’’بانگ درا‘‘ کی ایک صدی مکمل

علامہ اقبال کے پہلے اردو مجموعے کی اشاعت کے سو سال پورے ہونے پر مضمون


علامہ اقبال کے پہلے اردو مجموعے کی اشاعت کے سو سال پورے ہونے پر مضمون ۔ فوٹو : فائل

اقوام عالم میں یہ اعزاز اور انفرادیت صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اس کا قومی شاعر نہ صرف اپنے دور اور اپنی زبان کا سب سے عظیم شاعر ہے بلکہ تصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے بھی اسے ملک کے فکری اکابر میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔

میں جب بھی علامہ اقبال کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھ پر ایک نیا اقبال منکشف ہوتا ہے۔ افکار کا ایک نیا زاویہ نگاہ، خیالات کا ایک منفرد سلسلہ اور سوچوں کا ایک انوکھا آہنگ۔ اقبال اپنی شاعری اور فکر و فلسفہ کی وسعتوں میں ایک بحر بے کنار کی طرح گذشتہ کئی سالوں سے ہمارے ہیں۔ وہ ایک ایسے خوش بخت فلسفی اور شاعر ہیں جن کی زندگی میں ہی مشاہیر اور اہل علم نے ان پر لکھنا شروع کردیا۔ علامہ اقبال کا فکر و فلسفہ، شاعری، مسلمانوں کے لیے سچی تڑپ، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جدوجہد برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی، پاکستان کے نظریاتی تشخص اور عملی قیام میں کردار مثالی تھا کہ خود بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے ان کی خدمات کا شاندار الفاظ میں متعدد مواقع پر تذکرہ فرمایا۔

علامہ محمد اقبال کے اردو کلام کا پہلا مجموعہ ''بانگ درا'' کے نام سے ستمبر 1924 میں شائع ہوا۔ آج ایک صدی ہونے کو ہے مگر اس کی مقبولیت اور اہمیت وہی ہے جو پہلے روز تھی۔ فکرِاقبال کے ارتقائی مدراج کا مکمل اور جامع اندازہ ''بانگ درا'' سے ہوسکتا ہے۔ حب الوطنی، قومی وملی درد سے لبریز جو خصوصیات اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ مشرق کے اس مفکراعظم کی نوکِ قلم سے نکلی ہوئی وہ پکار جس نے وقت کی مردہ روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ کتاب اردو ادب اور اردو زبان کے تاج میں ایک بیش قیمتی ہیرا ہے۔ بانگ درا ''اردو ادب میں ایسا گراں قدر مجموعہ ہے جسے قیامت تک فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اس میں اقبال کی بلند آہنگ آواز ہے جس نے قوم کو جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔

بانگ درا کا مطلب: اگر معانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو لفظی معانی گھنٹے (بڑی گھنٹی) کی آواز ہے۔ اگر تشریحی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کے معانی گھنٹے وغیرہ کی آواز جو قافلے کی روانگی سے پہلے مسافروں کو ہوشیار کرنے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اس گھنٹے کی آواز جو قافلے کے ساتھ بجتا رہتا ہے تاکہ بھولے بھٹکے مسافروں کی راہ نمائی ہوجائے۔ شاید اسی لیے اقبال نے اپنے اس مجموعے کا نام بانگ درا رکھا، جس سے مراد مسلمانوں کو روحانی اور شعوری طور پر بیدار کرنے کے لیے کی گئی شاعری ہے۔

اس مجموعے میں شامل شاعری گویا سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لیے گھنٹی کی آواز کا کام دیتی ہے...

یہ لفظ اس دور میں استعمال ہوتا تھا جب قافلوں میں سفر ہوتے تھے، سب سے پہلے اونٹ کے گلے میں ایک گھنٹی بندھی ہوتی تھی۔ جب تک قافلہ رواں دواں رہتا تب تک گھنٹی بجتی رہتی اور جب کہیں قیام کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اونٹ کو روک دیا جاتا۔ قافلہ دوبارہ روانہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو دوبارہ چلایا جاتا اور بکھرے ہوئے لوگ اس گھنٹی کی آواز سن کر جوق در جوق واپس قافلے میں شامل ہوتے اور قافلہ رواں دواں ہو جاتا۔

بانگ درا کو ایک خوب صورت گل دستہ کہا جا سکتا ہے، جس میں سیکڑوں قسم کے رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو مہک رہی اور ان کی رعنائی جلوہ افروز ہے۔ اس مجموعہ میں جہاں ایک طرف حب الوطنی سے لبریز ترانے شامل ہیں جن میں ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' اور ہمالہ جیسی نظمیں بطور خاص دیکھی جا سکتی ہیں، وہیں بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے دعائیں اور دیگر نظمیں جو مکالمہ اور مناظرہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسی لازوال مسدس بھی اسی مجموعہ کلام میں شامل ہے اور نیا شوالہ جیسی نظمیں بھی شامل ہیں، کچھ نام ور حضرات کی یاد میں بھی نظمیں ہیں اور علامہ کی غزلیات کا بہت ہی خوب صورت اجتماع ہے۔ بانگ درا کی شاعری علامہ محمد اقبال نے 20 سال کے عرصے میں رقم کی تھی اور اس مجموعے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بانگ درا کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا دور 1905ء تک کے کلام پر محیط ہے، دوسرا دور 1905 سے 1908 تک اور تیسرا دور 1908ء سے کتاب کی اشاعت تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں۔ بعض نظموں پر سال تخلیق بھی درج ہے مگر اکثر نظموں کے لیے یہ اہتمام نہیں کیا گیا۔ پوری کتاب میں زمانی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یعنی پہلے لکھی جانے والی نظم پہلے اور بعد میں لکھی جانے والی نظم بعد میں۔ کتاب کے آخر میں ظریفانہ کے عنوان سے کچھ اشعار، قطعات وغیرہ درج کیے گئے ہیں جو اکبر الہ آبادی کی پیروی میں لکھے گئے۔ ان اشعار پر سال تحریر درج نہیں مگر قیاس یہ ہے کہ تمام اشعار 1910ء سے 1914ء تک لکھے گئے ہیں۔

بانگ درا کے شروع میں علامہ اقبال کے دوست سر شیخ عبدالقادر کا دیباچہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ بانگ درا کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ دیباچہ ضرور پڑھیں جس میں مختصراً ان کے آباؤ اجداد، تعلیم، ابتدائی شاعری، فارسی کی طرف رغبت کی وجہ اور لندن میں اقبال سے سرشیخ عبدالقادر کی ملاقاتوں کا تذکرہ شامل ہیں۔ یہ دیباچہ محض کتاب یا صاحب کتاب کا سرسری تعارف نہیں بلکہ شیخ عبدالقادر کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت کا آئینہ دار بھی ہے۔



شیخ عبدالقادر کا تحریر کردہ دیباچہ اقبال کے اشعار کی تفہیم و تعبیر، ان کا ذہنی وہ فکری ارتقا، وہ فضا جو ان تخلیقات کا محرک بنی، وہ مسائل جو امت مسلمہ کو اور بنی نوع انسان کو درپیش تھے، اس سب کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ دیباچہ شیخ عبدالقادر کی شاہ کار تخلیقات میں سے ایک ہے، جس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں سے ہی شیخ عبد القادر صاحب کی دلی وابستگی، محبت اور احترام کا رشتہ تھا۔ دیباچے کے آخر میں شیخ عبدالقادر صاحب اقبال سے ملتمس ہیں کہ وہ فارسی کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوں۔ ان کی خواہش پوری ہوئی اور علامہ اقبال کے اردو شعری مجموعے بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز کے عنوان سے شایع ہوکر شاعر مشرق کی قدرومنزلت میں مزید اضافے کا سبب بنے۔

