اسٹیبلشمنٹ انتظامیہ اور عدلیہ حصہ اول

ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کے بنگالی ججوں نے انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اہم فیصلے کیے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 25, 2024
[email protected]

جدید جمہوری ریاست کے تین بنیادی ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کہلاتے ہیں۔ جمہوریت کے ارتقاء کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ میگنا کارٹا معاہدے کے بعد برطانیہ میں جدید جمہوری ریاست قائم ہوئی، یوں انتظامیہ، مقننہ یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ کا دائرہ کار ارتقائی عمل کے ذریعہ طے ہوا۔ برطانیہ میں تحریری آئین نہیں ہے مگر جمہوری روایات اتنی مستحکم ہیں کہ ریاست کے یہ تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔

برصغیر ہندوستان میں انگریز حکومت نے جدید ریاست کی بنیاد رکھی، یوں 19ویں صدی میں جدید انتظامی اور عدالتی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی، اس کے ساتھ ہی جدید تعلیمی نظام بھی قائم ہوا۔ برطانیہ کی حکومت ہندوستانیوں کو غلام کا درجہ دیتی تھیں، یہی وجہ تھی کہ عدالتیں انتظامیہ کی مدد کے لیے قائم کی گئیں۔ برطانوی ہند کے دور کی تاریخ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں عدالتوں نے آزادی کا حق مانگنے والے ہندوستانی شہریوں کی کبھی داد رسی نہیں کی مگر ہندوستانی شہریوں کے درمیان باہمی تنازعات میں ہمیشہ غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا، البتہ عدلیہ کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ ججوں نے ازخود اختیار Judicial Activism کا طریقہ استعمال کیا۔

جب 1947میں نیا ملک وجود میں آیا تو برطانوی ہند حکومت کا انتظام چلانے والی مسلمان بیوروکریسی نے نئے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ غلام محمد اور چوہدری محمد علی بیوروکریسی کے سرغنہ سمجھے جاتے تھے، وہ عدلیہ کو انتظامیہ کا حصہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ چیف کورٹ کے سینئر جج جسٹس طیب علی کو نظرانداز کر کے جسٹس رشید کو ملک کا پہلا چیف جسٹس بنایا گیا۔ وہ ریٹائر ہوئے تو مشرقی بنگال کے چیف جسٹس، جسٹس اکرم سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج بنے مگر گورنر جنرل غلام محمد ایک بنگالی کو ریاست کا اتنا اہم عہدے دینے پر تیار نہیں تھے۔

غلام محمد نے ملکہ برطانیہ کو خط لکھا کہ انگریز جج مستعار دیا جائے۔ جسٹس اکرم کسی انگریز جج کے ساتھ کا کرنا نہیں چاہتے تھے، انھوں نے چیف جسٹس کے عہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ غلام محمد نے جسٹس منیر کو جو جونیئر جج تھے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کو رائج کرنے، گورنر جنرل کے آئین ساز اسمبلی کو توڑنے اور جنرل ایوب خان کے مارشل لاء لگانے کے فیصلوں کو قانونی جواز فراہم کیا، مگر اسی زمانے میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رستم کیانی نے اپنے فیصلوں کے ذریعے انتظامیہ کی بالادستی کے تصور کو سیاسی قیدیوں کو جنرل ایوب خان کی حکومت کے جبر سے بچانے اور ان کی رہائی کے لیے تاریخی فیصلے کیے۔

ایوب خان کی حکومت نے جسٹس کیانی کو سپریم کورٹ میں نہیں بھیجا۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کے بنگالی ججوں نے انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اہم فیصلے کیے مگر مغربی پاکستان انتظامیہ کی پاسداری کرتے رہے۔ انسانی حقوق کی عظیم کارکن عاصمہ جیلانی جو شادی کے بعد عاصمہ جہانگیر کہلائیں نے جنرل یحییٰ خان کی حکومت کے ان کے والد ملک غلام جیلانی کی نظربندی کے احکامات کو چیلنج کیا۔ اس وقت جسٹس حمود الرحمن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے، بنگلہ دیش بننے کے بعد یحییٰ خان کی حکومت ختم ہوگئی تو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء لگانے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔

جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر 1973 کا آئین تیار کیا تو اس آئین میں آزاد عدلیہ کی ضمانت دی گئی مگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی عدلیہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کی پالیسی پر عمل کرتی رہی۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس نجم العارفین نے کچھ آزادانہ فیصلہ کیے تو انھیں مستعفیٰ ہونے پر مجبور کیا گیا اور بعد میں وہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے عرضداشت داخل کی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے چیف جسٹس یعقوب خان کو ایک مارشل لاء حکم کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا اور جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس کا عہدہ دیا گیا۔ جسٹس انوار الحق نے جسٹس محمد منیر کی پیروی کرتے ہوئے ''نظریہ ضرورت'' کا سہارا لیا اور جنرل ضیاء الحق کو جائز قرار دیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائی کورٹ کی پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ایک ریفرنس کا فیصلہ کرتے ہوئے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا۔

بھٹو مقدمہ میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مشتاق نے آزاد عدلیہ کی تمام روایات کو پامال کیا تھا مگر جب جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کیا تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو رخصت کردیا۔ رخصت ہونے والے ججوں میں جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اور جسٹس مری سمیت کئی فاضل جج شامل تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا اور ایک طیارے کے حادثے میں مارے گئے تو محمد خان جونیجو نے اپنی برطرفی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے ضیاء الحق کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا لیکن محمد خان جونیجو کی حکومت کو بحال نہیں کیا گیا۔

جبصدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کو برطرف کردیا تو سپریم کورٹ نے اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی قیادت میں منتخب وزیر اعظم کی برطرفی کو قانونی قرار دیا۔ جب صدر غلام اسحاق خان نے مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم میاں نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیرآئینی قرادیا ، یہ عدلیہ کا انتظامیہ کے خلاف پہلا فیصلہ تھا۔ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے سپریم کورٹ کے جونیئر جج جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔ سپریم کورٹ کی فل بنچ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں عدلیہ کی آزادی کے لیے اہم فیصلہ دیا۔

سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے تحت یہ طے کیا کہ سینئر ترین جج سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں اس وقت یہ اتفاق رائے ہوا کہ جسٹس سجاد علی شاہ پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا مگر جب جسٹس سجاد علی شاہ نے توہینِ عدالت کے مقدمے میں میاں نواز شریف کو طلب کیا اور خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں وزیراعظم نواز شریف کو توہین عدالت کے الزام میں سزا سناکر برطرف نہ کردیا جائے تو مسلم لیگی کارکنوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا ۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے بغاوت کردی اور سینئر ترین جج جسٹس سعید الزماں صدیقی کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ (جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں