میرا خیال ہے ججوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے حسنات ملک

ایک پیرا میں جو جسٹیفائی کیا جا رہا ہے، اگر دوسرے پیرا میں آئیں تو وہ جسٹیفکیشن کہیں اور طرف نکل جاتی ہے

(فوٹو: فائل)

سینئر کورٹ رپورٹر حسنات ملک نے کہا سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں قانونی وجوہات اور دلائل دیے گئے ہیں، کوئی ایسی بات نہیں کی گئی کہ موجودہ حالات میں زیادہ بگاڑ پیدا ہو۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ججوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اوور آل جو نظام چل رہا ہے، پارلیمنٹ ہے جس کی قانونی حیثیت پر بڑے سوالات ہیں، 8 فروری کے الیکشن پربڑے سوالات ہیں ان پر ججوں نے کوئی بات نہیں کی ان کی ساری توجہ مخصوص نشستوں کے کیس پر تھی، اس معاملے کو ڈسکس کیا اس معاملے کے حوالے سے کہا کہ الیکشن کیمشن اپنی ذمے داریاں سرانجام دینے میں ناکام رہا۔

ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ دیکھیں تو اس میں ایک پیرا میں جو جسٹیفائی کیا جا رہا ہے، اگر دوسرے پیرا میں آئیں تو وہ جسٹیفکیشن کہیں اور طرف نکل جاتی ہے، حکومت نے حقیقت کی منطق پر الفاظ کی منطق پر انحصار کیا ہے، آج سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 17 کو سب سے اوپر آرٹیکل قرار دیا ہے،آرٹیکل 51 یا آرٹیکل 106 کو مکمل نظرانداز کیا ہے، آج سپریم کورٹ نے آرٹیکل 210,209 اورسکیشن 215 کو الٹرا وارئیز کیے بغیر رول 91 کو الٹرا وائریزکیا ہے، اس نے کرافورڈ ڈکشنری پر انحصار کیا ہے۔


رہنما تحریک انصاف احمد اویس نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ پراپوزیشن کی نوعیت کیا ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کیلیے بیٹھا ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد کوئی عدالت نہیں ہے اسی لیے اس پر آرٹیکل 187 لگایا گیا ہے کہ جب وہ تمام واقعات کو سامنے رکھ کر محسوس کرے کہ صورتحال کس قسم کی پیدا ہوئی ہے اور وہ کہاں تک پہنچ چکی ہے اور کس حد تک ایک پارٹی سے زیادتی کی ہے اس کو الیکشن سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پہلے دن سے ہی جانب دار ہے۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آپ 1994 کی آئی پی پیز سے بات کر رہے ہیں اس پالیسی کو 30 سال ہو گئے ہیں،30سال کے کنڑیکٹ میں ساڑھے اٹھائیس سال تو ہو گئے ہیں، آپ ان کو ادائیگیاںکر چکے ہیں، ان کے کنٹریکٹس میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے، کنٹریکٹ منسوخ کریں یا نہ کریں اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا نہ بجلی کے بلوں میں فرق آئے گا، آپ کوئی کارروائی نہیں کر رہے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ کنٹریکٹ منسوخ کردو، 2002 میں جو پلانٹ لگے تھے ان سے عمران خان کے دور میں دوبارہ بات چیت ہو گئی تھی تو اس سے بھی اتنا فائدہ نہیں ہوگا۔

 
Load Next Story