شیخ عبدالقادر بانگِ درا کے دیباچے میں لکھتے ہیں،''ابتدائی مشق کے دنوں کو چھوڑ کر اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے 1901۔ سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔ اس بزم میں ان کو ان کے چند ہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوں نے کہہ سن کر ایک غزل بھی پڑھائی۔ اس وقت تک لاہور میں لوگ اقبال سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی، سادہ سے الفاظ اور زمین بھی مشکل نہ تھی، مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا۔ بہت پسند کی گئی۔ اس کے بعد وہ دو تین مرتبہ پھر اسی مشاعرے میں انہوں نے غزلیں پڑھیں اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک ہونہار شاعر میدان میں آیا ہے، مگر یہ شہرت پہلے پہلے لاہور کے کالجوں کے طلبہ اور بعض ایسے لوگوں تک محدود رہی جو تعلیمی مشاغل سے تعلق رکھتے تھے۔ اتنے میں ایک ادبی مجلس قائم ہوئی جس میں مشاہیر شریک ہونے لگے اور نظم و نثر کے مضامین کی اس میں مانگ ہوئی۔ علامہ اقبال نے اس کے ایک جلسے میں اپنی وہ نظم جس میں کوہ ہمالہ سے خطاب ہے، پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاق زمانہ اور ضرورت وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے، مگر علامہ اقبال یہ عذر کرکے کہ ابھی نظرثانی کی ضرورت ہے، اسے اپنے ساتھ لے گئے اور اس وقت چھپنے نہ پائی۔ اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میں نے ادب اردو کی ترقی کے لیے رسالہ مخزن جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ اس اثنا میں علامہ اقبال سے میری دوستانہ تعلقات پیدا ہوچکے تھے۔ میں نے ان سے وعدہ لیا کہ اس رسالے کے حصہ نظم کے لیے وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کوئی نظم مانگی! انہوں نے کہا ابھی کوئی نظم تیار نہیں۔ میں نے کہا ہمالہ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیے۔ انہوں نے اس نظم کے دینے میں پس و پیش کی کیوںکہ انہیں یہ خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں، مگر میں دیکھ چکا تھا کہ وہ بہت مقبول ہوئی، اس لیے میں نے زبردستی وہ نظم ان سے لے لی اور مخزن کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل 1901 میں نکلا، شائع کردی۔

یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا عوامی سطح پر آغاز ہوا اور 1905 تک جب وہ ولایت گئے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ عموماً مخزن کے ہر نمبر کے لیے کوئی نہ کوئی نظم لکھتے تھے اور جوں جوں لوگوں کو ان کی شاعری کا حال معلوم ہوتا گیا، جا بجا مختلف رسالوں اور اخباروں سے فرمائشیں آنے لگیں اور انجمنیں اور مجالس درخواستیں کرنے لگیں کہ ان کے سالانہ جلسوں میں لوگوں کو وہ اپنے کلام سے محظوظ کریں۔ اقبال کا اردو کلام جو وقتاً فوقتاً 1901 سے لے کر آج تک رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوا اور انجمنوں میں پڑھا گیا، اس کے مجموعے کی اشاعت کے بہت لوگ خواہاں تھے۔ علامہ اقبال کے احباب بارہا تقاضا کرتے تھے کہ اردو کلام کا مجموعہ شائع کیا جائے مگر کئی وجوہات سے آج تک مجموعہ اردو شائع نہیں ہو سکا تھا. خدا کا شکر ہے کہ آخر اب شائقین کلام اردو کی یہ دیرینہ آرزو بر آئی اور اقبال کی اردو نظموں کا مجموعہ بانگ درا شائع ہوا۔ نظم ''ہمالہ'' اقبالؒ کے پہلے شعری مجموعے ''بانگِ درا'' کی پہلی نظم ہے۔

''بانگ درا'' میں بچوں کے لیے بڑی خوب صورت اور سبق آموز نظمیں شامل ہیں۔ اس اولین مجموعے میں ایسی جاذبیت، کشش اور سحر انگیزی ہے جو دوسرے مجموعوں میں ناپید ہے۔ ''ضرب کلیم'' اور ''بال جبریل'' میں وہ فلسفی اور مفکر نظر آتے ہیں جب کہ ''بانگ درا'' میں وہ شاعر فطرت ہیں۔ تشبیہات کے حوالے سے اقبال کی بعض نظمیں جیسے ماہ نو، ہمالہ، بزم انجم، گل رنگیں، تصویر درد، ابر کوہسار، انسان اور بزم قدرت، ابر، اور پھول، تشبیہات کی قدرت کے حوالے سے نہایت پرتاثر، سادہ اور منفرد نظمیں ہیں۔ بچوں کے لیے اقبال نے نو نظمیں لکھی ہیں، جن میں سے بیشتر ماخوذ ہیں غالباً انگریزی سے، صرف دو نظموں ''ہمدردی'' اور ''ایک پہاڑ اور گلہری'' میں ولیم کوپر اور ایمرسن کے نام دیے گئے ہیں، بقیہ میں صرف ''ماخوذ'' لکھا گیا ہے۔

