’’کِن کِیپنگ‘‘

خوشبو غوری  منگل 24 ستمبر 2024
وہ کام جن کا اعتراف شاذ ونادر ہی کوئی کرتا ہے ۔ فوٹو : فائل

وہ کام جن کا اعتراف شاذ ونادر ہی کوئی کرتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ہم سب کے گھر میں آپ کو ایک ایسا شخص ضرورملے گا جوگھر کے کاموں مثلاً پانی کی موٹر چلانے، موزے، کاپی کتابیں تلاش کرنے اور خاندان کے چھوٹے بڑے معاملات سے لے کر رشتہ داروں کی تقریبات، کسی کو سال گرہ کا تحفہ دینا، کسی کی عیادت کرنے جانے یا پھر اہل خانہ کی چھٹیاں گزارے کا معاملہ ہر تہوار اور معاملے کو یاد رکھنا اور تیاری کرنا انھی کے ذمہ ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ سب یاد رکھنا انھی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے، لیکن اس کام یا ذمہ داری کا کوئی نام نہیں ہے نہ ہی اس ’کام‘ کو کاموں میں شمار کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کام کا کوئی معاو ضہ ہے، ظاہر ہے یہ سب گھر کے کام ہیں اور ’گھر کے کاموں‘ کا گھر کے فرد کے لیے اب بھلا کیا معاوضہ۔۔۔؟

لیکن انگریز تو پھر انگریز ہے۔ 1985 میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والی محقق کیرولین روزینتھل نے سب سے پہلے اپنے مقالے میں ’کِن کیپنگ‘ کی اصطلاح کو متعارف کرایا۔ اور یہ اصطلاح ان افراد کے لیے استعمال کی گئی، جو خاندان میں رابطہ برقرار اور مضبوط رکھنے میں مدد دیتے ہیں اور میل جول میں اہم کردار ادا کرت ہیں۔

کیرولین اپنے مقالے میں لکھتی ہیں کہ ’کِن کیپنگ‘ بنیادی طور پر خواتین سے منسوب کی گئی سرگرمی ہے، جس کا تعلق اہل خانہ کے چھوٹے بڑے کاموں اور معاملات کو احسن طور پر چلانے سے لے کر خاندانی تعلقات کو برقراررکھنے، مضبوط کرنے اوررشتہ داروں اور خاندان کو جوڑے رکھنے تک ہے۔ ’کِن کیپنگ‘ کی یہ ذمہ داری بھی ماں سے بیٹی کو وراثت میں ملتی ہے۔

حالیہ دہائیوں میں اس تعریف میں توسیع تو ہوئی ہے، لیکن اس سے منسلک صنف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ رفتہ رفتہ اب ان تمام کاموں اور خواتین کی اَن دیکھی محنت کے لیے ’کِن کیپنگ‘ کی اصطلاح استعمال کرنی شروع کر دی گئی، تاکہ خواتین سے جُڑے اُن تمام غیر مرئی کاموں کو بیان کر سکیں جو بنا کسی اعتراف اور معاوضے کے کیے جاتے ہیں۔

اس میں گھر کے چھوٹے بڑے کام کرنے سے لے کر رشتے داروں کی تقریبات اور ان کے گھروں میں کسی کی سال گرہ کو یاد رکھنے تک وہ تمام کام شامل ہیں، جس میں کسی فرد کی بلا معاوضہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی مشقت استعمال ہوتی ہے۔

آج کے دور میں ’کِن کیپنگ‘ کا مطلب صرف خاندان کو جوڑنا نہیں، بلکہ خاندان میں کسی کو تحفہ کیا دینا ہے؟ کس کی سال گرہ کب منانی ہے۔۔۔؟ گھر کی تقریب میں کھانا کیا بنانا ہے۔۔۔؟ چھٹیاں کب اور کیسے پلان کرنی ہیں؟ بچوں کے دن بھر کا روٹین، ان کے کھانوں میں غذائیت کا تناسب، رشتے داروں یا گھر میں کسی کی گریجویشن پارٹی کو یاد رکھنا، عام دنوں میں گھر کے لیے سبزی خریدنا، کسی کے موزے گم ہوگئے تو اس کی ذمہ داری، کسی بیمار کی تیمار داری، بچوں کے کھیلنے کا وقت، سیر وتفریح پر جانا ہے، تو کب، کہاں، کیسے اور کن لوازمات کے ساتھ جانا ہے؟ کس کی شادی کب ہے۔۔۔؟ شادی میں کس کو کیا تحفہ دینا ہے؟ نئے ہفتے کی شروعات ہیں، بچوں کو روز لنچ میں کیا جائے گا؟ واپس آئیں گے، تو کھانا کیا بنانا ہے۔۔۔؟ ٹیوشن کب اور کہاں بھیجنا ہے۔۔۔؟ ٹیوشن کا بجٹ کیا ہوگا۔۔۔؟ گھر کے بل بھرنے ہیں۔۔۔ بچوں کے امتحانات سَر پر ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

آپ خود جائزہ لے کر بتائیے کہ ہم سب کے گھروں میں چھوٹے لگنے والے غیر تسلیم شدہ یہ کام اور ذمہ داریاں کون نبھاتا ہے۔۔۔؟ یقیناً خواتین! کبھی ماں، کبھی بیوی، کبھی بہن، کبھی بہو اور کبھی بیٹی کے روپ میں۔ ان کاموں کو یاد رکھنے سے لے کر ان کے انجام دہی تک سب ذمہ داری خواتین ہی کی ہے۔ جن کی ذہنی اور جسمانی محنت ان تمام اَن دیکھے کاموں میں شامل ہوتی ہے جس کو کبھی کریڈیٹ نہیں دیا جاتا، ماسوائے اس جملے کے کہ ’آخر تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو!‘

تحقیق کے مطابق ویسے تو ’کِن کیپنگ‘ کے فرائض 91 فی صد خواتین ہی نبھاتی ہیں۔ مختلف خاندانوں کو جوڑے رکھنے میں مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین زیادہ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مشقت کرتی ہیں، لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ خواتین اور حضرات کے فراغت کے اوقات میں مصروفیات بھی انتہائی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں۔ خواتین اپنے فرصت کے اوقات بھی خاندان کی فلاح و بہبود اوردیگر سرگرمیوں سے منسلک رہتی ہیں، جب کہ مرد حضرات کا عموماً طریقہ کار مختلف دکھائی دیتا ہے جوزیادہ تر یہ فرصت کے لمحات دوستوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔

وہ لوگ جو ’کِن کیپنگ‘ سے جْڑے ہرایک کام کا انتخاب خود کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے یقیناً یہ تسلی بخش اور فائدہ مند ہے، لیکن جب ’کِن کیپنگ کی ذمہ داری نبھانے والا خود پر جبر کر کے اپنے ذہنی سکون تج کے خود ہی ختم ہو جاتے ہیں پھر یہ سب ایک بوجھ بن جاتا ہے اور خاص طور پر خواتین کے لیے یہ جذباتی طور پر بار ہو جاتا ہے، جو کہ ’برن آؤٹ‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

محققین کے مطابق ’کِن کیپر‘ اپنی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی نشوونما اور دیکھ بھال کے لیے دو طریقے اختیار کر سکتے ہیں، ایک خود سے ہمدردی اور دوسرا تمام رشتوں کی حدود کا تعین کرنا۔ خود سے ہمدردی اور حدود کا تعین دونوں خود وضاحتی اصطلاحات ہیں۔

2022 میں ویڈیو کی ویب سائٹ ’TikTok‘ کا ایک ’ویڈیو‘ بہت مشہور ہوا، جس میں ’کِن کیپنگ‘ کے ساتھ ساتھ خاص طور پر اس سے جْڑے صنفی رجحان کی طرف توجہ مرکوز کی گئی۔ آج کل ’ٹک ٹاک‘ پر ایک بار پھر سے متعدد آرا اور ’پوڈکاسٹ‘ ’کِن کیپنگ‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ’وائرل‘ نظر آتی ہیں۔

قطع نظر اس سے کہ خواتین ’خاتون خانہ‘ ہوں یا پھر ’ملازمت پیشہ‘ وہ اپنی زندگی میں کتنا کماتی ہیں عالمی ثقافت کے مطابق گھریلو کام، بچوں کی دیکھ بھال اور خاندان کو جوڑنا عورت کی ہی ذمہ داریوں کے حصے میں آتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’کِن کیپنگ‘ فائدہ مند ہو سکتی ہے، یہ آپ کے تعلقات کو بڑھانے اور بہتر بنانے میں مددگار بھی ہوتی ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ’کِن کیپنگ‘ سے جْڑی ذمہ داریوں اور کاموں کو نہ صرف سراہا جائے، بلکہ یہ ذمہ داری نبھانے والوں کا شکرگزار ہونا اور کام کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