، ایک سوالنامہ کو حل کروانے میں ایک گھنٹہ 10 منٹ لگے ہیں، اس حوالے سے ڈیٹا کولیکشن کی باقاعدہ تربیت دی گئی۔

اس ریسرچ میں نئے اور مختلف پہلو سامنے آئے۔ ڈومیسٹک ورکرز گھر اور گھر سے باہر ایک ہی کام کرتی ہیں اور سارا دن بعد ان کی توانائی انتہائی کم ہوتی ہے، وہ خود کو ختم ہوتا محسوس کرتی ہیں۔ ہماری اس ریسرچ کے چند اہم نکات یہ ہیں کہ ٭ایک خاتون ڈومیسٹک ورکر کی انفرادی معاشی قیمت کا اوسطاََ تخمینہ گھریلو کام کاج کے حوالے سے 9ہزار 681 روپے، بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے 38 ہزار 321 روپے، بزرگ افراد کی دیکھ بھال کے حوالے سے 6ہزار 971 روپے اور خصوصی دیکھ بھال کے ضرورتمند افراد کے حوالے سے 19 ہزار 675 روپے ہے۔

ان تمام کاموں کی خدمات کا کل 74 ہزار 646 روپے بنتاہے۔ ٭ایک خاتون ڈومیسٹک ورکر کو گھریلو کام کاج میں 3گھنٹے، بچوں کی دیکھ بھال میں 8 گھنٹے، بزرگ افراد کی دیکھ بھال میں 1 گھنٹہ اور خصوصی دیکھ بھال کے ضرورتمند افراد کی دیکھ بھال میں 4 گھنٹے لگتے ہیں جو کل ملا کر 16 گھنٹے بنتے ہیں۔٭75 فیصد خواتین کی ماہانہ آمدنی 30 ہزار روپے سے کم ہے جبکہ انہیں دوہرا کام کرنا پڑتا ہے۔ ٭بامعاوضہ کام کیلئے اوسطاََ 6 گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور بلامعاوضہ کام کیلئے 5.51 گھنٹے صرف ہوتے ہیں، اس طرح انہیں روزانہ 11.51 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔

٭76 فیصد خاندان ایسے ہیں جو گھریلو کام کاج کو مرد اور عورت کے درمیان مساوی تقسیم کو تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ ٭64 فیصد خواتین کے حوالے سے رپورٹ کیا گیا کہ ان کے خاندان کے افراد گھریلو کام کاج میں حصہ نہیں ڈالتے۔ ٭68 فیصد خواتین کام کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کوئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ 32 فیصد خواتین مشینری سے استفادہ کرتی ہیں۔ ٭89 فیصد کارکن خواتین کی خواہش ہے کہ خواتین پر کام کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کوئی امدادی نیٹ ورک ہونا چاہیے۔ ٭74 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کمیونٹی سپورٹ سسٹم کے تحت گھریلو کام کاج کے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ٭27فیصد خواتین گھر میں اکیلی کما کر لانے والی ہیں جن میں زیادہ تر بیوہ خواتین ہیں۔ ہماری خواتین تکلیف میں ہیں، مل جل کر کام کرنے سے ان کی مشکلات کم کی جاسکتی ہیں اور بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

 اسماء عامر

(نمائندہ سول سوسائٹی)

2022ء میں ورلڈ اکنامک فورم نے کیئر اکانومی کی تعریف میں تبدیلی کی اور اس میں بلامعاوضہ کیئر ورک کو بھی شامل کیا گیا۔ کیئر ورک، ایسا کام ہے جو گھر یا کام کی جگہ پر کیا جاتا ہے، یہ ذہنی اور جسمانی کیئر کے حوالے سے ہے۔ خواتین یہ کام با معاوضہ اور بلا معاوضہ کرر ہی ہیں۔ کام کی نوعیت کے حساب سے انہیں چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس میں گھریلو کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال، بزرگوں کی دیکھ بھال اور افراد کی دیکھ بھال جنہیں خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مثلاََ ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار افراد، شامل ہیں۔ گھریلو کام کاج میں صفائی، دھلائی، کپڑے استری کرنا اور کھانا پکانا شامل ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال میں ان کی پرورش، جسمانی لحاظ سے نشوونما اور سماجی و اخلاقی تربیت شامل ہیں۔

بزرگ افراد کی دیکھ بھال میں ان کی جسمانی ، طبی، سماجی دیکھ بھال شامل ہے۔ خصوصی افراد کی دیکھ بھال میں جسمانی اور ذہنی تربیت و دیکھ بھال شامل ہیں۔ عالمی ادارہ لیبر کے مطابق دنیا میں 76 فیصد خواتین بلامعاوضہ کام کرتی ہیں۔ آئی ایل او کا کنونشن189 ڈومیسٹک ورکرز کی بات کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ہدف نمبر 5 صنفی برابری کے حوالے سے ہے۔