''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' کے مصرعے سے شروع ہونے والی وہ نظم جسے ہم میں سے اکثریت نے اسکول میں اسمبلی کے وقت سنی اور پڑھی ہوگی، وہ بھی اسی مجموعے کا حصہ ہے۔ کتنے دل نشیں ہیں اس نظم کے بول، کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگتی ہیں۔

یہ بانگ درا کی ولولہ انگیز شاعری تھی جس نے قوم کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہی وہ کتاب ہے کہ جس کی تعلیمات نے برصغیر کی پژمردہ مسلم قوم کو اس کے وجود کا احساس دلایا۔ یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں آج تک کوئی ایسی شعری کتاب موجود نہیں جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں، اور کیوں نہ ہو، یہ کلام ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیروسیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرعہ ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ اقبال فطرت کے نظاروں سے آخری حد تک لطف اندوز ہونے کے قائل تھے۔ انھیں شہروں سے زیادہ بن اچھے لگتے تھے، وہ دریائوں کے کنارے حسنِ فطرت سے تسکین کا سامان دھونڈتے رہے۔ 'بانگِ درا' میں، ہمالہ، گلِ رنگیں، عہدِطفلی، ابرِکوہسار، اخترِصبح، حسن و عشق، ایک شام، رات اور شاعر، تنہائی، جگنو، صبح کا ستارہ، محبت، فراق، ایک آرزو، شبنم اور ستارے اور کنارِراوی جیسی بے شمار نظموں اور متعدد غزلوں میں ہمیں فطرت پرست، ماضی میں مست اور رومانیت میں پور پور بھیگا اقبال دکھائی دیتا ہے۔ انگریزی اور اُردو کے کلاسیکی ادب سے اقبال کے گہرے شغف سے تو سب لوگ آگاہ ہیں۔ ان کا نہ صرف مطالعہ غضب کا تھا بلکہ وہ اپنے اشعار میں پسندیدہ و محترم شخصیات کو باقاعدہ خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں، جو ان کی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے۔ 'بانگِ درا' میں مرزا غالب، سید کی لوحِ تُربت، داغ، شبلی و حالی، عرفی، شیکسپیئر وغیرہ جیسی نظموں میں ہمارا ایک حقیقی سخن شناس اقبال سے سامنا ہوتا ہے۔

اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوام مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لئے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دل کے ساتھ دماغ کی کارفرمائی نمایاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا کلام محض فلسفیانہ اور حکیمانہ ہے اور اس میں شعریت کی کوئی کمی ہے۔ ان کے مفکرانہ کلام میں بھی سوز اور جذبہ کا گہرا گداز شامل ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں اردو کے کلاسیکی سرمایہ سے استفادہ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اردو شاعری کو نئی نئی اصطلاحات، تشبیہوں اور رموز و علائم کا اک خوبصورت ذخیرہ بھی عطا کیا۔ انھوں نے زبان کو حسب ضرورت برتا، کہیں روایت کا اتباع کیا تو کہیں اس سے انحراف۔ اقبال نے اردو شاعری سے حزن و قنوطیت کے عناصر ختم کر کے اس میں رجائیت، جوش اور نشاط آفرینی پیدا کی۔ اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لیے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوب صورتی کے ساتھ ادا کرسکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر میں گرفتار رہی ہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میرؔ کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالبؔ کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے اور اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔ اقبال کو جب ہم پڑھتے ہیں تو ان کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اکثر وہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں جو اقبال اصل میں کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں