فیصل آباد میں جرم وسزا کا احوال
ہلاک ہونے والے نوجوان کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا اور جنوری 1991 کو تھانہ بلوچنی کے علاقہ 94ر ب میں پیدا ہوا
شہریوں کو ہمیشہ پولیس سے شکایات رہتی ہیں کہ پولیس شہریوں کے تحفظ کے لیے ممکنہ اقدامات نہیں کر رہی لیکن بعض اوقات عوام کے تحفظ کے لیے پولیس کے جوان اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر جامِ شہادت نوش کر جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں فیصل آباد میں دو پولیس مقابلے ہوئے، جن میں تھانہ جھنگ بازار کے ایک حوالدار اور ایک کانسٹیبل نے جامِ شہادت نوش کیا، ان مقابلوں میں قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، بھتہ خوری کے درجنوں مقدمات میں مطلوب 25لاکھ روپے سروں کی قیمت والے دو اشتہاری بھی اپنے انجام کو پہنچے۔
پولیس مقابلوں میں شہید ہونے والے پولیس ملازمین کے 8بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دو خواتین اپنے سہاگ سے بھی محروم ہو گئیں، پولیس ملازمین کی شہادت کی خبر ملتے ہی ان کے گھروں میں کہرام مچ گیا، ہر آنکھ اشک بار ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ِمحلہ بھی غمزدہ تھے۔
ہوا یوں کہ 7ستمبر کی رات سی پی او، بلال صدیق کمیانہ ایس ایس پی آپریشن، صادق علی ڈوگر اور ایس پی جڑانوالہ، ناصر سیال کی ہدایت پر ایس ایچ او کھرڑیانوالہ، نصراللہ نیازی نے سیم پل سیال والا پر پولیس ملازمین کے ہمراہ ناکہ لگایا ہوا تھا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نا معلوم افراد کو پولیس نے چک 206ر ب کے قریب رکنے کا اشارہ کیا تو موٹر سائیکل پر سوار 21سالہ اشتہاری سرفراز عرف کالو ولد ارشاد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کر دی اور اپناموٹر سائیکل چھوڑ کر فصل کی اوٹ لے کر پولیس پارٹی پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس دوران پولیس نے اپنے آپ کو تحفظ دینے کی خاطر حفاظتِ خود اختیاری کے تحت فائرنگ کی، آدھ گھنٹہ تک جاری رہنے والے پولیس مقابلے میں 21سالہ نوجوان اشتہاری سرفراز عرف کالو ہلاک ہو گیا، جس نے شاہد ولد عبدالغفور ، کاشف عرف کاشی و لد عبدالغفور ' امجد علی ولد عبدالغفور تینوں بھائیوں کے ساتھ ایک گینگ بنا رکھا تھا۔
جو رقم لے کر شہریوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس مقابلے، ناجائز اسلحہ ڈکیتی، راہزنی، چوری اور ڈکیتی کے دوران خواتین کو بے آبرو بھی کیا کرتے اور وہ اس طرح کے درجنوں مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا، فیصل آباد کے تھانہ بلوچنی ' تھانہ کھرڑیانوالہ ' تھانہ چٹیانہ ' شورکوٹ سٹی سمیت پنجاب کے مختلف تھانوں کی حدود میں یہ اشتہاری وارداتیں کیا کرتا، سرفراز عرف کالو ان علاقوں میںدہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔
جس کے خلاف پولیس ریکارڈ کے مطابق، 16قتل، 3اقدام قتل ،پانچ چوری، ناجائز اسلحہ، ڈکیتی ' راہزنی، زنا سمیت دیگر مقدمات میں مطلوب ہونے پر پنجاب حکومت نے اس کے سر کی قیمت بیس لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی، سرفراز عرف کالو کی شناخت دوسرے روز ہونے پر چک نمبر 94ر ب اٹی کے رہائشیوں نے سکھ کا سانس لیا۔
ہلاک ہونے والے نوجوان کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا اور جنوری 1991 کو تھانہ بلوچنی کے علاقہ 94ر ب میں پیدا ہوا، اس کا والد، ارشاد گائوں میں زمینداری کرتا تھا اور کھیتی باڑی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ، پولیس نے اشتہاری کی نعش پوسٹ مارٹم کے بعد اس کے لواحقین کے حوالے کر کے اشتہاری اور اس کے ساتھی کے خلاف پولیس مقابلہ ' اقدام ِقتل اور ناجائز اسلحہ کی دفعات کے تحت پرچہ درج کیا۔
اشتہاری کی ہلاکت کے بعد سی پی او، بلال صدیق کمیانہ نے ایس پی جڑانوالہ ناصر سیال کے آفس میں جا کر مقابلہ میں حصہ لینے والی ٹیم کے سربراہ ایس ایچ او کھرڑیانوالہ نصراللہ نیازی اور ان کی ٹیم کو سرٹیفکیٹ اور نقد انعام دیے ۔ دوسرا افسوسناک واقع تھانہ جھنگ بازار کے علاقہ حمید پارک بیکری والی گلی میں پیش آیا۔
جہاں ایگل اسکواڈ جھنگ بازار کے ملازمین، حوالدار افضل' کانسٹیبل انور اور اقبال نے ایک رکشہ ڈرائیور کی اطلاع پر پولیس ملازم یوسف رجوکہ کے ملکیتی ساڑھے تین مرلہ مکان میں ایک خاتون اور دو مردوں کی فحش حرکات پر چھاپہ مارا تو دروازہ اندر سے بند ہونے پر کانسٹیبل انور نے ہمسایوں کی چھت سے جا کر انھیں دروازہ کھولنے کو کہا تو انھوں نے دروازہ کھولا۔
جیسے ہی پولیس ملازمین اندر داخل ہوئے تو اشتہاری لنگرانہ کے رہایشی شہباز عرف شہبازو نے پولیس ملازمین کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور خود باہر نکلا تو باہر کھڑے کانسٹیبل اقبال کو دیکھتے ہی اس نے اس کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے زخمی کر دیا، اسی دوران خاتون اور مرد ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔
زخمی کانسٹیبل اقبال نے اپنے ساتھیوں کی زخمی حالت میں تڑپتے ہوئے دیکھ کر افسران اور ریکسیو 1122کی ٹیم کو اطلاع دی جو وقوعہ پر تاخیر سے پہنچے بعد ازاں ریسکیو 1122نے موقع پر پہنچ کر تینوں پولیس اہل کاروں کو طبی امداد کے بعد اسپتال داخل کروایا، جہاں حوالدار افضل اور کانسٹیبل انور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
پولیس ملازمین کی شہادت کی خبر ملتے ہی پولیس افسران نے ایس پی سی آئی اے، رائے ضمیر الحق اور ایس ایچ او جھنگ بازار، فرخ وحید اور ان کی ٹیم کو ملزمان کو ہر صورت پکڑنے کا ٹارگٹ دیا، ایس پی سی آئی اے کی اطلاع پر سی آئی اے اسٹاف فیصل آباد کی ٹیموں نے مختلف مقامات پر چھاپے مارے تو ایک مکان سے اشتہاری شہباز ،موٹر سائیکل پرفرار ہوا۔
حمید پارک کے ارد گرد میں پولیس ناکوں پرسے ہوتا ہوا جج والا مائے شاہ قبرستان کے قریب پہنچا تو ایک پرائیویٹ کار میں جانے والے ایس ایچ او جھنگ بازار، فرخ وحید نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھنے والے 25سالہ چک نمبر 197ج ب لنگرانہ کے رہایشی شہباز عرف شہبازو کو رُکنے کا کا اشارہ کیا تو اُس نے پولیس پر پسٹل سے فائر کیے اور موٹر سائیکل چھوڑدی۔
پولیس نے جوابی فائرنگ کی اس مقابلے کی اطلاع ملتے ہی ایلیٹ فورس اور ضلع بھر کی نفری کے ہم راہ ضلع پولیس نے علاقہ کو گھیرے میں لیا پندرہ منٹ جاری رہنے والے اس مقابلہ میں 5لاکھ سر کی قیمت والا اشتہاری ہلاک ہو گیا، اشتہاری کی شناخت اس کی جیب سے ملنے والے شناختی کارڈ سے ہوئی، جس کا ریکارڈ چیک کروانے پر پتا چلا کہ وہ تھانہ لنگرانہ کا اشتہاری ہے، جس کے خلاف قتل، اقدام قتل، بھتہ خوری کے مقدمات درج تھے۔
ہلاک ہونے والے اشتہاری 25سالہ شہباز نے 2010میں اپنی کزن کلثوم بی بی سے شادی کرنا چاہی، جس کے اُسی گائوں کے رہایشی اللہ دتہ نامی لڑکے سے تعلقات تھے، تعلقات ہونے کی بناء پر 2010 میں شہباز نے کلثوم کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور اس مقدمہ میں اشتہاری ہو گیا، 2011میں اس نے کلثوم کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے والے اللہ دتہ نامی نوجوان کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا جس کے مقدمہ میں بھی وہ اشتہاری ہوا ۔
اس کے بعد دو زمینداروں کے درمیان چلنے والی دشمنی میں ایک زمیندار نے شاہ جہان نامی شخص کو زخمی کروانے کے لیے اُسے اڑھائی لاکھ دیے جس پر اُس نے شاہ جہان کو شدید زخمی کیا، اس وقوعہ کے بعد وہ ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں کرنے لگ گیا ،جب پولیس نے اس کی گرفتاری کے لیے گھیرا تنگ کیا تو وہ پانچ ماہ کے لیے کراچی چلا گیا، جہاں وہ دیگر ساتھیوں کے ہم راہ وارداتیں کرتا رہا۔
وقوعہ کے روز شام ہی وہ فیصل آباد آیا تھا کہ پولیس کے ہاتھوں مبینہ مقابلے میں ہلاک ہوگیا، پولیس مقابلے میں شہید ہونے والا حوالدار، افضل 1990 میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوا وہ تھانہ ڈجکوٹ کے علاقہ 87ج ب کا رہنے والا تھا اور اُس کے پانچ بچے تھے، جن میں دو بیٹیاں، تین بیٹے ہیں جبکہ شہید ہونے والا انور کانسٹیبل لنگرانہ کا رہائشی تھا۔
ا س نے اپنی رہایش شاداب کالونی میں رکھی ہوئی تھی، جس کے تین بچے تھے، جن میں ایک بیٹا سال اوّل کا طالب علم اور دو بیٹیاں زیر تعلیم ہیں، دونوں پولیس ملازمین کو پورے پولیس اعزاز کے ساتھ ان کے مقامی قبرستانوں میں سپرد خاک کیا گیا، ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سی پی او فیصل آباد، بلال صدیق کمیانہ نے کہا ۔
جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری مہم میں ڈسٹرکٹ پولیس فیصل آباد نے گزشتہ ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران ڈکیتی ،راہزنی اور چوری کی وارداتوں میں ملوث 77 خطرناک گینگ کے298ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے9کروڑ58لاکھ86ہزار روپے کا مال مسروقہ، جس میں موٹر سائیکل،کاریں،زیورات ،نقدی،موبائل فون،گھریلوسامان ،مال مویشی اور اسلحہ آتشیں شامل ہے۔
برآمد کیا ۔سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے کہا، عوام کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئیفیصل آباد پولیس نے33بار خطرناک ڈاکوئوں کا مقابلہ کیا۔پولیس مقابلہ میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیڈ منی سمیت 27خطرناک اشتہاری ڈاکو ہلاک ہوئے اور7ملزمان کو گرفتار بھی کیاگیا۔جن سے اسلحہ اور لوٹا گیا مال بھی برآمد ہوا۔ فرض کی ادائیگی کے دوران 6پولیس ملازمین شہید اور 5زخمی ہوئے ۔
انھوں نے کہا ، اس عرصہ کے دوران ،ناجائز اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے2500مقدمات درج کر کے2500ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے48عددکلاشنکوفیں ،153 عددرائفلز،362 عددبندوقیں، 12بور، 30 عددر یوالور، 1809 عددپسٹل30بور،78عددکاربین ،7537گولیاں برآمدکیں گئے۔
جبکہ منشیات فروشوں کے خلاف کی گئی کارروائی کے دوران، 3015مقدمات درج کر کے3035ملزمان کو گرفتارکیا گیااوران کے قبضہ سے چرس500.320 کلوگرام، ہیروئن163.106 کلوگرام،افیون 3.700گرام ،90کلو گرام بھکی ، شراب کی8434 بوتلیں اور شراب کی26چالو بھٹیاں بھی برآمدکیں۔ علاوہ ازیں132شرابیوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
مجرمان اشتہاریوں کی گرفتاری کے سلسلہ میں چلائی گئی مہم کے دوران، فیصل آباد پولیس نے آٹھ ماہ میں 6367 اشتہاری گرفتار کیے ۔جن میں سنگین جرائم کے 992مجرم اشتہاری اور5375دیگر جرائم کے اشتہاری شامل ہیں ۔اسی دورانیے میں 1514 عدالتی مفروروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