مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ آگیا
مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد بھی اس فیصلہ پر عملدرآمد کی کوئی امید نظر نہیں آرہی
سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد کیا پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ مجھے نہیں لگتا۔ اس تفصیلی فیصلہ کا کافی انتظار تھا لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ کہا جا سکے کہ اس سے بڑی تبدیلی آجائے گی۔ میری اب بھی رائے ہے کہ معاملات وہیں کھڑے ہیں جہاں تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے کھڑے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی کے بھی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں، کہیں کوئی لچک نہیں۔
پاکستان میں نظام عدل سیاسی مقدمات سن کر خود بھی اس کے اثرات کا شکار ہوگیا ہے۔جیسے سیاستدانوں کی سیاسی رائے سب کو معلوم ہے، ایسے ہی ججز کی رائے بھی سب کو معلوم ہوتی ہے۔ عام لوگ بھی اب یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ کونسا جج کس سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ نظام عدل کے لیے یہ تاثر اچھا نہیں ہے ۔ اس تاثر نے عدلیہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
سیاستدانوں میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن ججز کے درمیان تناؤ یاکھینچا تانی کوئی اچھی صورتحال نہیں۔ سیاستدان دست و گریباں ہوں، کچھ سمجھ آتا ہے۔ لیکن نظام عدل کے بارے میں یہ تاثر اچھا نہیں ہے ۔ ججز کے درمیان آئین قانون کی تشریح پر اختلاف ممکن ہے۔ لیکن یہ اختلاف اس سے آگے بڑھنے کسی کو کوئی توقع نہیں تھی۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں جو ریمارکس سامنے آئے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔
مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد بھی اس فیصلہ پر عملدرآمد کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ صرف حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ دیگر آئینی ادارے جن میں الیکشن کمیشن شامل ہے، ا س پر عملدرآمد کرنے کی رائے نہیں رکھتے۔ اس لیے کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ آگے کیا ہوگا۔ تحریک انصاف کے دوست جن کے حق میں یہ فیصلہ آیا ہے وہ تو کہہ رہے ہیں کہ آئین میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔ اگر ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو ملک میں جنگل کا قانون ہوگا۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ پارلیمان سپریم کورٹ کے تا بع ہے۔ پارلیمان قانون سازی کے حق کے حوالے سے سپریم ہے۔ پارلیمان قانون بنا سکتی ہے۔ جب کہ عدلیہ از خود کوئی قانون بنا سکتی ہے۔ اور نہ آئین میں کوئی ترامیم کر سکتی ہے۔
اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ جب پارلیمان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون ہی بدل دیا تو اب کیا ہوگا۔ کیا پارلیمان کا بنایا ہو ا قانون عدالتی فیصلہ کو ختم کر سکتا ہے۔ا س ضمن میں قانونی ماہرین بہت سی مثالیں دیتے ہیں جہان پارلیمان نے قانون بنا کر عدالتی فیصلوں کو ختم کیا ہے۔ سب سے بڑی مثال نواز شریف جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی کی دی جاتی ہے۔جہاں تاحیات نا اہلی کا فیصلہ موجود تھا۔ لیکن پارلیمان نے قانون بنا کر ناا ہلی ختم کر دی ۔ ایسی کئی مثالیں دی جا رہی ہیں جہاں پارلیمان نے قانون سازی سے عدالتی فیصلوں کو نہ صرف ختم کیا بلکہ غیر موثر کر دیا۔ اس لیے دوستوں کی رائے میں اب بھی جب پارلیمان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون سازی کر دی ہے تو پھر مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلہ غیر موثر ہو گیا ہے۔ اس لیے تفصیلی فیصلہ کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ملک میں سیاسی تقسیم کوئی نئی بات نہیں۔ جہاں جہاں سیاست ہے وہاں تقسیم ہے۔ ایک سیاسی دھڑے کا یہ بھی موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ سے نیا آئین لکھ دیا ہے۔ اب یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی قریب میں بھی ایسے کئی فیصلے آئے ہیں۔ جن کے بارے میں یہ رائے سامنے آئی ہے کہ ان فیصلوں کے ذریعے آئین کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اگر یہ آئین وقانون کے مطابق نہیں ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آجکل اسی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کہاجا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کو الگ الگ کر دیا جائے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے یہ آٹھ ججز اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے کس حد تک جائیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی پہلے ہی الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کے خلاف خط لکھ چکے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ نئی قانون سازی کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل نہ کرنے پر حکومت کے خلاف تو توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے تو اس پر عملدرآمد نہیں کرنا۔ سوال الیکشن کمیشن کا ہے۔ وہ کیاکرے۔ کیا وہ دباؤ میں آجائے گا۔ اسے دباؤ میں لانے کی کافی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا توہین عدالت میں چیف الیکشن کمشنر کو سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ایک آئینی معاملہ ہے۔
چیف ا لیکشن کمشنر کو نکالنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو سپریم کورٹ کو جج نکالنے کا طریقہ ہے۔ پھر جب جج کے خلاف توہین عدالت نہیں تو پھر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف کیسے۔ اس لیے یہاں بھی بند گلی ہے۔ کیا نظر ثانی اس مسئلہ کا حل ہے۔ ممکن بھی ہے اور نہیں بھی۔ لیکن مجھے لڑائی نظر آرہی ہے۔ پارلیمان سے مزید قانون سازی بھی سامنے آسکتی ہے۔ جو لڑائی کو نئی شکل دے سکتی ہے۔ اس لیے اس تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد معاملات سلجھے نہیں بلکہ ان میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور اس کی کئی شکلیں آگے سامنے آئیں گی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اب نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کے لیے جو فل کورٹ بنے گی ، کیا اس میں نئے جج بھی شامل ہوںگے؟ان کی شمولیت بھی کھیل بد ل دے گی۔
