توبہ و استغفار کی اہمیت

انسان خطا کا پتلا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے


انسان خطا کا پتلا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ فوٹو : فائل

آج ہم گناہوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ، قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کر رہے ہیں، ہماری صبح ، ہماری شام ، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہے ۔ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے پروردگار کی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔

دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کر رکھا ہے ۔ اس فانی ، عارضی اور ختم ہو جانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمح نظر بنایا ہوا ہے ۔ خوف خدا ، فکرآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس ہمارے اندر سے معدوم ہوتا جا رہا ہے ، گناہوں کی کثرت نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ، حالانکہ کتاب و سنت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام ؑ کے علاوہ کوئی فرد بشر معصوم نہیں ۔ ہر انسان سے خطا ، لغزش اور غلطی کا صدور ہو سکتا ہے ، لیکن ایسا خطار کار جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو دوسرے خطاروں سے بہتر ہے ، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کر لیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناً پوچھے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ صاحب ایمان کو بار بار گناہوں کے ''تریاق'' کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ قرآن کریم کی آیات مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں ، سینکڑوں احادیث مبارکہ میں رجوع الیٰ اللہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے ، بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کر دیا گیا ہے : ''اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔'' پھر سچے دل سے استغفار و توبہ اور اللہ جل شانہُ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں ۔

انسان خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤںکے ازالے کے لیے قرآن کریم نے ہدایت دی اور رہنمائی کی ، چنانچہ سورہ آل عمران کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ '' اگر کبھی کوئی گناہ کا کام ان سے ہو جاتا ہے ، یا ان سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے (یعنی وہ اپنے اوپر ظلم کر لیتے ہیں ) تو اللہ انھیں فوراً یاد آجاتا ہے اور وہ اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں ، استغفار کرتے ہیں ، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو ؟ اور یہ لوگ کبھی جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے'' ۔

اس آیت میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد ہو جائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے ، ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ، یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں ، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ، گناہوں پر جمتے نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا ۔ امام ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا : اے میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی اور وہ زندہ رہیں گے ، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا ، تو اللہ نے فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے ، میں مسلسل ان کو بخشتا رہوں گا۔

ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی ، ہر غم سے دوری ( کا سامان) پیدا فرمائیں گے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیں گے ، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو گا ۔'' (سنن ابو داؤد) دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ''(قیامت کے روز) جو شخص اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائے ، اس کے لیے خوش خبری ہے ۔'' (سنن ابن ماجہ) استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے ۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ''جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ سے رب کریم اس سے زیادہ راضی ( اورخوش) ہوتے ہیں، جتنا تم میں سے کوئی (اس وقت ہوتا ہے جب وہ) اپنی سواری پر جنگل و بیاباں میں جا رہا ہو ، اچانک وہ سواری اس سے گم ہو جائے۔

اس حال میں کہ اس پر اس کا کھانا پینا (بھی) رکھا ہو ، وہ اس (کی واپسی) سے مایوس ہو جائے اور ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ جائے ، ابھی وہ اس حال میں ہو کہ دفعتاً دیکھے وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے ، بس وہ اس کی لگام تھام لے ، پھر مسرت و شادمانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھے : '' اے اللہ! آپ میرے بندے اور میں آپ کا رب ۔'' ( یعنی خوشی کے باعث غلط جملہ کہہ دے ۔ ( صحیح مسلم) رسول اللہ ﷺ نے اپنے مبارک عمل سے بھی اُمت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا ہے ۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : '' اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو ، بے شک میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں'' (صحیح مسلم) بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم توبہ کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آرہے تو پھر ایسی توبہ اور ایسے استغفار کا کیا فائدہ ؟ حالانکہ حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ''جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔

اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے ۔'' ( سنن ابو داؤد) گناہوں پر شرمسار ہونا ، اپنی لغزش کا اقرار کرنا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا ، وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ''بے شک شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا تھا : '' اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا ، جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی ۔'' (جواب میں) اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا : ''میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم ! میرے بلند مرتبے کی قسم ! جب تک میرے بندے مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے ۔