5.4.1 بلامعاوضہ کیئر ورک کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں تمام خواتین بلامعاوضہ کیئر ورک کر رہی ہیں اور کیئر اکانومی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں مگر ان کے اس کام کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اسے تسلیم کرنا بے حد ضروی ہے۔ یہ ریاستی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور خاندانی سطح پر بھی۔ ہم نے اس حوالے سے ریسرچ کروائی ہے اور اس کام کو ڈومیسٹک ورک کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز پسا ہوا طبقہ ہے، یہ گھر سے باہر بھی یہی کام کرتے ہیں اور گھر میں بھی۔ اس سے ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کیئر انڈیکس بنانا چاہیے کہ تاکہ ان کے کام کو تسلیم کیا جاسکے۔ بلامعاوضہ کیئر ورک کو تسلیم کرنے حوالے سے ہماری کچھ تجاویز اور سفارشات ہیں۔

(1)عوام میں شعوری بیداری کے لیے ایسے پروگرام منعقد کروائے جائیں جن میں عوامی سطح پر بلا معاوضہ خدمات کی اقتصادی اور معاشرتی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ نہ صرف خواتین بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی بھلائی کیلئے گھر کی دیکھ بھال کے کاموں کی ذمہ داریوں کی تقسیم کے عمل کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے اور ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھے بھی اور نبھائے بھی۔ ثقافتی اقدار کا ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جو خواتین کے کثیر الجہتی معاشرتی کردار کی اہمیت کو سمجھے اور اسے بھرپور طریقے سے سراہا جائے۔ (2) وقت اور محنت و مشقت کی بچت کیلئے نئی خودکار مشینری اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی تربیت دے کر گھریلو کام کاج کا بوجھ قدرے کم کیا جاسکتا ہے۔

خود کار آلات کے استعمال کے تربیتی پروگرامز کی مدد سے گھریلو دیکھ بھال کے کام کو زیادہ بہتر طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔ ایسی مشینری اور ٹیکنالوجی کی قیمتیں عام افراد کی دسترس میں لانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ (3)گھر کے مرد و دیگر افراد خانہ کی سوچ میں تبدیلی، ذہنی مہارتوں کی تربیت میں مدد اور معاشرے کے بیشتر افراد کو گھریلو کام کاج میں معاونت کا اہل بنانے کیلئے تربیتی پروگرامز کروائے جائیں۔ ایسے تربیتی پروگرامز میں شمولیت سے نہ صرف مردو دیگر اہل خانہ کو کام کی مہارت سکھائی جاسکتی ہے بلکہ ان میں گھریلو کام کاج کرنے کے حوالے سے جھجک کو دور کرکے بااعتماد بنایا جاسکتا ہے۔ (4) ذرائع ابلاغ کے استعمال سے عوام میں شعور پیدا کیا جائے۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعے ثقافتی اور سماجی لحاظ سے وضع کردہ اصولوں کا ازسر نو جائزہ لیا جائے جو روایتی صنفی کردار کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ معاشرے کی ترویج و تشکیل میں ہر فراد کا کردار اہم ہے۔ جب روایتی کرداروں میں تبدیلی آتی ہے تو ذمہ داریوں میں بھی بدلاؤ آنا ضروری ہے۔ (5)تعلیمی نصاب میں ایسی اصلاحات اور ترجیحات مرتب کی جائیں جو روایتی صنفی کرداروں کو بدلنے، معاشرتی اور معاشی حالات سے ہم آہنگ کریں۔ تعلیمی اداروں کے تعاون سے نصابی مواد میں مساواتی اور معاوناتی مواد شامل کیا جائے۔ ’’گھریلو ذمہ داریوں میں ہر فرد کا حصہ ہوتا ہے‘‘، ذہنی تربیت کیلئے اس طرح کا تحریری مواد آنے والی نسلوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے تعاون اور محبت و احترام جیسے احساسات پروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے۔ پرانے دقیانوسی تصورات کو رد کرکے بلامعاوضہ خدمات کا اعتراف و احترام اور ذمہ داریوں کی دوبارہ تقسیم کرکے اہل خانہ کو نئے فرائض تفویض کرنے کے عمل کو تعلیم و تربیت کا حصہ بنایا جائے۔