پاکستان میں نظام عدل سیاسی مقدمات سن کر خود بھی اس کے اثرات کا شکار ہوگیا ہے۔جیسے سیاستدانوں کی سیاسی رائے سب کو معلوم ہے، ایسے ہی ججز کی رائے بھی سب کو معلوم ہوتی ہے۔ عام لوگ بھی اب یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ کونسا جج کس سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ نظام عدل کے لیے یہ تاثر اچھا نہیں ہے ۔ اس تاثر نے عدلیہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
سیاستدانوں میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن ججز کے درمیان تناؤ یاکھینچا تانی کوئی اچھی صورتحال نہیں۔ سیاستدان دست و گریباں ہوں، کچھ سمجھ آتا ہے۔ لیکن نظام عدل کے بارے میں یہ تاثر اچھا نہیں ہے ۔ ججز کے درمیان آئین قانون کی تشریح پر اختلاف ممکن ہے۔ لیکن یہ اختلاف اس سے آگے بڑھنے کسی کو کوئی توقع نہیں تھی۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں جو ریمارکس سامنے آئے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔
مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد بھی اس فیصلہ پر عملدرآمد کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ صرف حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ دیگر آئینی ادارے جن میں الیکشن کمیشن شامل ہے، ا س پر عملدرآمد کرنے کی رائے نہیں رکھتے۔ اس لیے کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ آگے کیا ہوگا۔ تحریک انصاف کے دوست جن کے حق میں یہ فیصلہ آیا ہے وہ تو کہہ رہے ہیں کہ آئین میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔ اگر ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو ملک میں جنگل کا قانون ہوگا۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ پارلیمان سپریم کورٹ کے تا بع ہے۔ پارلیمان قانون سازی کے حق کے حوالے سے سپریم ہے۔ پارلیمان قانون بنا سکتی ہے۔ جب کہ عدلیہ از خود کوئی قانون بنا سکتی ہے۔ اور نہ آئین میں کوئی ترامیم کر سکتی ہے۔
اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ جب پارلیمان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون ہی بدل دیا تو اب کیا ہوگا۔ کیا پارلیمان کا بنایا ہو ا قانون عدالتی فیصلہ کو ختم کر سکتا ہے۔ا س ضمن میں قانونی ماہرین بہت سی مثالیں دیتے ہیں جہان پارلیمان نے قانون بنا کر عدالتی فیصلوں کو ختم کیا ہے۔ سب سے بڑی مثال نواز شریف جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی کی دی جاتی ہے۔جہاں تاحیات نا اہلی کا فیصلہ موجود تھا۔ لیکن پارلیمان نے قانون بنا کر ناا ہلی ختم کر دی ۔ ایسی کئی مثالیں دی جا رہی ہیں جہاں پارلیمان نے قانون سازی سے عدالتی فیصلوں کو نہ صرف ختم کیا بلکہ غیر موثر کر دیا۔ اس لیے دوستوں کی رائے میں اب بھی جب پارلیمان نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون سازی کر دی ہے تو پھر مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلہ غیر موثر ہو گیا ہے۔ اس لیے تفصیلی فیصلہ کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ملک میں سیاسی تقسیم کوئی نئی بات نہیں۔ جہاں جہاں سیاست ہے وہاں تقسیم ہے۔ ایک سیاسی دھڑے کا یہ بھی موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ سے نیا آئین لکھ دیا ہے۔ اب یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی قریب میں بھی ایسے کئی فیصلے آئے ہیں۔ جن کے بارے میں یہ رائے سامنے آئی ہے کہ ان فیصلوں کے ذریعے آئین کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اگر یہ آئین وقانون کے مطابق نہیں ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آجکل اسی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کہاجا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کو الگ الگ کر دیا جائے۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے یہ آٹھ ججز اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے کس حد تک جائیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی پہلے ہی الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کے خلاف خط لکھ چکے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ نئی قانون سازی کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل نہ کرنے پر حکومت کے خلاف تو توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے تو اس پر عملدرآمد نہیں کرنا۔ سوال الیکشن کمیشن کا ہے۔ وہ کیاکرے۔ کیا وہ دباؤ میں آجائے گا۔ اسے دباؤ میں لانے کی کافی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا توہین عدالت میں چیف الیکشن کمشنر کو سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ایک آئینی معاملہ ہے۔
چیف ا لیکشن کمشنر کو نکالنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو سپریم کورٹ کو جج نکالنے کا طریقہ ہے۔ پھر جب جج کے خلاف توہین عدالت نہیں تو پھر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف کیسے۔ اس لیے یہاں بھی بند گلی ہے۔ کیا نظر ثانی اس مسئلہ کا حل ہے۔ ممکن بھی ہے اور نہیں بھی۔ لیکن مجھے لڑائی نظر آرہی ہے۔ پارلیمان سے مزید قانون سازی بھی سامنے آسکتی ہے۔ جو لڑائی کو نئی شکل دے سکتی ہے۔ اس لیے اس تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد معاملات سلجھے نہیں بلکہ ان میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور اس کی کئی شکلیں آگے سامنے آئیں گی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اب نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کے لیے جو فل کورٹ بنے گی ، کیا اس میں نئے جج بھی شامل ہوںگے؟ان کی شمولیت بھی کھیل بد ل دے گی۔