بچوں کا جنسی استحصال؛ ملائیشیا میں اسلامی اسکول کے علما سمیت 355 افراد گرفتار

ویب ڈیسک  پير 23 ستمبر 2024
یہ فلاحی مراکز ایک ایسے فرقے ’’دار الارقم‘‘ کے ہیں جس پر ملائیشیا میں اکتوبر 1994 سے پابندی ہے

یہ فلاحی مراکز ایک ایسے فرقے ’’دار الارقم‘‘ کے ہیں جس پر ملائیشیا میں اکتوبر 1994 سے پابندی ہے

کوالالمپور: ملائیشیا کے اسلامی بورڈنگ اسکول میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کی تحقیقات کے بعد پولیس نے 355 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا جن میں علما بھی شامل ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فلاحی مراکز جن میں اسکول اور قیام و طعام کی سہولت بھی موجود تھی۔ ’گلوبل اخوان سروس اور بزنس‘ (جی آئی ایس بی) کے زیر انتظام تھی۔

ملائیشیا پولیس کے انسپکٹر جنرل رضارالدین حسین نے بتایا کہ ’گلوبل اخوان سروس اور بزنس‘ (جی آئی ایس بی) کا تعلق ایک ایسے فرقے ’’دار الارقم‘‘ سے ہے جس پر اکتوبر 1994 سے پابندی ہے۔

ان فلاحی مراکز میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات سامنے آنے پر پہلی بار دسمبر 2023 میں ایک مرکز پر چھاپا مار کر 400 سے زائد بچوں کو بازیاب کرانے اور 171 اساتذہ اور عملے کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ملائشیا کے پولیس چیف رضاالدین حسین نے بتایا کہ طبی معائنے میں کم از کم 13 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی۔

یہ خبر بھی پڑھیں : جنسی استحصال؛ ملائیشیا میں 400 بچوں کو خیراتی ادارے سے بازیاب کرالیا گیا

انسپکٹر جنرل پولیس نے بتایا کہ گزشتہ برس کی اس کارروائی کے بعد تفتیش کو بڑھاتے ہوئے اس گروپ کے دیگر خیراتی اداروں، کلینک، کاروباروں، اسلامک سکول اور نجی گھروں سمیت 82 مقامات پر چھاپے مارے گئے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اس آپریشن کے دوران جنسی استحصال کے شکار 186 بچوں کو بازیاب کرا گیا۔ گروپ کے 96 اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں جن میں تقریباً ایک لاکھ 24 ہزار ڈالر رقم موجود تھی۔

پولیس کے بقول اب تک بازیاب کرائے گئے بچے اسی فرقے کے والدین کے بچے ہیں۔

’’جی آئی ایس بی‘‘ نامی ادارے کی ویب سائٹ پر  تعارف ایک اسلامی کمپنی کے طور پر کروایا گیا ہے جو انڈونیشیا، فرانس اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک میں سپر مارکیٹس سے لے کر ریستورانوں تک مختلف کاروبار چلاتے ہیں۔

پولیس کے خیال میں فلاحی مراکز میں موجود تمام 402 بچے جی آئی ایس بی کے ممبران کی اولاد ہیں۔

گلوبل اخوان سروس اینڈ بزنس نے ابتدائی طور پر ان الزامات کی تردید کی تھی تاہم گزشتہ ہفتے کمپنی کے فیس بک پیج پر چیف ایگزیکٹو ناصر الدین نے ایک یا دو جنسی زیادتی کے واقعات ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