دنیا بھر سے داستاں میری لہو لہو

میزبان نے مغرب کے پروپیگنڈا کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ظلم کا نشانہ فلسطین میں معصوم بچے بن رہے ہیں


مبشر اکرام July 14, 2014
امریکہ میں بیٹھ کر ایک نیوز چینل کی میزبان تو اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرسکتی ہے، مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اِس قدر مظالم کے باوجود مسلم امہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے فوٹو؛ عرب نیوز

ISLAMABAD: فریب اور جھوٹ صیہونی طاقتوں کا ہمیشہ سے وہ ہتھیار رہا ہے جس سے انہوں نے پوری دنیا میں قتلِ عام بھی کیا اور اس پر پردے بھی ڈالے۔ ہر تھوڑے عرصے بعد تشدد کا یہ جن بے قابو ہوجاتا ہے اور غزہ کی گلیاں سسکتے بلکتے بچوں کے خون اور دریدہ آنچلوں سے رنگین ہو جاتی ہیں۔

حالیہ ہونے والے حملے میں بھی تادمِ تحریر 150 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں بچوں کی تعداد 35 سے تجاوز کرچکی ہے۔ اسرائیل کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ یہ ظلم بھی کرتے ہیں اور اس کے بعد غلط بیانی بھی۔''وال سٹریٹ جر نل'' امریکہ کا ایک مشہور میگزین ہے ۔اس میگزین نے صیہونیت کی چھتری تلے پروپیکنڈہ پھیلانے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔اسی میگزین نے پچھلے دنوں غزہ میں برپا اس قیامت کے بارے میں انتہائی جانب دار رپورٹنگ کی۔

اس نے غزہ میں لڑی جانے والی اس جنگ کے بارے میں کہا کہ اسرائیل کو دہشتگردتنظیموں کی جانب سے حملوں کا سامنا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اب تک دوسو سے زائد ٹھکانوں کو غزہ میں نشانہ بنا چکا ہے اور یہ حملے اب تک جاری ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے جاری کیے گئے ان جھوٹے بیانوں کی خود امریکی میڈیا نے ہی تردید کی۔واشنگٹن کے ایک چینل ''رشیا ٹوڈے'' کی میزبان نے براہ راست نشریات کے دوران امریکا، اسرائیل اور امریکی میڈیا پر برس پڑیں اور انہوں نے امریکا کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی مسلسل حمایت کی آن ایئر مخالفت کی اور اس دوران وہ بالکل بھی نہ گھبرائیں اور نہ ہی انہیں ملازمت جانے کا کوئی خوف تھا۔

میزبان کا کہنا تھا کہ مجھے فلسطین سے محبت ہے کیونکہ اسرائیل فلسطین پر ظلم کر رہا ہے اور اس کی اس جارحیت سے معصوم افراد نشانہ بن رہے ہیں۔جارحیت کا اگلا قدم یہ کہ غزہ کی گلیوں میں بے گوروکفن لاشے ابھی تک پڑے دفن ہونے کو پڑے ہیں ۔اسرائیل بیس ہزار زمینی فوج بھی غزہ میں اتار چکا ہے۔ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔اقوامِ متحدہ کا کردار ہمیشہ کی طرح اس معاملے پر بھی خاموش تماشائی کاہے۔غزہ کے متاثرین نے گزشتہ دنوں احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ان مظاہروں میں پاکستان اور پاکستانی فوج کو مدد کے لئے بلایا جاتا رہا۔پاکستان میں بھی ''شتر بے مہار میڈیا'' کی بدولت کچھ ایسے دوانشور مارکیٹ میں آچکے ہیں۔جو گھومنا پوری دنیا چاہتے ہیں۔دوبئی میں بھی کوئی ماڈلنگ شو ہو تو رال پاکستان میں ٹپکنے لگتی ہے،حوالے وہ مغربی فلاسفرز کی دیتے ہیں،توتھ پیسٹ برطانیہ کا استعمال کرتے ہیں اور برش امریکہ کا،لیکن جب کبھی مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کی بات آتی ہے تواُس وقت پاکستان پاکستان کرتے ہیں۔

جنگل کے دو بیلوں کی کہانی ابھی پرانی نہیں ہوئی۔خونخوار درندہ اور لومڑی اپنے کام میں بڑی تندہی کے ساتھ مصروف ہیں۔ہمیں کرنا یہ ہے کہ کم از کم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کا راستہ روکیں۔بعید نہیں کہ فلسطین میں لگی یہ آگ کل کلاں ہمیں اور باقی ''عرب تماشائیوں'' کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ ''جارج گیلووے'' نے بھی فلسطین ایشو پر خاصی جرائت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ ''کیا کوئی ایک بھی شخص کوئی ایک عرب یا مسلم لیڈر فلسطین میں ہونے والے اس قتل عام پر کھڑے ہونے کی جرات کرے گا؟ کھڑا ہونا تو درکنار ، ایک انگلی تک اٹھانا بھی کوئی گوارا کرے گا ؟
کہاں ہے وہ طیب اردگان ؟ یہ ہے جو خلافت عثمانیہ کے تحفظ کی جنگ لڑیں گے؟
کہاں ہے ولید بن طلال بن عبد العزیز السعود جو سکائی نیوز اور فاکس چینل (دونوں یہودی چینل ہیں ) کی ملکیت میں شراکت دار ہیں ؟
کہاں ہیں عرب دنیا کے یہ بادشاہ اور امیر ؟
کہاں ہیں شاہ عبد اللہ جو حرمین شریفین کے خادم ہیں؟
کہاں ہے جنرل سیسی جو اب مسلمانوں کے لیے کسی جدید جمال عبد الناصر سے کم نہیں ہے .
میں بہت ہی خلوص کے ساتھ مسلم رہنماؤں کو مخاطب کرکے یہ سوال کرتا ہوں کیا تمہیں شرمندگی کا ذرہ بھر احساس بھی نہیں ہے ؟ تم خود ہی اپنے بارے میں اندازہ لگا لو اس سے پہلے کہ تمہیں اندازہ کروا دیا جائے۔





نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں