آس پڑوس کے ممالک کی نسبت پاکستان میں بجلی مہنگی کیوں

اُن عوامل کا جائزہ جنھوں نے بجلی کے بلوں کو بھاری بھرکم بنا کرعوام الناس کو خودکشیاں کرنے پر مجبورکردیا

اُن عوامل کا جائزہ جنھوں نے بجلی کے بلوں کو بھاری بھرکم بنا کرعوام الناس کو خودکشیاں کرنے پر مجبورکردیا۔فوٹو : فائل

دو ہزار سال قبل رومی بادشاہ ، جولیس سیزر کو اس کے دوست ، بروٹس نے دھوکے سے قتل کر دیا تھا۔اس واقعے سے متاثر ہو کر 1599ء میں ممتاز انگریز ڈرامہ نگار، شیکسپیٔر نے اپنے مشہور ڈرامے،''جولیس سیزر کا المیّہ'' میں یہ سطر لکھی: " پیارے بروٹس، عیب ہمارے ستاروں نہیں، خود اپنے اندر ہے"۔ یہ سطر ذاتی جواب دہی کی اہمیت واضح کرتی ہے جس کی مدد سے انسان اپنی غلطیوں سے آگاہ ہو کر انھیں درست کرنے کی سعی کرتا ہے۔

لگتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس اصول سے ناواقف ہے، اسی لیے ذاتی جواب دہی بروئے کار نہیں لاتا اور غلطیوں کو دہراتا چلا جاتا ہے۔ اہل پاکستان اسی روش کے باعث آج مہنگی بجلی کا عذاب بھگت رہے ہیں جس نے صرف حکومتی طبقے کی نااہلی اور ذاتی جواب دہی نہ ہونے کے سبب جنم لیا۔

پاکستان بھر میں لوگ بھاری بھرکم بل آنے کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ یہ بل انھیں جرائم کی طرف بھی راغب کر رہے ہیں کہ چوریاں کر کے اور ڈاکے ڈال کر لوگوں کو لوٹو اور بل ادا کرو۔ خودکشیوں اور جرائم میں اضافے کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو غفلت، کرپشن اور سستی کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کا نظام ٹھیک نہیں کر پایا۔ چونکہ دور جدید میں بجلی اور ترقی و خوشحالی کا چولی دامن جیسا ساتھ ہو گیا ہے، لہذا پاکستان میں خراب بجلی نظام کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست ہو چکی ، بلکہ بعض شعبوں میں تو اس باعث زوال جنم لے چکا ہے۔ آج عام آدمی ہی نہیں اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ بھی مہنگی بجلی کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

تاریخی حقائق

بدقسمتی سے حکمران طبقے نے روزاول سے خراب بجلی نظام کو ٹھیک کرنے کی عملی کوششیں نہیں کیں۔ تاریخی حقائق کے مطابق 1960-59 ء کے سال پاکستان میں 119 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔ مگر اس سال بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب یعنی پیک ڈیمانڈ 131 میگاواٹ رہی۔ اس سے پچھلے سال ہی بجلی کا نظام منظم و منضبط کرنے کی خاطر ''واپڈا''کی بنیاد رکھی گئی تھی مگر یہ ادارہ توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ بجلی کی کمی خاص وعام کو دق کرتی رہی۔

1985-84ء تک پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 5477 میگاواٹ تک پہنچ چکی تھی، مگر حکومت کی نااہلی کے سبب صرف 2143 میگاواٹ بجلی بن رہی تھی۔ جب اس سال ماہ گرما میں بجلی کی پیک ڈیمانڈ 3791 میگاواٹ تک پہنچ گئی تو حکومت نے لوڈ شیڈنگ کا عجوبہ پاکستان میں متعارف کرا دیا۔بجلی کم جنم لینے کی نمایاں وجوہ یہ تھیں: بجلی کی پیداوار مہنگی ہونا مگر گاہکوں کو کم قیمت پر مہیا کرنا، ٹرانسمیشن لائنوں میں خرابی سے بجلی کا ضائع ہونا اور بجلی کی چوری۔1985-84ء میں بننے والی کل بجلی کا ''22.8''فیصد مختلف وجوہ کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ انتہائی حیرانی کی بات ہے کہ تقریباً نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہمارا بجلی نظام درست نہیں ہو سکا اور آج بھی ''16''فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔

بجلی زائد پھر بھی لوڈ شیڈنگ

زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب پاکستان میں 15 ہزار میگاواٹ بجلی ''زائد'' بن سکتی ہے۔ پاکستان میں فی الوقت'' 45 ہزار'' میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے، جبکہ پیک ڈیمانڈ تیس ہزار میگاواٹ کی ہے۔ مگر حقیقت میں پاکستان میں زیادہ سے زیادہ 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہو سکتی ہے...کیونکہ اس سے زیادہ بجلی کو ہمارا ٹرانسمیشن نظام ترسیل نہیں کر سکتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ 22 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل کرنے کے قابل ہے۔ یہی وجہ ہے، آج بھی لوڈ شیڈنگ کا عذب اہل پاکستان پر مسلط ہے ۔



کیپسٹی رقوم کا معاملہ

سوال یہ ہے کہ کیا 23 ہزار میگاواٹ بجلی ضائع چلی جاتی ہے؟ بے شک اہل پاکستان یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ ''کیپسٹی رقوم ''کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کا نیا عجیب وغریب عذاب ہے جو حکمران طبقے نے نااہلی ، دور اندیشی میں کمی اور شاید کرپشن کی وجہ سے پاکستانی عوام پر نازل کر دیا۔ اس بوجھ کے باعث بھی غریب اور متوسط طبقوں کے پاکستانی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے۔

کیپسٹی رقومات کے بوجھ نے 1994 ء کی پاور جنریشن پالیسی سے جنم لیا۔ اس پالیسی کے تحت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے نجی طبقے کو ابھارا گیا کہ وہ اپنے بجلی گھر بنائیں اور وہاں پیدا شدہ بجلی حکومت کو فروخت کر دیں۔ معاہدے کرتے وقت کیپسٹی پے منٹ کی شق بھی رکھی گئی، معنی یہ کہ اگر حکومت کو بجلی گھر میں بنی بجلی کی ضرورت نہ ہوئی تب بھی وہ طے شدہ رقم بجلی گھر کو ادا کرے گی۔یہ رقم کیپسٹی رقم کہلاتی ہے۔

خفیہ معاہدے

اسلام آباد میں واقع تحقیقی ادارے، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (Institute of Policy Studies) کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے چالیس سال کے دوران حکومت نے نجی کمپنیوں کو بجلی گھر بنانے کی خاطر ''232'' لائسنس جاری کیے۔ اس وقت 90 ایسے بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو عرف عام میں ''آئی پی پیز'' (ipps) کہلاتے ہیں۔ اعداد وشمار کی رو سے یہ نجی بجلی گھر ''24,958'' میگاواٹ بجلی بنانے پر قادر ہیں۔ جبکہ ''11 سے 14ہزار ''میگاواٹ بجلی آبی ذرائع، ''3 ہزار'' میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔

حکومت پاکستان اور ''آئی پی پیز'' کے درمیان انجام پائے معاہدے حکمران طبقے کی رو سے خفیہ ہیں۔ وہ انھیں افشا بھی نہیں کرنا چاہتا۔ شاید اِس لیے کہ اُس کی کوتاہیاں اور غلطیاں دنیا بھر کو معلوم ہو جائیں گی۔ اسی خفیہ پن کی وجہ سے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ حکومت ہر سال کل کتنی رقم ان نجی بجلی گھروں کو دیتی ہے۔ اور اس رقم میں کیپسٹی رقم کا کتنا حصہ ہوتا ہے۔

