زخمی جسموں اور کچلی روحوں والی 2 بہنیں انصاف اور تحفظ کیلئے در بدر اور ملزم آزاد
لڑکیوں کی پڑوسن نے انہیں پیشکش کی کہ وہ دبئی میں ان کے بیوٹی پارلر میں کام کرے تو ان کی مالی مشکلات دور ہوجائیں گی
لاہور:
وطن عزیز میں آباد لوگوں کی اکثریت غربت سے چھٹکارے کے لئے بیرون ملک جانے کی خواہش مند ہے ان افراد کی قریبی منزل خلیجی عرب ممالک ہیں جہاں وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ریاستیں پاکستانی خواتین کی حرمتیں لوٹنے والوں کی آماج گاہیں بھی ہیں جہاں خواتین کو اچھی ملازمتوں کا لالچ دے کر جسم فروشی کے دلدل میں دھنسایا جارہا ہے ان ہی میں دو کم عمر بہنیں بھی شامل ہیں جو ایک جانب اپنوں ہی کے طعنوں سے چھلنی ہورہی ہیں اور دوسری جانب انسانی اسمگلرز بھی ان کی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ زنیرہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے وہ کمپیوٹر انجنئیر بن کر اپنے والدین کی زندگیوں میں بہتری لانے کی خواہشمند تھی، لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا، چند برس قبل اس کے خاندان کو مالی مشکلات نے آگھیرا،اس صورت حال میں وہ اور اس کی بہن شائستہ نے اپنے گھر والوں کی مدد کی ٹھانی اور گھر پر ہی چھوٹا موٹا کام کرنے لگیں۔ اس صورت حال میں ان کی پڑوسن نے انہیں پیشکش کی کہ وہ دبئی میں ان کے بیوٹی پارلر میں کام کرے تو کچھ ہی عرصے میں ان کی مالی مشکلات دور ہوجائیں گی۔ زنیرہ اور شائستہ نے عائشہ کو رحمت کا فرشتہ سمجھا لیکن یہاں ان کی عمریں دبئی میں کام کرنے سے متعلق قوانین سے کم تھیں کیونکہ متحدہ عرب امارات 18 سال سے کم عمر شخص سے کام نہیں لیا جاسکتا۔
عائشہ بھی تمام قانونی سقم جانتی تھی اس نے دونوں بہنوں کے جعلی کاغذات تیار کرائے اور اس طرح دونوں بہنیں آنکھوں میں سہانے سپنے سجائے دبئی پہنچیں۔ ان کے یہ خواب زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے اور ایئرپورٹ پر ہی خاتون نے انہیں بتادیا کہ اس کا کوئی بیوٹی پارلر نہیں بلکہ وہ تو ایسے گھناؤنے دھندے سے تعلق رکھتی ہے جس کا کوئی عورت سوچ بھی نہیں سکتی۔ زنیرہ اور شائستہ پر یہ بات بجلی بن کر گری، انہوں نے وہیں رونا اور گڑگرانا شروع کردیا۔ جس پر خاتون نے اسے دھمکایا کہ اگر انہوں نے اگر مگر کی تو وہ مقامی حکام کو سب کچھ بتادے گی کہ دونوں بہنیں جعلی دستاویزات پر دبئی پہنچی ہیں اور پھر انہیں برسوں تک جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ اس طرح زنیرہ اور شائستہ کی درد بھری کہانی نے نیا موڑ لیا جہاں ہر نیا دن ان کی روح کو کچوکے لگاتا اور ذرا سا بھی انکار ان پر بہیمانہ تشدد کی وجہ بنتا جاتا۔
زنیرہ اور شائستہ سمیت کئی لڑکیاں ان درندہ صفت لوگوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں، جنہیں نہ تو باہر جانے کی اجازت تھی نہ کہ کسی سے بات کرنے کی۔ تہواروں کے موقع پر وہ اپنے گھر والوں سے ٹیلی فون پر بات کرتی تھیں وہ بھی کڑی نگرانی میں۔ خاتون اور اس کے شوہر اشفاق کا کہنا تھا کہ اگر ذرا سی بھی بات ان کے والدین کو پتہ چلی تو پاکستان میں ان کے والدین زندہ نہیں بچیں گے۔ ایک دن دونوں نے اپنی بڑی بہن قمر کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا جس نے قیمت ادا کرکے اس جہنم سے انہیں نکالا۔ زنیرہ اور شائستہ کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئی، ایک روز دھندا کرانے والی خاتون کا بھائی اور اس کا دیور آیا اور اس نے ان پر فائرنگ کردی ، زنیرہ کو 3 گولیاں لگیں لیکن شائد اسے ابھی زندگی میں مزید عذاب سہنے تھے سو بچ گئی۔ ایک جانب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو دوسری جانب وہ اپنی جان بچانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تمام ترمجبوریوں کا ادراک رکھنے کے باجود رشتے دار اور محلے والے انہیں جسم فروشی کے طعنے دے کر زخموں سے چور روح کو مزید چھلنی کررہے ہیں۔
ایک سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود زنیرہ کے دل و دماغ سے وہ دردناک یادیں مٹتی نہیں اور اس کا درد اس کی آواز میں بھی صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جبکہ شائستہ تو اپنا غم بیان کرسکنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی وہ ہر لمحے جیتی اور اور ہر لمحے اپنے ناکردہ گناہوں کے دلدل میں دھنستی جارتی ہے۔ دوسری جانب ان پر ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے دور ہیں، عدالت نے ایف آئی اے کو کارروائی کا حکم دیا تو اشفاق عدالت سے حکام کی موجودگی میں ہی بھاگ نکلا جبکہ اس کی بیوی اب بھی ضمانت پر ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے فیصل آباد سید شاہد حسن کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں بیوٹی پارلرز، میوزک اور ڈانس کلبس میں کام کے لئے لے جائی جاتی ہیں لیکن ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں کہ انہیں جسم فروشی کے لئے اسمگل کیا گیا تھا کیونکہ قانون تو ثبوت اور شہادتیں مانگتا ہے اور بھلا ان غریبوں کے پاس کون سا ثبوت اور کون سا گواہ۔
وطن عزیز میں آباد لوگوں کی اکثریت غربت سے چھٹکارے کے لئے بیرون ملک جانے کی خواہش مند ہے ان افراد کی قریبی منزل خلیجی عرب ممالک ہیں جہاں وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ریاستیں پاکستانی خواتین کی حرمتیں لوٹنے والوں کی آماج گاہیں بھی ہیں جہاں خواتین کو اچھی ملازمتوں کا لالچ دے کر جسم فروشی کے دلدل میں دھنسایا جارہا ہے ان ہی میں دو کم عمر بہنیں بھی شامل ہیں جو ایک جانب اپنوں ہی کے طعنوں سے چھلنی ہورہی ہیں اور دوسری جانب انسانی اسمگلرز بھی ان کی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ زنیرہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے وہ کمپیوٹر انجنئیر بن کر اپنے والدین کی زندگیوں میں بہتری لانے کی خواہشمند تھی، لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا، چند برس قبل اس کے خاندان کو مالی مشکلات نے آگھیرا،اس صورت حال میں وہ اور اس کی بہن شائستہ نے اپنے گھر والوں کی مدد کی ٹھانی اور گھر پر ہی چھوٹا موٹا کام کرنے لگیں۔ اس صورت حال میں ان کی پڑوسن نے انہیں پیشکش کی کہ وہ دبئی میں ان کے بیوٹی پارلر میں کام کرے تو کچھ ہی عرصے میں ان کی مالی مشکلات دور ہوجائیں گی۔ زنیرہ اور شائستہ نے عائشہ کو رحمت کا فرشتہ سمجھا لیکن یہاں ان کی عمریں دبئی میں کام کرنے سے متعلق قوانین سے کم تھیں کیونکہ متحدہ عرب امارات 18 سال سے کم عمر شخص سے کام نہیں لیا جاسکتا۔
عائشہ بھی تمام قانونی سقم جانتی تھی اس نے دونوں بہنوں کے جعلی کاغذات تیار کرائے اور اس طرح دونوں بہنیں آنکھوں میں سہانے سپنے سجائے دبئی پہنچیں۔ ان کے یہ خواب زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے اور ایئرپورٹ پر ہی خاتون نے انہیں بتادیا کہ اس کا کوئی بیوٹی پارلر نہیں بلکہ وہ تو ایسے گھناؤنے دھندے سے تعلق رکھتی ہے جس کا کوئی عورت سوچ بھی نہیں سکتی۔ زنیرہ اور شائستہ پر یہ بات بجلی بن کر گری، انہوں نے وہیں رونا اور گڑگرانا شروع کردیا۔ جس پر خاتون نے اسے دھمکایا کہ اگر انہوں نے اگر مگر کی تو وہ مقامی حکام کو سب کچھ بتادے گی کہ دونوں بہنیں جعلی دستاویزات پر دبئی پہنچی ہیں اور پھر انہیں برسوں تک جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ اس طرح زنیرہ اور شائستہ کی درد بھری کہانی نے نیا موڑ لیا جہاں ہر نیا دن ان کی روح کو کچوکے لگاتا اور ذرا سا بھی انکار ان پر بہیمانہ تشدد کی وجہ بنتا جاتا۔
زنیرہ اور شائستہ سمیت کئی لڑکیاں ان درندہ صفت لوگوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں، جنہیں نہ تو باہر جانے کی اجازت تھی نہ کہ کسی سے بات کرنے کی۔ تہواروں کے موقع پر وہ اپنے گھر والوں سے ٹیلی فون پر بات کرتی تھیں وہ بھی کڑی نگرانی میں۔ خاتون اور اس کے شوہر اشفاق کا کہنا تھا کہ اگر ذرا سی بھی بات ان کے والدین کو پتہ چلی تو پاکستان میں ان کے والدین زندہ نہیں بچیں گے۔ ایک دن دونوں نے اپنی بڑی بہن قمر کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا جس نے قیمت ادا کرکے اس جہنم سے انہیں نکالا۔ زنیرہ اور شائستہ کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئی، ایک روز دھندا کرانے والی خاتون کا بھائی اور اس کا دیور آیا اور اس نے ان پر فائرنگ کردی ، زنیرہ کو 3 گولیاں لگیں لیکن شائد اسے ابھی زندگی میں مزید عذاب سہنے تھے سو بچ گئی۔ ایک جانب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو دوسری جانب وہ اپنی جان بچانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تمام ترمجبوریوں کا ادراک رکھنے کے باجود رشتے دار اور محلے والے انہیں جسم فروشی کے طعنے دے کر زخموں سے چور روح کو مزید چھلنی کررہے ہیں۔
ایک سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود زنیرہ کے دل و دماغ سے وہ دردناک یادیں مٹتی نہیں اور اس کا درد اس کی آواز میں بھی صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جبکہ شائستہ تو اپنا غم بیان کرسکنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی وہ ہر لمحے جیتی اور اور ہر لمحے اپنے ناکردہ گناہوں کے دلدل میں دھنستی جارتی ہے۔ دوسری جانب ان پر ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے دور ہیں، عدالت نے ایف آئی اے کو کارروائی کا حکم دیا تو اشفاق عدالت سے حکام کی موجودگی میں ہی بھاگ نکلا جبکہ اس کی بیوی اب بھی ضمانت پر ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے فیصل آباد سید شاہد حسن کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں بیوٹی پارلرز، میوزک اور ڈانس کلبس میں کام کے لئے لے جائی جاتی ہیں لیکن ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں کہ انہیں جسم فروشی کے لئے اسمگل کیا گیا تھا کیونکہ قانون تو ثبوت اور شہادتیں مانگتا ہے اور بھلا ان غریبوں کے پاس کون سا ثبوت اور کون سا گواہ۔