(6)تحقیقی عمل اور اعداد وشمار کے حصول کے عمل کو جاری رکھا جائے جن کی روشنی میں بلامعاوضہ گھریلو نگہداشت کے کاموں کے حجم اور نوعیت کا تعین کرکے جائزہ لیا جائے۔ باقاعدگی سے معاشرتی فلاح کی پالیسیاں اور سفارشات کی بنیاد پر معاشرتی ضروریات کو سمجھتے ہوئے مشکلات کو کم کرکے خواتین کی بامعاوضہ اور بلامعاوضہ خدمات میں توازن پیدا کیا جائے۔ (7) ایسے کمیونٹی سپورٹ نیٹ ورک قائم کیے جائیں جو گھریلو ملازم خواتین کے درمیان یکجہتی اور معاونت فراہم کرنے کا ذریعہ بنیں۔ یہ نیٹ ورک ایسے پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہیں جو مختلف تجربات کی روشنی میں بہترین تجاویز اور متبادل ذرائع فراہم کرنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔

کمیونٹی کی مضبوطی اور اتحاد مشترکہ کوششوں کے ذریعے دیکھ بھال کے کام کا بوجھ کم کرنے میں معاونت کرسکتی ہے۔ (8)کام کی جگہ پر ایسی پالیسیوں کا نفاذ کیا جائے جو خواتین کی ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنے میں معاونت کریں اور کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوں۔ یہ پالیسی کام کے اوقات میں کمی، کام کی نوعیت میں تبدیلی اور سہولت کار عناصر کا استعمال اور خاندانی دباؤ کو کم کرکے کام کے ماحول کو سازگار بنانے کا کام کریں۔ اس طرح ورکر خواتین اپنی دوہری ذمہ داریوں، بامعاوضہ کام اور بلامعاوضہ خدمات کو بہتر طور پر منظم کرسکتی ہیں اور سہولت کے ساتھ انجام دے سکتی ہیں۔ (9)حکومتی ادارے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو گھریلو دیکھ بھال کے کام کاج کی دوبارہ سے مساوی تقسیم کو منظم انداز میں انجام دیں۔

اس کام کیلئے ایسی خاندان دوست پالیسیاں مرتب کرنے میں کچھ مزید اداروں کو ترغیب دی جاتی ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کے ذریعے معاونت فراہم کرسکتے ہیں اور صنفی ذمہ داریوں کے اہداف کی تکمیل کو فروغ دینے کی تربیت کرسکتے ہیں۔(10)گھریلو کام کاج کی ذمہ داریوں کی صنفی اعتبار سے مساویانہ تقسیم کو نئے قوانین وضع کرکے اور طے شدہ قوانین میں تبدیلی کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قانونی فریم ورک کو شامل کیا جاسکتا ہے کہ صرف حقوق کے حصول کیلئے نہیں بلکہ افراد خانہ ذمہ داریوں میں بھی حصہ دار ہوں اور صنفی بنیادوں پر گھر کی تمام ذمہ داریاں ایک فرد پر لادنے کے تصور کو رد کیا جائے۔ نئی قانون سازی کے ذریعے اس تبدیلی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔

بلامعاوضہ گھریلو خدمات فراہم کرنے والی خواتین چاہتی ہیں کہ ان کی بلامعاوضہ گھریلو خدمات کے عوض کوئی ان کا شکریہ ادا کرے اور تحسین کے چند کلمات بول دے۔ ریاست اور معاشرہ ہماری بلامعاوضہ خدمات کیلئے کی گئی مشقت اور وقت کے استعمال کو تسلیم کرے۔بلامعاوضہ فرائض کی ادائیگی میں ہمارے جذباتی اور جسمانی مشقت کے کردار کو سماج اور خاندان محسوس کرے۔خواتین کے بلامعاوضہ خدمات کے اعتراف کیلئے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی جائے اور اعتراف کیا جائے کہ ان خواتین کا معاشرے میں کتنا اہم کردار ہے۔ثقافتی اور سماجی اثر سے آزاد بلا معاوضہ خدمات کو آزادانہ خواہش کے مطابق کرنے دیا جائے۔

بلامعاوضہ خدمات کی ادائیگی میں خواتین کے کردار کا اعتراف مذہبی اور ثقافتی طور پر کیا جائے اور اسے سراہا جائے۔بلامعاوضہ خدمات کی ادائیگی میں سہولت کیلئے ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ متعارف کروایا جائے اور معاشی طور پر ان کا حصول ممکن بنایا جائے،دیگر افراد خانہ خوش دلی سے گھریلو دیکھ بھال کے کام کاج میں اپنی شمولیت یقینی بنائیں۔ اس طرح گھر میں تعاون کی فضا بحال ہوگی اور خواتین پر کام کا دباؤ قدرے کام ہوجائے گا۔