حد یہ ہے کہ بعض آئی پی پیز سال میں ایک گھنٹے جتنی بجلی بھی نہیں بناتے مگر وہ اربوں روپے کیپسٹی رقم کی صورت میں وصول کر لیتے ہیں... کیونکہ معاہدے میں لکھا ہے کہ یہ رقم انھیں ہر حال میں ادا کی جائے گی۔ حکومت ان آئی پی پیز کے خلاف ایکشن بھی نہیں لیتی کہ اسے خطرہ ہے، یہ عالمی عدالتوں میں چلے جائیں گے جو پاکستان پہ بھاری جرمانہ عائد کرنے کی شہرت رکھتی ہیں۔

کیپسٹی چارجز کے اربوں روپے

کچھ عرصہ قبل وزیر توانائی، اویس لغاری نے قوم کو بتایا تھا کہ پچھلے مالی سال کے دوران '' 33'' آئی پی پیز کو ''979.3''ارب روپے ادا کیے گئے۔ جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق یہ رقم تین ہزار ارب روپے کی قریب پہنچ جاتی ہے جو بھاری بھرکم عدد ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ وسط ستمبر میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پشاور ہائی کورٹ میں حکومت اور آئی پی پیز کے مابین انجام پائے معاہدوں کے سلسلے میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس موقع پر سرحد چیمبر کے سربراہ، فواد اسحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا: ''رواں مالی سال کے دوران آئی پی پیز کو 2800 ارب روپے کیپسٹی رقوم کی شکل میں دئیے جائیں گے۔ ''یہی عدد دیگر ماہرین کی زبانی بھی سننے کو ملتا ہے۔

فواد اسحق نے مذید کئی انکشافات کیے:''ہم نے کورٹ میں رٹ دائر کی ہے کہ سبھی آئی پی پیز کے معاہدوں کا فورسنک آڈٹ کرایا جائے۔نیز کورٹ یقینی بنائے کہ اصول وقوانین کے تحت آئی پی پیز کو رقوم دی جائیں۔مذید براں حکومت کو آئی پی پیز سے نئے معاہدے کرنے سے روک دیا جائے۔سینٹ کی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ بعض آئی پی پیز کو قانون سے ہٹ کر زائد ادائیگی کی جا رہی ہے۔یہ معاہدے قومی معیشت کے لیے تباہ کن ہیں۔''

قانون شکنی

پریس کانفرنس میں دستاویزی ثبوت پیش کرتے ہوئے سرحد چیمبرز کے سربراہ نے بتایا :''آئی پی پیز سے معاہدوں میں کرپشن ہوئی اور وہ اسی لیے چوری چھپے کیے گئے۔ حکومت وقت مزید 12 آئی پی پیز سے نئے معاہدے کرنے جا رہی تھی۔

ہمارے شدید احتجاج پر چھ آئی پی پیز سے معاہدے ختم کر دئیے گئے۔ہر سال آئی پی پیز کو دی جانے والی رقم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اب عالم یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت 48 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہو چکی۔اس رقم میں کم از کم 24 روپے کیپسٹی رقم کے ہیں جو عوام پاکستان کو دینے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ نیپرا کی رپورٹ کی رو سے کیپسٹی کی رقم 17 روپے کلو واٹ گھنٹہ بنتی ہے۔گویا قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کیپسٹی رقوم کا خرچ غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر لیا جا رہا ہے۔''

فواد اسحق نے مذید یہ انکشاف کیا کہ آئی پی پیز معاہدوں کی شکل میں پاکستان کو کچھ یوں لوٹا جا رہا ہے کہ ان میں انوائسنگ اور کم حرارت قدر (less heat value) تک دکھائی جاتی ہے تاکہ حکومت سے رقم حاصل کی جا سکے۔یہی نہیں کئی آئی پی پیز اپنی بیلنس شیٹس میں منافع 35 تا 45 فیصد دکھاتی ہیں جبکہ معاہدوں کی رو سے یہ منافع 15 سے 17 فیصد ہونا چاہیے۔

ٹاسک فورس کی شرائط

وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ عرصہ قبل آئی پی پیز کو دی جانے والی کیپسٹی پے منٹس کے معاملے کی چھان بین کی خاطر ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔ میڈیا کے مطابق اس ٹاسک فورس نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں میں کیپسٹی پے منٹ کی شق نہ رکھی جائے۔ بلکہ ان سے اس بنیاد پر معاہدے کیے جائیں کہ جتنی بجلی بناؤ گے، اس کی رقم لے لو۔ ٹاسک فورس کو یقین ہے کہ اس پالیسی سے بجلی کی لاگت کم ہو جائے گی اور یوں عوام کو ریلیف ملے گا۔

اسی ٹاسک فورس نے یہ خوفناک انکشاف بھی کیا کہ فی الوقت صارف بجلی کا جو بل دے رہا ہے، اس میں کیپسٹی رقوم کا حصہ ''70'' فیصد ہے۔ گویا حکومت نے آئی پی پیز سے جو اندھا دھند، بے سوچے سمجھے معاہدے کیے، ان کا خمیازہ اب پاکستانی عوام کو نہایت تکلیف دہ انداز میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یاد رہے، اولین آئی پی پیز بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں لگائی گئیں۔ پھر نواز شریف حکومت کے تیسرے دور میں کئی آئی پی پیز سے معاہدے کیے گئے۔ٹاسک فورس نے بھی یہ انکشاف کیا کہ پاکستانی صارفین آئی پی پیز کو ہر سال کیپسٹی رقوم کی مد میں دو سو دس ارب سے لے کراٹھائیس سو ارب روپے تک کی رقم ادا کر رہے ہیں۔



ذرائع ِ حکومت کا کہنا ہے کہ شہباز شریف حکومت نے آئی پی پیز کے سامنے 24 شرائط رکھ دی ہیں تاکہ کیپسٹی پے منٹس کا موجودہ ماڈل ختم کیا جا سکے۔ اس کے بجائے ''ٹیک اینڈ پے ماڈل ''پر عمل کیا جائے گا، یعنی آئی پی پیز جتنی بجلی بنائیں گے، اس کی رقم لے لی جائے۔ اگر آئی پی پیز اور حکومت کے مابین ''ٹیک اینڈ پے ماڈل '' کا معاہدہ انجام پا گیا تو امید ہے کہ بجلی کی قیمت خاصی کم ہو جائے گی۔ یوں عوام سکون کا سانس لے سکیں گے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 24 شرائط یہ ہیں:

٭...ایکویٹی پر واپسی (RoE) کو کم کر کے 10% کر دیا جائے، PKR؍USD انڈیکسیشن کے ساتھ 168 روپے مقرر کی جائے۔

٭... RoEDC(تعمیر کے دوران ایکویٹی پر واپسی) پر توجہ نہیں دی گئی، وضاحت کی ضرورت ہے۔

٭...آپریشن اور مینٹیننس (O&M) کے اخراجات، غیر ملکی اور مقامی دونوں میں، PKR؍USD اشاریہ 168 روپے کے ساتھ، 70% کم ہوئے ہیں۔

٭... تاخیر سے ادائیگی کی شرح 3ماہ KIBOR + 2% پر سیٹ ہو گی۔

٭... نفاذ کے معاہدے (IA) اور حکومتی ضمانتوں کے تحت کمپنی کا حق واپس لینے کا معاہدہ۔


٭... ایندھن کے انتظام کی ذمہ داری کمپنی پر منتقل ہو گی۔

٭...حکومتی گارنٹی کی عدم موجودگی میں، قابل وصول چیزیں غیر محفوظ رہیں گی۔

٭...ورکنگ کیپیٹل کمپوننٹ کے لیے ٹیرف واپس لے لیا گیا۔

٭... ڈسپیچ کیپ101۔5% کی پچھلی حد کو ہٹا کر 100% پر طے کی گئی ۔

٭...ڈسپیچ انسٹرکشن شق میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ بجلی کے خریداروں کو ایک گھنٹہ کی بنیاد پر خالص برآمدی آؤٹ پٹ اور ری ایکٹیو پاور کے لیے اپنی ضروریات کو مطلع کرنے کی ضرورت ہو۔

٭...جبری اور شیڈول آؤٹیج الاؤنسز کی شق 9۔3 سے 9۔5 کو ختم کر دیا گیا۔

٭...انوائسنگ فار انرجی پرچیز پرائس (EPP) کو 30 دنوں میں تبدیل کر دیا گیا، جس کی ادائیگی 30 دنوں کے اندر واجب ہے۔

٭...جانچ اور صلاحیت کی درجہ بندی کے تقاضوں کو چھوڑ دیا گیا ۔

٭...کمپنی انشورنس کے اخراجات برداشت کرے گی۔

٭...نفاذ کے معاہدے کے تحت ٹیکس میں چھوٹ اور قانون کے فوائد میں تبدیلی واپس لے لی گئی ہے۔

٭...کمپنی کا پاس تھرو آئٹمز جیسے کہ WWF، WPPF، اور ڈیویڈنڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس کا دعویٰ کرنے کا حق منسوخ کر دیا گیا ۔

٭...پاور پرچیز ایگریمنٹ (PPA) ختم کر دیا گیا ۔

٭...سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو خصوصی حقوق دیتے ہوئے لینے اور تنخواہ کا انتظام متعارف کرایا گیا۔

٭...حکومت کی سیکورٹی کلیٔرنس ہر تین سال بعد درکار ہوگی۔

٭...فورس میجر کی شقیں ہٹا دی گئی ہیں۔

٭...کوئی بھی فریق 12 ماہ کے نوٹس کے ساتھ معاہدہ ختم کر سکتا ہے، بغیر کسی ذمہ داری کے سوائے ختم ہونے سے پہلے کی گئی ذمہ داریوں کے۔

٭...نظرثانی شدہ PPA کے تحت LD (Liquidated Damages) کی شق اب قابل اطلاق نہیں ۔

٭...تنازعات کے حل کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی گئی ہے، جس کے لیے تنازعات کو ماہر کے ذریعے یا اسلام آباد کی عدالتوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہو گی۔

٭...ترمیم شدہ پی پی اے سے شیڈول اور تکنیکی حدود کو واپس لے لیا گیا ۔

تصویر کا دوسرا رخ

توانائی کے بعض ماہرین بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سلسلے بہت سے مسائل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسٹیک ہولڈرز کا یہ موقف کہ آئی پی پیز کو کیپسٹی رقوم کی ادائیگی بلوں کی رقم بڑھ جانے کی بنیادی وجہ ہے، معاملات کی اصل حالت ظاہر نہیں کرتا۔

ان ماہرین کا دعوی ہے کہ حکومت پاکستان کے محکمہ توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق، کیپسٹی پیمنٹ ، جسے اکثر ٹیرف میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، بجلی کی کل لاگت کا صرف 31 فیصد ہے۔ یہ کیپسٹی پیمنٹ ضروری ہے جس کے بغیر پاور مارکیٹ کا موجودہ ماڈل، جہاں ایک واحد خریدار (CPPA-G) کا بجلی کی پیداوار پر خصوصی حق ہے، کام نہیں کر سکتا۔ وہ کہتے ہیں، ایک ایسے سرمایہ کار کا تصّور کریں جس نے پاکستانی حکومت کی درخواست پر ایک آئی پی پی قائم کرنے کے لیے اپنی لاکھوں ڈالر کی بچت اور بینک قرضے لگائے اور واحد خریدار (حکومت پاکستان ) چند مہینوں کے بعد اس سے توانائی لینے سے انکار کر دیتا ہے۔

معاہدوں کے تحت آئی پی پیز اپنے پاور پلانٹس کو 24؍7 پیداوار کے لیے دستیاب رکھنے کے پابند ہیں، اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں، تو انہیں اس کے لیے بھاری قیمت برداشت کرنا ہوگی۔ کیپسٹی چارجز میں ضروری اخراجات کا معاوضہ شامل ہے جیسے قرض کی خدمت، دیکھ بھال، انشورنس، افرادی قوت وغیرہ۔

بل دیگر خرچے بڑھاتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپسٹی چارجز کے علاوہ بجلی کے بیس ٹیرف میں کئی دوسرے اجزاء شامل ہیں جو بجلی کی مجموعی لاگت بڑھا دیتے ہیں۔ مثلاً ابھی صارفین کا ٹیرف تقریباً 60.18 روپے؍KWH ہے جس میں سے 41.05 روپے؍KWH (68 فیصد) بنیادی ٹیرف ہے اور باقی روپے 20.13؍KWH (32 فیصد) مختلف اقسام کے ٹیکس ہیں۔ صارفین کا ٹیرف دیکھنے کی ایک اور جہت ہے: کل ٹیرف میں جنریشن کی لاگت (EP اور CP) 49 فیصد ہے اور بقیہ 51 فیصد لیویز، ٹیکس، ڈسٹری بیوشن مارجن، کراس سبسڈی اور ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ہیں۔ان مختلف اقسام کے اور رنگ برنگ ٹیکسوں کی مقدار کو جانچنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

یہ ماہرین کہتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ایک اور وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور حالیہ برسوں میں سود کی بلند شرح کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا براہ راست تعلق پیداواری لاگت سے ہے۔

ایک انرجی کنسلٹنٹ نے کچھ یوں وضاحت کی "اصل مسئلہ آئی پی پیز کا نہیں بلکہ سسٹم میں شامل ٹیکس، ٹرانسمیشن نظام میں بجلی کا ضائع ہونا ، بجلی چوری اور دیگر اخراجات ہیں۔ کیپسٹی پے منٹس کی ادائیگیاں پاور پلانٹس کو فعال رہنے کو یقینی بناتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ حکومت بجلی کی چوری کم کرنے اور انفراسٹرکچر کو جدید بنانے جیسے مجموعی نظام کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرے۔

ٹی اینڈ ڈی کے نقصانات

ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (T&D) اور ریکوری کے نقصانات جو نیٹ ورک ایگریگیٹس کے ذریعے کل جنریشن کا 27 فیصد ہوتے ہیں، ان نقصانات کو جنریشن کی لاگت میں شامل کیا جاتا ہے۔ریکوری نقصانات ختم کرنے سے اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کو 10 فیصد تک کم کرکے تقریباً 150 ارب روپے کی سالانہ بچت کی جاسکتی ہے، اس سے صارفین کے ٹیرف میں فی کلو واٹ کافی روپوں کی کمی ہوگی۔

کراچی الیکٹرک (KE) ایک بہترین مثال ہے جس نے 2009ء میں اپنے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کو 36 فیصد سے کم کر کے 2023 ء میں 15۔27 فیصد کر دیا ہے۔ماہرین کہتے ہیں ''اگر ہم ڈسکوز ( DISCOs )کی نجکاری کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم یقینی طور پر اچھی کارکردگی حاصل کر سکتے ہیں اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے ہیں۔ صارفین کے ٹیرف میں بھی کمی آئے گی۔''

ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں بجلی کی نصب شدہ پیداواری صلاحیت میں سب سے بڑا حصہ حکومت کی ملکیت ہے، یعنی 54 فیصد۔ حکومت کے زیر کنٹرول 3700 میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت رکھنے والے تین آئی پی پیز نے مالی سال 2023ء میں 65۔6 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ حکومت پاکستان یا تو اپنے ٹیرف کو کم کر سکتی ہے یا ان اداروں سے حاصل ہونے والے منافع کو صارفین کا ٹیرف کم کرنے کے لیے استعمال کر لے۔

ماہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے کے بجائے ان بنیادی مسائل کو حل کرے۔کیونکہ سرمایہ کار ناراض ہو گئے تو اس سے توانائی کے شعبے میں مستقبل کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔اس سے پہلے بھی کم از کم دو بار آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ گفت و شنید ہو چکی لیکن اس شعبے میں مسائل بدستور برقرار ہیں کیونکہ ان کی جڑ کہیں اور ہے۔

٭٭٭
Load Next Story