مشرق وسطیٰ جنگ کے بڑھتے خطرات
درحقیقت اس وقت مشرق وسطیٰ کا خطہ جنگ کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔
لبنان سے اسرائیل پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ کیا گیا ہے جس میں اسرائیل کے اہم مقامات کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب اسرائیل نے حزب اللہ کے 400 لانچرزکو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ لبنان میں اسرائیلی حملوں کے تناظر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ لبنان کو ایک اور غزہ بننے نہیں دیا جاسکتا اور اس کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔
درحقیقت اس وقت مشرق وسطیٰ کا خطہ جنگ کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ لبنان پر اسرائیل کا حملہ، مشرق وسطیٰ میں بدامنی کو ہوا دینے والی سب سے بدترین کوشش کہلائے گا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنگ کا مرکز شمال کی جانب منتقل ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں وسائل مختص کیے جا رہے ہیں، تاہم لبنان میں نیا محاذ جنگ کھولنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیر نے غزہ میں جنگ کو بھی ختم نہ کرنے کے اپنے مذموم ارادوں کا اظہارکیا اورکہا تھا کہ فوج غزہ میں اپنے اہداف کو بھولی نہیں ہے۔
یووگیلنٹ کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور مسلح افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہلیوی نے بھی اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں انھیں عزائم کا اظہار کیا۔اسرائیل کے شمال میں لبنان واقع ہے اور اسرائیل کے تین صف اول کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسرائیل اب لبنان میں بھی باضابطہ طور پر جنگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا مقصد لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کو نشانہ بنانا ہے جس کے ساتھ اسرائیل کی اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے باضابطہ طور پر تو جنگ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن یہ بیانات ایسے موقعے پر دیے گئے جب کہ محض گزشتہ چار دنوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ منگل کو حزب اللہ کے زیر استعمال پیجر میں دھماکوں سے پورا ملک لرز اٹھا تھا جہاں ان دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 12 افراد شہید اور 2800 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
ابھی ان دھماکوں کی بازگشت جاری تھی کہ بدھ کو حزب اللہ کے اراکین کے زیر استعمال واکی ٹاکی اور ریڈیوز ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے جس میں 14 افراد شہید اور 450 سے زائد زخمی ہو گئے۔ دفاعی و عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ ان دھماکوں میں اسرائیل ملوث ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس، حزب اللہ اور انصاراللہ کی کارروائیوں کے باعث اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
کھنڈرات میں تبدیل فلسطین کے اندر دیکھیں تو حماس کے نوجوانوں کا جذبہ شہادت اور حزب اللہ کی فلسطینیوں کی حمایت میں موجودہ جنگ میں شمولیت سے اب تو صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدارتی امیدوارکملا ہیرس صرف سخت الفاظ کے اظہار سے نیتن یاہوکو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکتیں،کیونکہ نیتن یاہوکو جو چیز پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے وہ سخت الفاظ نہیں ہیں بلکہ امریکا کے ہتھیاروں اور مالی امداد کو روکنے جیسے اقدامات ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ امریکا کا صدرکون ہے اورکون نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکا کا مضبوط ترین اتحادی رہے گا۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی اس لیے بھی بہت ضرورت ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ہے۔ جہاں کے لیے اسرائیل کی بہت ضرورتیں ہیں، جن کے پورا ہونے میں اسرائیلی موجودگی مفید ہے۔ جوبائیڈن نے بطور امریکی صدر اسرائیل کے لیے جو خدمات انجام دیں، نیتن یاہو نے ان خدمات کے لیے جوبائیڈن کا شکریہ ادا کیا ہے۔
پاکستان سمیت 124 ممالک کی حمایت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چار روز قبل ایک قرارداد منظورکی ہے جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی '' غیر قانونی موجودگی'' ایک سال کے اندر ختم کرے۔ فلسطین اتھارٹی کی قرارداد کے حق میں124 اور مخالفت میں صرف 14ووٹ آئے، جب کہ 43 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، قرارداد کی مخالفین میں امریکا اور اسرائیل بھی شامل تھے۔ قرارداد میں اسرائیل کو ایک سال میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی غیر پابند نوعیت کا مطلب یہ ہے کہ بھاری اکثریت کے باوجود قرارداد منظور ہونے سے موجودہ صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فلسطین نے 193 رکنی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے اپنی قرارداد کا مسودہ پیش کیا اور اسے بھاری اکثریت سے منظور بھی کیا گیا۔ اس قرار داد کی عدم تعمیل کے نتیجے میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظورکی گئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے امریکا اور عالمی برادری کو چاہیے تھا کہ اسرائیل کو اس کے کیے کی سزا دینے کے لیے مخصوص اقدامات کریں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ خلیجی ریاستیں تیل جیسے روایتی پاور لیور کو استعمال کریں جیسا کہ 1970 کی دہائی میں کیا گیا تھا، آج کل، بدقسمتی سے، تیل کے ہتھیار کو اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اب تیل کی منڈی کے حالات بدل چکے ہیں۔
اب عالمی سطح پر توانائی کی جہتیں اور حالتیں بدل رہی ہیں۔ اس علاقے کی تاریخی حقیقت ، ہر روزکے رونما ہونے والے تلخ اور نکتہ نظرکو بھی نظر انداز کر کے اسرائیل کی اندھا دھند کارروائیوں کو ہر روز مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں جہاں اسرائیل نے طاقت کے بل پر اپنی آبادیوں کو قائم کیا ہے۔ اس طرح کی زیادتیوں کی مخالفت کرنے والوں پر بم برسا کر چپ کروانے کی کوشش پر عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کا نوٹس لینے کی کوئی ہمت کرے تو اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے اسرائیلی جنگی جرائم کی تعریف میں آتے ہیں۔
اس کھلی حقیقت کے باوجود عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی سمت کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں خود مملکت فلسطین کو ہی اہم اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے عوام کے حقوق اور علاقائی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم غیر قانونی ناجائز قبضے، قدرتی وسائل کا غیر قانونی استحصال کے ساتھ ساتھ نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہیمانہ و جارحانہ کارروائیوں کو روکنا از حد ضروری ہوگیا ہے۔ تقریباً ایک سال ہونے والا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، شہری آبادیوں کو تہس نہس کردیا، اسپتالوں میں مریضوں کا قتل عام کیا، اسکولوں میں تعلیم دینے والا اور حاصل کرنے والا کوئی نہ چھوڑا، ان مظالم پر کسی بین الاقوامی طاقت یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی نے بے گناہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری پر نہ صرف یہ کہ افسوس کا اظہار بلکہ اس دہشت گردی کی مذمت تک نہ کی بلکہ اسرائیل کو وسائل اور جدید اسلحے کی ترسیل اب تک جاری ہے اور اس کے تمام مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ اس سے تعاون بھی کیا جا رہا ہے، اس طرح یہ تمام ممالک فلسطین کشی کے عمل میں برابرکے مجرم ہیں۔
دوسری جانب فلسطین کی دفاعی قوت، ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا ہے اور وہ جو عالمی قوتیں سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت ان کی مدد کے ساتھ چند دنوں میں حماس کو نہ صرف ختم کر دے گی، بلکہ غزہ پر قبضہ کر کے اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے، لیکن صیہونی حکومت کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا بلکہ نیتن یاہو کے لیے تو یہ ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے، ناجائز اسرائیلی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کو قتل کر کے فلسطینی مزاحمتی تحریک کی دفاعی قوت کو کمزورکردیں گے، جو نہ ہو سکا۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی قطر میں ہونے والی نماز جنازہ کے بعد نیا سربراہ یحییٰ سنوارکو منتخب کیا گیا ہے۔
حماس کے نئے سربراہ نے مذاکراتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا انداز اختیارکیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کے پاؤ ں ڈگمگانا شروع ہوگئے ہیں، اس سے پہلے اسرائیلی حملوں پر یرغمالیوں کو محفوظ ترین مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا ہے لیکن چند دن پہلے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں چھ یہودی یرغمالی مارے گئے، جن کی لاشیں اسرائیلیوں کو ملیں تو سراپا احتجاج پورا اسرائیل نیتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا اور صیہونی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
یرغمالیوں کے ورثا یہ بھی کہتے ہیں کہ حماس سے مذاکرات اسرائیل کے بجائے امریکا کرے، آخر نیتن یاہوکو مکاری کے آنسو بہاتے ہوئے ٹی وی تقریر میں عوام سے معافی مانگنا پڑی کہ یرغمالیوں کی محفوظ واپسی میں وہ ناکام رہے،اسی احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے90لاکھ کے ملک میں ٹریڈ یونینزکی ایک دن کی مکمل ہڑتال کی وجہ سے اسرائیل کا کوئی نظام نہ چل سکا۔ آج سے76سال پہلے اس ناجائز ریاست کا جو بیج بویا گیا تھا، اب اس کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور تنا بھی دیمک کا شکار ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو اگر عافیت درکار ہے تو فوری جنگ بندی کر کے فلسطین سے نکلنے کے لیے آمادہ ہوجائے،کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے، نہ کہ کسی غاصب ریاست یا قوم کا۔
درحقیقت اس وقت مشرق وسطیٰ کا خطہ جنگ کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ لبنان پر اسرائیل کا حملہ، مشرق وسطیٰ میں بدامنی کو ہوا دینے والی سب سے بدترین کوشش کہلائے گا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جنگ کا مرکز شمال کی جانب منتقل ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں وسائل مختص کیے جا رہے ہیں، تاہم لبنان میں نیا محاذ جنگ کھولنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیر نے غزہ میں جنگ کو بھی ختم نہ کرنے کے اپنے مذموم ارادوں کا اظہارکیا اورکہا تھا کہ فوج غزہ میں اپنے اہداف کو بھولی نہیں ہے۔
یووگیلنٹ کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور مسلح افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہلیوی نے بھی اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں انھیں عزائم کا اظہار کیا۔اسرائیل کے شمال میں لبنان واقع ہے اور اسرائیل کے تین صف اول کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسرائیل اب لبنان میں بھی باضابطہ طور پر جنگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا مقصد لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کو نشانہ بنانا ہے جس کے ساتھ اسرائیل کی اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے باضابطہ طور پر تو جنگ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن یہ بیانات ایسے موقعے پر دیے گئے جب کہ محض گزشتہ چار دنوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ منگل کو حزب اللہ کے زیر استعمال پیجر میں دھماکوں سے پورا ملک لرز اٹھا تھا جہاں ان دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 12 افراد شہید اور 2800 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
ابھی ان دھماکوں کی بازگشت جاری تھی کہ بدھ کو حزب اللہ کے اراکین کے زیر استعمال واکی ٹاکی اور ریڈیوز ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے جس میں 14 افراد شہید اور 450 سے زائد زخمی ہو گئے۔ دفاعی و عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ ان دھماکوں میں اسرائیل ملوث ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس، حزب اللہ اور انصاراللہ کی کارروائیوں کے باعث اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
کھنڈرات میں تبدیل فلسطین کے اندر دیکھیں تو حماس کے نوجوانوں کا جذبہ شہادت اور حزب اللہ کی فلسطینیوں کی حمایت میں موجودہ جنگ میں شمولیت سے اب تو صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدارتی امیدوارکملا ہیرس صرف سخت الفاظ کے اظہار سے نیتن یاہوکو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکتیں،کیونکہ نیتن یاہوکو جو چیز پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے وہ سخت الفاظ نہیں ہیں بلکہ امریکا کے ہتھیاروں اور مالی امداد کو روکنے جیسے اقدامات ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ امریکا کا صدرکون ہے اورکون نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکا کا مضبوط ترین اتحادی رہے گا۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی اس لیے بھی بہت ضرورت ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ہے۔ جہاں کے لیے اسرائیل کی بہت ضرورتیں ہیں، جن کے پورا ہونے میں اسرائیلی موجودگی مفید ہے۔ جوبائیڈن نے بطور امریکی صدر اسرائیل کے لیے جو خدمات انجام دیں، نیتن یاہو نے ان خدمات کے لیے جوبائیڈن کا شکریہ ادا کیا ہے۔
پاکستان سمیت 124 ممالک کی حمایت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چار روز قبل ایک قرارداد منظورکی ہے جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی '' غیر قانونی موجودگی'' ایک سال کے اندر ختم کرے۔ فلسطین اتھارٹی کی قرارداد کے حق میں124 اور مخالفت میں صرف 14ووٹ آئے، جب کہ 43 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، قرارداد کی مخالفین میں امریکا اور اسرائیل بھی شامل تھے۔ قرارداد میں اسرائیل کو ایک سال میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی غیر پابند نوعیت کا مطلب یہ ہے کہ بھاری اکثریت کے باوجود قرارداد منظور ہونے سے موجودہ صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ فلسطین نے 193 رکنی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے اپنی قرارداد کا مسودہ پیش کیا اور اسے بھاری اکثریت سے منظور بھی کیا گیا۔ اس قرار داد کی عدم تعمیل کے نتیجے میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظورکی گئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے اور مغربی کنارے میں تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے امریکا اور عالمی برادری کو چاہیے تھا کہ اسرائیل کو اس کے کیے کی سزا دینے کے لیے مخصوص اقدامات کریں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ خلیجی ریاستیں تیل جیسے روایتی پاور لیور کو استعمال کریں جیسا کہ 1970 کی دہائی میں کیا گیا تھا، آج کل، بدقسمتی سے، تیل کے ہتھیار کو اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اب تیل کی منڈی کے حالات بدل چکے ہیں۔
اب عالمی سطح پر توانائی کی جہتیں اور حالتیں بدل رہی ہیں۔ اس علاقے کی تاریخی حقیقت ، ہر روزکے رونما ہونے والے تلخ اور نکتہ نظرکو بھی نظر انداز کر کے اسرائیل کی اندھا دھند کارروائیوں کو ہر روز مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں جہاں اسرائیل نے طاقت کے بل پر اپنی آبادیوں کو قائم کیا ہے۔ اس طرح کی زیادتیوں کی مخالفت کرنے والوں پر بم برسا کر چپ کروانے کی کوشش پر عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کا نوٹس لینے کی کوئی ہمت کرے تو اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے اسرائیلی جنگی جرائم کی تعریف میں آتے ہیں۔
اس کھلی حقیقت کے باوجود عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی سمت کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں خود مملکت فلسطین کو ہی اہم اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے عوام کے حقوق اور علاقائی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم غیر قانونی ناجائز قبضے، قدرتی وسائل کا غیر قانونی استحصال کے ساتھ ساتھ نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہیمانہ و جارحانہ کارروائیوں کو روکنا از حد ضروری ہوگیا ہے۔ تقریباً ایک سال ہونے والا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، شہری آبادیوں کو تہس نہس کردیا، اسپتالوں میں مریضوں کا قتل عام کیا، اسکولوں میں تعلیم دینے والا اور حاصل کرنے والا کوئی نہ چھوڑا، ان مظالم پر کسی بین الاقوامی طاقت یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی نے بے گناہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری پر نہ صرف یہ کہ افسوس کا اظہار بلکہ اس دہشت گردی کی مذمت تک نہ کی بلکہ اسرائیل کو وسائل اور جدید اسلحے کی ترسیل اب تک جاری ہے اور اس کے تمام مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ اس سے تعاون بھی کیا جا رہا ہے، اس طرح یہ تمام ممالک فلسطین کشی کے عمل میں برابرکے مجرم ہیں۔
دوسری جانب فلسطین کی دفاعی قوت، ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا ہے اور وہ جو عالمی قوتیں سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت ان کی مدد کے ساتھ چند دنوں میں حماس کو نہ صرف ختم کر دے گی، بلکہ غزہ پر قبضہ کر کے اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے، لیکن صیہونی حکومت کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا بلکہ نیتن یاہو کے لیے تو یہ ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے، ناجائز اسرائیلی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کو قتل کر کے فلسطینی مزاحمتی تحریک کی دفاعی قوت کو کمزورکردیں گے، جو نہ ہو سکا۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی قطر میں ہونے والی نماز جنازہ کے بعد نیا سربراہ یحییٰ سنوارکو منتخب کیا گیا ہے۔
حماس کے نئے سربراہ نے مذاکراتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا انداز اختیارکیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کے پاؤ ں ڈگمگانا شروع ہوگئے ہیں، اس سے پہلے اسرائیلی حملوں پر یرغمالیوں کو محفوظ ترین مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا ہے لیکن چند دن پہلے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں چھ یہودی یرغمالی مارے گئے، جن کی لاشیں اسرائیلیوں کو ملیں تو سراپا احتجاج پورا اسرائیل نیتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا اور صیہونی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
یرغمالیوں کے ورثا یہ بھی کہتے ہیں کہ حماس سے مذاکرات اسرائیل کے بجائے امریکا کرے، آخر نیتن یاہوکو مکاری کے آنسو بہاتے ہوئے ٹی وی تقریر میں عوام سے معافی مانگنا پڑی کہ یرغمالیوں کی محفوظ واپسی میں وہ ناکام رہے،اسی احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے90لاکھ کے ملک میں ٹریڈ یونینزکی ایک دن کی مکمل ہڑتال کی وجہ سے اسرائیل کا کوئی نظام نہ چل سکا۔ آج سے76سال پہلے اس ناجائز ریاست کا جو بیج بویا گیا تھا، اب اس کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور تنا بھی دیمک کا شکار ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو اگر عافیت درکار ہے تو فوری جنگ بندی کر کے فلسطین سے نکلنے کے لیے آمادہ ہوجائے،کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے، نہ کہ کسی غاصب ریاست یا قوم کا۔