یہ صرف حلوہ کھانے آئے ہیں

میاں شہباز شریف پنجاب میں طویل حکمرانی کے بعد وزارت عظمیٰ کے خواہش مند تھے

m_saeedarain@hotmail.com

کہتے ہیں کہ کسی ملک کا بادشاہ مرگیا جس کا کوئی جاں نشیں نہیں تھا اور بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ میری تدفین کے بعد جب اگلی صبح شہرکا مرکزی دروازہ کھولا جائے اور جو شخص سب سے پہلے داخل ہوا اس کو ہی بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ نئے بادشاہ کے لیے جب دروازہ کھولا گیا تو کوئی فقیر نما درویش اپنے بستر یا گدڑی سمیت داخل ہوا۔

بادشاہ کی ہدایت کے مطابق اسے شاہی لباس پہنا کر شاہی تخت پر بٹھا کر پہلا حکم پوچھا تو اس نے سب سے پہلے حلوہ لانے کا حکم دیا اور نیا بادشاہ حکومتی امور کم چلاتا جس کا اس کو پتا ہی نہیں تھا صرف ہر مسئلہ پوچھنے پر حلوہ بنانے کا حکم دیتا اور بادشاہ کے حلوہ کھانے میں مصروف رہنے پر وزیروں نے ملک برباد کردیا اور پڑوسی ملک نے قبضہ کرنے کے لیے حلوہ کھانے کے شوقین بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا جس کی اطلاع بادشاہ کو دی گئی تو اس نے دفاع کے بجائے حلوہ بنانے کا حکم دیا۔

یہاں تک کہ شہر پر قبضہ ہو گیا اور مخالف فوج محل میں داخل ہونے لگی تو اطلاع ملنے پر بادشاہ نے حلوہ لانے کا حکم دیا اور حلوہ کھا کر بادشاہ نے اپنے پرانے کپڑے پہنے اپنی گدڑی اٹھائی اور محل کے عقبی دروازے سے یہ کہہ کر نکل گیا کہ میں تو حلوہ کھانے آیا تھا۔

یہی صورت حال موجودہ حکومت کی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی کابینہ میں دیگر جماعتوں کے وزیر شامل تھے مگر جب 8 فروری کے انتخابی نتائج آئے تو پیپلز پارٹی نے پھر شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کیا، صدارت اور بعض آئینی عہدے خود لینے اور حکومت میں اپنے وزیر شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور (ن) لیگ نے حکومت سازی میں مولانا فضل الرحمن کو دور کر کے ملک بھر میں عہدوں کی بندر بانٹ کر لی اور ن لیگ نے دو تین وزارتیں حلیفوں کو دے کر ہر جگہ اپنے لوگ حکومت میں شامل کر لیے۔

پیپلز پارٹی 16 ماہ کی پی ڈی ایم حکومت میں شامل رہ کر تمام صورتحال اور حکومت کا رویہ دیکھ چکی تھی، اس لیے پی پی نے محفوظ عہدے لے کر غیر محفوظ حکومت (ن) لیگ کے حوالے کر دی اور تماشا دیکھنے لگی۔

میاں شہباز شریف پنجاب میں طویل حکمرانی کے بعد وزارت عظمیٰ کے خواہش مند تھے اور ان کی یہ خواہش میاں نواز شریف کے باعث ممکن نہ تھی وہ ملک سے باہر تھے اور میاں شہباز شریف کو کھل کر حکومت کرنے کا موقعہ ملا مگر ان کی حکومت نے عوام پر توجہ دینے کے بجائے معاشی طور پر کمزور ملک کو مزید مقروض کرنے کا فیصلہ کیا اور دوست ممالک سے امداد اور قرضے لینے کی مہم شروع کی ۔


یہ وہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جن کی کارکردگی دیگر وزرائے اعلیٰ میں سب سے بہتر تھی اور وہ دن دیکھتے نہ رات بارہ کروڑ لوگوں کے سب سے بڑے صوبے میں شان دار ترقی ہوئی اور اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرنے والے وزیر اعلیٰ نے خود کو پنجاب کا خادم اعلیٰ قرار دیا۔ وہ دن رات کام کے عادی تھے جنھوں نے ڈینگی پرکنٹرول کرایا اور ان کی بھاگ دوڑ اور متحرک رہنے کی پالیسی نے پنجاب کے وزیروں اور بیورو کریسی کو بھی کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پنجاب کے دور دراز کے افسروں کو خوف رہتا کہ نہ جانے کب اچانک دورے پر آجائیں۔

وزیر اعلیٰ نے خادم اعلیٰ بن کر دکھایا اور عوام میں جاتے ان سے ملتے۔ اچانک اسپتالوں، اسکولوں، سرکاری دفاتر اور تھانوں پر چھاپے مار کر عوام کے مسائل حل کراتے اور انھوں نے اپنی اس بہترین کارکردگی سے پنجاب بدل کر رکھ دیا تھا۔ پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھا اور ترقی کے راستے کھلنے سے عوام کے مسائل حل ہوئے اور ان کی کارکردگی اور شہباز اسپیڈ دنیا بھر میں بھی مشہور ہوئی اور ہر جگہ ان کی مثالیں دی جاتی تھیں۔

پی ڈی ایم کی حکومت میں میاں نواز شریف ملک سے باہر رہے اور الیکشن سے قبل وطن واپس آئے مگر دوسری جانب پنجاب کے کامیاب وزیر اعلیٰ ملک کا وزیر اعظم بن کر ویسی کارکردگی نہ دکھا سکے جیسی عوام کو ان سے امید تھی اور ملک کی معاشی بدحالی کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتے اور دعوے کرتے رہے کہ وہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مگر موجودہ حکومت نے عوام کو نشانہ بنایا اور ان پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیے جس سے وہی لوگ جو ان کی پنجاب کارکردگی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے وہ ان کے ناقد ہوتے گئے، حکومت عوام سے دور ہوتی گئی اور عوام اس کی کارکردگی سے مایوس ہو ئے جس کا نتیجہ ملک ہی نہیں پنجاب کے عوام نے بھی مسلم لیگ (ن) کو 8 فروری کے الیکشن میں دیا اور شہباز حکومت کی 16 ماہ کی کارکردگی کو مسترد کر دیا ۔ پنجاب میں میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی کی حکومت پر قناعت کر رکھی ہے اور وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے اور درست حکومتی فیصلے کرنے کا بھی نہیں کہہ رہے۔

دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی میاں شہباز شریف سے ان کی حامی پیپلز پارٹی بھی مایوس ہو رہی ہے جس کا ثبوت ترامیم میں حکومت کی ناکامی ہے جس پر حکومتی حامی بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور اب بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن سے مل کر مشترکہ آئینی ڈرافٹ لا رہے ہیں اور موجودہ حکومت کی ترامیم میں ناکامی کی وجہ سے مولانا نے آئینی ترامیم کا حکومتی مسودہ مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے اور صدر مملکت اور وزیر اعظم بھی مولانا کو نہ منا سکے اور مولانا جن کے پاس دو بڑے آئے تھے وہ مولانا اسد قیصر کے عشائیے میں جا پہنچے ۔

موجودہ حکومت نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن کر دیا اور اب (ن) لیگ کے پاس کوئی بیانیہ نہیں اس لیے اب (ن) لیگ عوام کے پاس جانے سے گبھرا رہی ہے۔ (ن) لیگی وزیروں میں کسی وزیر میں حقائق کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ لگتا ہے (ن) لیگی حکومت صرف ملک کو مزید مقروض بنانے، ذاتی تشہیر، مہنگائی بڑھانے آئی ہے۔ اگر آیندہ انتخابات ہوتے ہیں تو (ن) لیگ کو بہت مشکلات پیش آئیں گی اور اس کی جگہ اب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی لے سکتی ہیں اور حلوہ کھانے والے ملک چھوڑ جائیں گے۔
Load Next Story