افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی

طالبان حکومت کے علاوہ کسی بھی مسلم ملک نے لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نہیں لگائی


September 25, 2024
اسلام میں کہیں بھی خواتین کی تعلیم کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار ''اسلامی جمہوریہ افغانستان'' تعلیم کے میدان میں ایک پیچیدہ منظر پیش کررہا ہے، جس میں خاص طور پر تعلیم تک عورت کی رسائی کو مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔


پہلی بار اسلام کی داعی طالبان کی حکومت (1996-2001) نے بھی خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی، یہاں تک کہ لڑکیوں کی تعلیم کو ہی بند کردیا۔ لڑکیوں کے اسکولوں کو جلا دیا گیا، خواتین اساتذہ کو قتل کیا گیا تاکہ کسی طرح سے بھی خواتین تعلیم حاصل نہ کرسکیں، کابل میڈیکل فیکلٹی کے علاوہ۔ انہوں نے میڈیکل فیکلٹی کو اس لیے کھلا چھوڑ دیا کہ خواتین مریضوں کو صرف خواتین ڈاکٹروں سے معائنہ کرنے کی اجازت تھی۔ اس وجہ سے طالبان نے بھی خواتین پر ڈاکٹروں اور نرسوں کے طور پر کام کرنے پر پابندی نہیں لگائی تھی، لیکن انہوں نے دیگر تمام شعبوں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی لگادی۔ اس عرصے میں دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تقریباً تمام دیگر مکاتب مدارس میں تبدیل ہوگئے۔


طالبان حکومت کے عروج نے تقریباً تعلیمی نظام کو تباہ کردیا تھا۔ لڑکیوں کے اسکول بند کردیے گئے تھے، اور نصاب کو تبدیل کردیا گیا تھا تاکہ مذہبی مضامین پر بہت زیادہ زور دیا جاسکے، جس میں تدریسی وقت کا 50 فیصد حصہ لیا جاتا تھا۔


2001 میں طالبان حکومت نے ایک تعلیمی قانون جاری کیا اور مذکورہ قانون کے دوسرے آرٹیکل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ تعلیم تمام افغان شہریوں کا مساوی حق ہے۔ کہا گیا کہ خواتین کی تعلیم کو ایک خصوصی قانون کے مطابق ریگولیٹ کیا جائے گا۔ تاہم خواتین کی تعلیم کے بارے میں یہ خصوصی قانون اس کے بعد کبھی جاری نہیں ہوا۔


حامد کرزئی کے دور حکومت (2001-2014) میں تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ 2001 اسلامی جمہوریہ افغانستان تعلیمی میدان میں نئے مواقع اور چیلنج لے کر آیا۔ افغانستان کے 1947 آئین کے مطابق تمام افغان بچوں کےلیے نو سال کی بنیادی تعلیم لازمی ہوگی، کو ملک میں پہلی بار نافذ کیا گیا۔


اگست 2021 میں طالبان کی دوبارہ آمد نے لڑکیوں کےلیے تعلیم کے دروازے دوبارہ بند کردیے۔ مارچ 2022 کو افغانستان میں تعلیمی سال کے پہلے دن، کلاس کےلیے آنے والی بے چین طالبات کو بند دروازے اور مسلح طالبان گارڈز ملے۔ چند دن پہلے ہی ڈی فیکٹو حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود کہ چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کےلیے اسکول دوبارہ کھلیں گے، انھوں نے لڑکیوں کو مزید تعلیم سے روک دیا۔


جنوب مشرقی افغانستان کے ایک دور دراز صوبے سے تعلق رکھنے والی مڈل اسکول کی ایک طالبہ نے کہا، ''میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے اور سات ماہ کے بعد ہم جماعتوں اور اساتذہ کو دیکھنے کے امکانات پر بہت خوش تھی۔ اپنی فجر کی نماز میں، میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کےلیے میری دعاؤں کا جواب دینے کےلیے اللہ کی حمد کی... میں جتنی تیزی سے اسکول جاسکتی تھی پہنچی، لیکن اداسی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا''۔


دو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل بین لگا دیا گیا ہے۔ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ سیاحتی مقامات تک خواتین نہیں جاسکتیں۔ یہ کس طرح کا اسلام نافذ ہونے جارہا ہے؟


طالبان نے وہی کیا جو وہ ماضی میں کرتے آرہے تھے۔ درحقیقت، طالبان کی حکومت کے علاوہ کسی بھی مسلم ملک نے لڑکیوں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نہیں لگائی۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سا اسلام ہے جو طالبان لاگو کر رہے ہیں؟ اسلامی احکامات کی یہ کون سی تشریح ہے جو طالبان دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟


اسلام میں تو کہیں بھی خواتین کی تعلیم کی حوصلہ شکنی نہیں۔ طالبان کی تشریحات کے باوجود اسلام میں مردوں کی طرح خواتین پر بھی علم حاصل کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ دونوں جنسوں کو اپنے علم میں اضافہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔ قرآن علم کے حصول کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہ تمام لوگوں کو سوچنے، غور کرنے اور علم حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔


بلکہ رسول اللہﷺ صحابیات کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف ابھارتے۔ حضرت شفا بنت عبداللہ تعلیم یافتہ صحابیہ تھیں۔ آپؐ نے انھیں حضرت حفصہؓ کو تعلیم سکھانے کا فرمایا۔


خواتین کو گھر اور معاشرے میں ان کے وقار، حقوق اور مقام سے محروم کیا جارہا ہے۔ اگر لڑکیوں کی ہائی اسکول کی تعلیم پر پابندی مستقل ہوجاتی ہے، تو یہ بالآخر معاشرے کے تمام شعبوں سے خواتین کو مذہب کی آڑ میں باہر کردے گی۔ طالبان نے خواتین اساتذہ، نرسوں، ڈاکٹروں اور کچھ سرکاری ملازمین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کیے بغیر ان ملازمتوں کو پُر کرنے کےلیے تعلیم یافتہ خواتین کہاں سے لائیں گے؟


بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان کو ایک واضح، مضبوط اور مربوط پیغام دے کہ اگر لڑکیوں کو مساوی اور معیاری اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی اجازت نہ دی گئی تو بین الاقوامی برادری تعلیم کے شعبے کےلیے فنڈز کو محدود کردے گی۔


اسلامی اسکالرز، رہنماؤں اور بااثر شخصیات کو طالبان کی جانب سے لڑکیوں کےلیے ثانوی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرنی چاہیے اور طالبان کے ساتھ ان کی تباہ کن پالیسیوں پر اثر انداز ہونے یا اسے تبدیل کرنے کےلیے ان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔


افغانستان میں حقیقی سیاسی اصلاحات ان مسائل کے حل پر منحصر ہے، کیونکہ خواتین کی تعلیم نہ صرف ایک مستحکم حکومت کی ترقی کےلیے ضروری ہے، بلکہ معیار زندگی کو بلند کرنے کےلیے بھی ضروری ہے۔ خواتین کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے اور محکوم بنانے کےلیے رہنماؤں کی طرف سے اسلامی نظریات کو اکثر توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا ہے، لیکن افغانستان کی جمہوریت میں اسلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ افغان معاشرے میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اسلام کا احترام کیا جانا چاہیے اور خواتین کی تعلیم اور حقوق کو فروغ دینے کےلیے عمل میں لانا چاہیے، کیونکہ یہ ملک کی تاریخ اور مذہبی نظریے میں شامل ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں