سروں کی ملکہ، مادام نور جہاں

آواز دے کہاں ہے

دنیا میری جواں ہے

چلنے کو اب فلک سے

تاروں کا کارواں ہے

ایسے میں توکہاں ہے

جب اس گیت کے بول کانوں میں گونجتے ہیں تو نور جہاں جو ’’ ملکہ ترنم‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئیں کا چہرہ آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔ وہ مدھر اور خوبصورت آواز کے ساتھ خوبصورت چہرے کی بھی مالک تھیں، میری ان سے برسوں پہلے لاہور میں ان کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی۔ جیلانی آپا اور شمیم حنفی ہندوستان سے آئے ہوئے تھے اور جیلانی آپا کی ایک ہی فرمائش تھی کہ مجھے مادام سے ملوا دو۔

ورنہ پھر جانے کون رہے کون نہ رہے۔ ہم کراچی سے لاہور گئے ہوئے تھے مادام سے ملاقات کے لیے میں نے ان سے وعدہ کر لیا اور پھر میں انھیں اور حنفی صاحب کو ملوانے کے لیے ان کی کوٹھی پہنچی ہم ڈرائنگ روم میں بٹھائے گئے چند منٹ بعد مادام کمرے میں داخل ہوئیں، دونوں ایسے ملیں جیسے بچھڑی ہوئی سہیلیاں۔ جیلانی آپا ان کی آواز پہ فدا اور مادام ان کی تحریروں پر نثار۔ شمیم حنفی اور میں برصغیر کی ان دونوں بڑی شخصیات کو گلے ملتے ہوئے دیکھتے رہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کو سموسے، جلیبیاں اور کیک کہلاتی رہیں۔ مادام کی آواز کا جادو آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتا ہے۔ جیلانی بانو کے افسانے اور ناول اپنے پڑھنے والوں کے دل پہ نقش ہیں۔ شمیم حنفی آرٹس کونسل کی محفلوں کی جان تھے، ان لوگوں کو جو دلوں میں بستے ہوں کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔

مادام نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ ان کی فنی زندگی کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ کے 1935 میں ہوا، کچھ فلموں میں کام کرنے کے بعد 1938 میں وہ لاہور آگئیں۔ مادام کی مشہور فلموں میں ڈوپٹہ، انتظار، بڑی ماں، زینت، نوکر، جگنو اور کوئل کے نام سر فہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور فلم ’چن وے‘ سے انھوں نے اپنے پاکستانی کیریئرکا آغازکیا۔

آخری بار انھوں نے 2000 میں فلم ’’گبرو پنجاب دا‘‘ میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ مادام 23 دسمبر 2000 کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ انھوں نے خود کو نہ صرف اداکارہ اور گلوکارہ کی حیثیت سے منوایا بلکہ اس دور میں جب ہر طرف مرد اداکار اور گلوکار چھائے ہوئے تھے انھوں نے اپنا ایک الگ اور منفرد مقام بنایا۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ ہنر اور صلاحیت کے لیے کسی خاص جنس کی قید نہیں۔ وہ اس دور میں اتنی خود مختار تھیں جتنا کہ کوئی مرد۔ وہ اپنے فن میں بے پناہ آزاد تھیں اور اپنے فیصلے اور طرز زندگی کے انتخاب میں کسی کا دباؤ برداشت نہیں کرتی تھیں۔ انھوں نے یہ فنی آزادی اور خود مختاری بہت محنت سے حاصل کی تھی، وہ اپنے فن میں یکتا تھیں اور جو مقام انھیں گائیکی میں حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

لتا منگیشکر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’ میں پہلی بار 1944 میں ان سے ملی تھی۔ میری عمر کوئی چودہ یا پندرہ سال ہوگی۔ میں نے انھیں کلاسیکل گا کر سنایا تو انھوں نے کہا کہ ’’ کچھ فلمی گا کر سناؤ‘‘ میرا گانا سن کر انھوں نے کہا تھا ’’ کلاسیکل سیکھو اور ریاض کرو۔‘‘

وہ پھر پاکستان چلی گئیں جب وہ بمبئی آئیں تو میری ان سے ملاقات ہوئی وہ کمرے میں نماز پڑھ رہی تھیں اور میں بیٹھی انھیں دیکھ رہی تھی۔ وہ نماز پڑھتے ہوئے رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ بھگوان کے سامنے روکیوں رہی تھیں‘‘ وہ دعا مانگ رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ میں اللہ کے سامنے رو رہی ہوں اور معافی مانگ رہی ہوں۔‘‘ ان کا گانا مجھے بہت پسند تھا۔ ساتھ گانا نہیں گا سکے اس کا موقع نہیں ملا۔

فلم ’’انداز‘‘ میں نوشاد صاحب کے ساتھ گانا توڑ دیا دل میرا کیا انھوں نے کہا آپ اپنی سہیلی کو یاد کر کے گایئے میں پہلے سمجھی نہیں، انھوں نے کہا کہ میں میڈم کی بات کررہا ہوں۔ تو میں نے اس گانے میں کوشش کی تھی کہ ان کی طرح گاؤں۔ اچھا گایا ہے کہ نہیں معلوم نہیں۔

مادام نور جہاں لتا منگیشکر کے لیے کہتی تھیں کہ ’’لتا لتا ہیں اور ان جیسا فنکار پیدا نہیں ہوا۔‘‘ اس بات پہ لتا جی کہا کرتی تھیں کہ ’’ یہ ان کا بڑا پن ہے۔‘‘

برصغیر میں نور جہاں اور لتا منگیشکر جیسے فنکار پھر پیدا نہ ہوئے نہ ہوسکتے ہیں۔

نورجہاں ایک نڈر اور مضبوط خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے فیصلے خود کیے اور ان کی قیمت بھی بڑے حوصلے کے ساتھ خود ادا کی۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ عورتوں کو اپنی شناخت بنانے کا پورا حق ہے اور وہ اپنی لگن اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کسی بھی میدان میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔

ان کی زندگی اور ان کا فن یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی ٹھان لے تو اسے آگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے جس دور میں گائیکی کا آغاز کیا، اس دور میں اس شعبے سے منسلک ہونا اور پھر اس میں وہ مقام حاصل کرنا جو انھیں حاصل تھا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ان کی زندگی ایک مستقل جدوجہد تھی۔ انھوں نے جو محنت اور ریاض کیا وہ ان کو اپنے ہم عصر فنکاروں سے منفرد بناتا ہے۔ انھوں نے اپنے فن، حوصلے اور قابلیت سے دنیا بھر میں اپنا نام منوایا اور آج ان کے انتقال کے چوبیس سال بعد بھی لوگوں کے ذہن، دل اور لبوں پہ ان کے گیت ہیں۔

ایک ٹیس جگر میں اٹھتی ہے

ایک درد سا دل میں ہوتا ہے

ہم راتوں کو آٹھ کر روتے ہیں

جب سارا عالم سوتا ہے

ہو چاندنی راتیں

ہو چاندنی راتیں

سب جگ سوئے ہم جاگے

تاروں سے کریں باتیں

ہو چاندنی راتیں

تکتے تکتے ٹوٹی جائے

آس پیا نہ آئے رے

اس گیت یا مادام کے گائے ہوئے کسی بھی گیت کو جب سنتے ہیں تو وہ دلوں کو چھو لیتا ہے۔ وقت نے ان کے گیتوں کی لطافت کو اور بڑھا دیا ہے۔

فلمی دنیا میں خواتین کو اکثر گلیمر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن نور جہاں نے اپنے فن سے اس تصور کو بدل دیا تھا اور اپنے آپ کو ایک مکمل فنکارہ ثابت کیا۔

انھوں نے اپنی ذاتی اور فنی زندگی میں فیصلے خود کیے اور ثابت کیا کہ ایک عورت کو اپنے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ ان کی شخصیت اور فن کا اثر آج بھی قائم ہے ان کی گائیکی کا انداز آج بھی گلوکاروں کے لیے ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے سماجی روایت کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی شناخت بنائی ان جیسا فن اور آواز صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے فن میں یکتا تھیں۔

نور جہاں اس زمانے کی پیداوار تھیں جب خواتین کی آواز گھر کی چار دیواری میں مقید تھی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو مقام انھوں نے حاصل کیا اور جس دور میں حاصل کیا اس کے لیے انھوں نے کس قدر محنت کی ہوگی۔ ان کی زندگی میں ذاتی خوشیوں اور غموں کی آمیزش تھی وہ ایک ماں تھیں، ایک بیوی تھیں لیکن سب سے بڑھ کر ایک فنکارہ تھیں۔ ان کا فن ان کی پہچان تھا۔ انھوں نے زندگی اپنے دم پہ جی وہ اپنے وقت سے بہت آگے کی عورت تھیں۔

نور جہاں صرف ایک گلوکارہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک ایسی عورت تھیں جس نے سماج میں عورتوں کے لیے، فن کاروں کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جو صرف وہ کرسکتی تھیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی گائیکی کا ایک عہد ختم ہوگیا۔