خوشی صرف حالات کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ان رویوں سے متاثر ہوتی ہے، جو ہم وقت کے ساتھ اپنا لیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمر بڑھنے کے ساتھ جو عادات ہم نے اپنائی ہیں، وہ ہمارے خوشی کو بڑھا بھی سکتی ہیں اور اسے آہستہ آہستہ ختم بھی کر سکتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی عادات پر قائم رہتے ہیں، جو ہمارے لیے فائدے مند بھی نہیں ہیں، بلکہ اکثر ہماری خوشیوں کی دشمن بھی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
آج ہم کچھ ایسی عادات پر بات کریں گے، جو شاید آپ سے آپ کی خوشیاں دور لے جانے کا باعث بن رہی ہیں۔ کیا یہ عادات آپ کی زندگی میں بھی موجود ہیں؟ آئیے معلوم کرتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ منفی سوچ کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیشہ منفی سوچ کے ساتھ چلنے کو ہی اپنے طور پر بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنی ہر بات چیت اور ہر عمل کو منفی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ منفی سوچ دراصل ایک تھکا دینے والا فعل ہے، جس کا آپ کو صرف نقصان ہی پہنچتا ہے۔ تو بہتر نہیں ہے کہ آپ اپنی اس بری عادت کو خیرباد کہہ دیں اور اپنی خوشیوں کی راہ میں حائل اس منفی اثرات کی حامل عادت کو چھوڑ دیں۔
لیکن یہاں بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق، منفی سوچ متعدی ہوتی ہے۔ یہ آپ کے خیالات میں سرائیت کر جاتی ہے، آپ کے مزاج پر اثر ڈالتی ہے، اور آہستہ آہستہ آپ کی خوشی کو کم کرتی ہے۔ ہم اکثر یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم نے کس حد تک منفی سوچ کو اپنی زندگی میں داخل ہونے دیا ہے۔ خوشی کا انتخاب کرنے کا پہلا قدم منفی سوچ کی عادت کو چھوڑنا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کی بری چیزوں کو نظرانداز کریں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اچھائی پر زیادہ توجہ دیں اور ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ایسا ہی کرتے ہیں۔
ٹال مٹول کرنا مجھے لگتا ہے، ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے۔'کل کر لیں گے!' کے تصور سے ہم سبھی واقف ہیں۔ میں اب بھی ٹال مٹول کی ماہر ہوں، خاص طور پر کھانے کے معاملے میں بہت ٹال مٹول سے کام لیتی ہوں۔ کسی دوست کو فون کرنا ہو تو میں ہمیشہ اسے کل کے لیے ملتوی کرنے کے اسباب تلاش کرتی رہتی ہوں، لیکن جیسے جیسے میں زندگی میں آگے بڑھ رہی ہوں، ویسے ویسے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹال مٹول میری خوشی کے راستے پر ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ اس ٹال مٹول نے مجھ سے بہت کچھ چھین لیا، اچھے دوست اور سب سے بڑھ کر اسی عادت کی وجہ سے مجھے اچھی صحت سے محرومی ملی ہے۔ اب جب سے میں نے 'کل' کہنا چھوڑ دیا ہے اور 'اب' کو اپنانا شروع کیا ہے، تو مجھے اپنے مزاج میں فوراً بہتری محسوس ہوئی ہے۔ کاموں کو مکمل کرنے سے ملنے والی کام یابی کا احساس ہوا ہے۔ ٹال مٹول کو الوداع کہنا آزمائیں۔ یقین کریں، آپ کا مستقبل آپ کا شکریہ ادا کرے گا۔
'سوشل میڈیا' یا 'سماجی ذرائع اِبلاغ' کے اس دور میں، دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ آپ 'انسٹاگرام' یا 'فیس بک' پر کسی کی ظاہری طور پر کامل زندگی دیکھتے ہیں اور اچانک، آپ کو اپنی زندگی دوسروں سے مدھم محسوس ہونے لگتی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کا دوسروں سے موازنہ کرنے سے ہماری خوشی کم ہو جاتی ہے؟ یہ موازنہ منصفانہ بھی نہیں ہوتااور یقیناً خوشی کا باعث بھی نہیں بنتا۔
اپنے آپ پر توجہ دیں، اپنی کام یابیوں کا جشن منائیں، اور دیکھیں کہ آپ کی خوشی کیسے بڑھتی ہے۔
تبدیلی زندگی کا ایک مستقل حصہ ہے، پھر بھی، ہم میں سے بہت سے لوگ اسے رد کرتے ہیں۔ نئے امکانات اور تجربات کے لیے خود کو مقابلے کے لیے تیار کرنے کی بجائے ہم اپنے دائرے میں پھنسے رہتے ہیں۔
جی ہاں، معافی دینا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن گلہ شکوہ رکھنا ایسے ہے جیسے کسی گرم کوئلے کو پکڑ کر دوسروں پر پھینکنے کا ارادہ ہو۔ آخرکار، آپ ہی کو جلنا پڑتا ہے۔
گلہ شکوے بھاری ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے دل پر بوجھ ڈالتے ہیں اور آپ کے دماغ کو دھندلا دیتے ہیں۔ یہ محبت، خوشی سے بھرے جانے والے مقام کو خالی کرتے ہیں۔
معافی دینے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کے عمل کو معاف کیا جائے، یہ خود کو ناراضگی کے بوجھ سے آزاد کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ یہ اپنے آپ کو ایک تحفہ دینے کے مترادف ہے۔ ان رنجشوں کو چھوڑنے پر غور کریں، جو آپ کو زندگی میں بلاوجہ پیچھے رکھے ہوئے ہے۔
ایک وقت تھا کہ خود کی دیکھ بھال کرنا مجھے پسند نہیں تھا، خود کو نظر انداز کرتی رہتی تھی، لیکن میں نے سخت تجربے سے سیکھا کہ خود کی دیکھ بھال کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ جلن، تناؤ، اور خوشی میں نمایاں کمی کا باعث بنتا ہے۔ جب میں نے اپنے لیے وقت نکالنا شروع کیا۔ کتاب پڑھنے، چہل قدمی کرنے، یا بس خاموشی سے کافی پینے کا لطف اٹھایا تب مجھے خود کی دیکھ بھال کی اصل قدر کا احساس ہوا۔اگر آپ کبھی اپنے لیے وقت نہیں نکالتے، تو اب وقت ہے کہ آپ ایسا کریں۔ اپنی زندگی کی خوشیاں تلاش کریں اور ایسی عادات سے خود کو بچائیں، جو آپ کے مستقبل کی روشن راہوں میں ایک دیوار کی طرح رکاوٹ بنی کھڑی ہیں۔ بس یہی سوچیں کہ آپ اہم ہیں اور آپ کی آنکھوں کی مسکراہٹ ہی آپ کی زندگی ہے۔