میں انہیں معاف کرتا رہوں گا ۔'' یہاں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم کثرت سے چلتے پھرتے، اپنے کاموں میں مشغول ہوں ، تب بھی استغفار کرتے رہیں ، اور اس کے تین بڑے فائدے اس حدیث میں پیارے رسول کریم ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں ۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ استغفار کی برکت سے اللہ ہمیں پریشانیوں سے بچائے گا اور اگر کوئی آدمی کسی پریشانی میں مبتلا ہو گا ، اللہ تعالیٰ اس پریشانی سے اسے نکال دے گا ۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر غم سے اللہ ہمیں نجات عطا فرمائے گا اور تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہ سے روزی دے گا ، جہاں ہمارا گمان بھی نہیں ہو گا ، غیب کے خزانوں سے ہمیں اللہ تعالیٰ روزی عطا فرمائے گا ۔ نبی کریم ﷺ تو تمام گناہوں سے معصوم تھے، پھر بھی آپ ﷺکثرت سے استغفار کرتے تھے ، چنانچہ حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللّٰھُمّ انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال و الاکرام (صحیح مسلم) مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب سورہ نصر نازل ہوئی تو آپ ﷺ بکثرت''سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَاَتُوبُ إِلَیْہِ'' پڑھتے تھے ۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس حدیث پر عمل کریں اور نمازوں کے بعد ''اسْتَغْفِرُ اللَّہ''پڑھنے کا اہتمام کریں ۔ آپ ﷺ اتنی کثرت سے استغفار کرتے ، اس سے مقصود امت کو استغفار وتوبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت ﷺ باوجود اس کے کہ معصوم اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں ، پھر بھی جب آپ ﷺ نے دن میں ستر بار توبہ و استغفار کی تو امت کے گناہ گاروں کو بطریق اولیٰ استغفار و توبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے ۔ استغفار کن کلمات یعنی کن الفاظ سے کرنا چاہیے، اس کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں ، جس بندے کو جو یاد ہوں وہ کلمات استغفار کے پڑھتے رہنا چاہیے۔ ایک کلمہ استغفار کا ''اَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَاَتُوبُ إِلَیْہِ'' ہے جسے یہ یاد ہو ، یہ پڑھتا رہے ۔ ایک کلمہ '' اَسْتَغْفِرُ اللَّہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اتُوبُ إِلَیْہِ ''ہے ، یہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور جسے یہ یاد نہ ہو تو ''اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ'' ،'' اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ''ہی پڑھتا رہے ۔ یہ مختصر کلمہ ہر مسلمان کو یاد ہوتا ہے۔

اسے پڑھتے رہنا چاہیئے ، اسے زبان پر ہر وقت جاری رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کی تمام فضیلتیں عطا فرمائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: ہم ایک مجلس میں آپ ﷺ سے سو مرتبہ (استغفار کا یہ کلمہ پڑھنا) شمار کیا کرتے تھے: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ إنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (سنن ابو داؤد) حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یقین کے ساتھ'' سید ا لا ستغفار'' پڑھ لے اور شام سے پہلے موت آجائے تو وہ جنت والوں میں سے ہو گا ، اور جو شام میں اسے یقین کے ساتھ پڑھ لے اور صبح سے پہلے موت آجائے تو وہ جنت والوں میں سے ہو گا۔ ''سید الاستغفار'' یہ ہے: اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَاصَنَعْتُ، أَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَأَبُوئُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہُ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ'' اس لیے حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ مومن یعنی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے یعنی وہ سیاہ نقطہ ہٹا دیا جاتا ہے ، اگر وہ آدمی زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے ۔ جو بندہ گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے اور اپنی توبہ پر قائم رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں گناہوں سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا شخص ایسا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ واستغفار کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں