سینیٹ کمیٹی خزانہ کی اسلامی بینکاری کو قوانین میں چھوٹ دینے کی مخالفت
اسٹیٹ بینک ان پر بھی وہی قوانین لاگو کرے جو روایتی بینکوں کے لیے ہیں، یہ صرف منافع کیلیے اسلامی بن رہے ہیں،قائمہ کمیٹی
سینیٹ قائمہ کمیٹی میں سینیٹرز نے اسلامی بینکاری کو چھوٹ دینے کی مخالفت کردی اور مطالبہ کیا کہ جو قوانین روایتی بینکوں کے لیے ہیں وہی قوانین اسلامی بینکاری پر بھی لاگو کیے جائیں بینک صرف منافع کے لیے اسلامی بینک بن رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر، وزارت خزانہ و اسٹیٹ بینک کے افسران اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران و نمائندگان شریک تھے۔ اجلاس میں اسلامی بینکاری کا معاملہ زیر بحث آیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ شریعہ اسکالرز سے مل کر اسلامک بانڈز پر کام کر رہے ہیں، شریعہ اسکالرز کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسلامک بینکوں پر پروڈینشل ریگولیشنز کا اطلاق کر رہے ہیں، اسلامک بینکنگ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 25ویں نمبر پر ہے، روایتی بینک اسلامک بینکوں کے مقابلے میں صارفین سے زیادہ چارجز وصول کر رہے ہیں پاکستان میں اسلامی بینکاری بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اسلامی بینکاری کو عالمی معیارات کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے پوچھا کہ کیا اسلامی بینکاری میں کبھی نقصان صارف کی طرف منتقل یا جاتا ہے؟ جواب میں اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ اگر اسلامی بینک کو نقصان ہو تو وہ مسابقت کے باعث اپنا منافع کم کر کے صارف کو بچاتے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینکوں کے بارے میں شکایت ہے کہ یہ کمرشل بینکوں کے مقابلے میں چار فیصد کم منافع ادا کر رہے ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اسلامی سکوک کا حجم بہت بڑھ گیا ہے ہماری حکومت نے اسے فروغ دیا تھا، کیا اسلامی بینکوں کیلئے قرض جاری کرنے کے لیے کوئی حد مقرر ہے؟
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں سکوک بانڈ بہت مقبول ہے حکومت کے تمام سکوک کسی جائیداد کے بنیاد پر جاری کیے گئے ہم سکوک کیلئے اثاثے کی شرط میں تبدیلی کیلئے شریعہ اسکالرز سے مشاورت کر رہے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کیا اسلامی بینکاری عام بینکاری کی طرح محتاط قوانین پر عمل درآمد کرتی ہے؟
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے محتاط قوانین کافی سخت ہیں کمرشل بینک صارف سے زیادہ چارج کرتے ہیں کمرشل بینکوں کے پاس حکومت کے 40 کھرب کے قرض ہیں جب کہ اسلامی بینکوں کے پاس سرمایہ کاری کے مواقع کم ہیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینک صرف منافع کے لیے اسلامی ہو رہے ہیں اور یہ زیادہ منافع کے باعث فروغ پا رہی ہے، میں اسلامک بینکنگ کے خلاف نہیں ہوں اسلامک بینکنگ کو فروغ دینے میں کوئی بد نیتی نظر نہیں آرہی مگر چاہتا ہوں کہ اسلامی بینکوں پر بھی روایتی بینکوں کی طرح قوانین کا اطلاق کیا جائے اسلامی بینکوں کو بینکاری قوانین سے چھوٹ نہ دی جائے میں بھی اسلامک بینکاری کا حامی ہوں ملائشیا کی طرز پر اسلامک بینکاری متعارف کروائی جائے اسٹیٹ بینک اسلامک بینکوں کو بھی روایتی بینکوں کی طرح ریگولیٹ کرے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسلامی بینکس کو اوور ریگولیٹ نہیں کرسکتے وہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں اسلامک بینکوں کے پاس ابھی اثاثے کم ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ میں نے اپنے اکاؤنٹس کو تین سال پہلے اسلامی بینکاری پر منتقل کرلیا اور میں مطمئن ہوں حکومت کو اپنے اکاؤنٹس اسلامی بینکوں کی طرف منتقل کرنے چاہئیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر صارف تو بینک کو لکھ کر دیتے ہیں انہیں منافع نہیں چاہیے۔
شبلی فراز نے کہا کہ حکومت نے بینکوں کی موج کروائی ہوئی ہے انھیں کہیں اور دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سارا قرض تو حکومت کو دیا جا رہا ہے اس لیے اب بینکاروں کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ اسلامک بینکاری کی شرائط بینکوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں صارف کو نہیں اسٹیٹ بینک اسلامک بینکاری کو زیادہ بہتر ریگولیٹ کرے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر، وزارت خزانہ و اسٹیٹ بینک کے افسران اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران و نمائندگان شریک تھے۔ اجلاس میں اسلامی بینکاری کا معاملہ زیر بحث آیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ شریعہ اسکالرز سے مل کر اسلامک بانڈز پر کام کر رہے ہیں، شریعہ اسکالرز کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسلامک بینکوں پر پروڈینشل ریگولیشنز کا اطلاق کر رہے ہیں، اسلامک بینکنگ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 25ویں نمبر پر ہے، روایتی بینک اسلامک بینکوں کے مقابلے میں صارفین سے زیادہ چارجز وصول کر رہے ہیں پاکستان میں اسلامی بینکاری بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اسلامی بینکاری کو عالمی معیارات کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے پوچھا کہ کیا اسلامی بینکاری میں کبھی نقصان صارف کی طرف منتقل یا جاتا ہے؟ جواب میں اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ اگر اسلامی بینک کو نقصان ہو تو وہ مسابقت کے باعث اپنا منافع کم کر کے صارف کو بچاتے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینکوں کے بارے میں شکایت ہے کہ یہ کمرشل بینکوں کے مقابلے میں چار فیصد کم منافع ادا کر رہے ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اسلامی سکوک کا حجم بہت بڑھ گیا ہے ہماری حکومت نے اسے فروغ دیا تھا، کیا اسلامی بینکوں کیلئے قرض جاری کرنے کے لیے کوئی حد مقرر ہے؟
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں سکوک بانڈ بہت مقبول ہے حکومت کے تمام سکوک کسی جائیداد کے بنیاد پر جاری کیے گئے ہم سکوک کیلئے اثاثے کی شرط میں تبدیلی کیلئے شریعہ اسکالرز سے مشاورت کر رہے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کیا اسلامی بینکاری عام بینکاری کی طرح محتاط قوانین پر عمل درآمد کرتی ہے؟
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے محتاط قوانین کافی سخت ہیں کمرشل بینک صارف سے زیادہ چارج کرتے ہیں کمرشل بینکوں کے پاس حکومت کے 40 کھرب کے قرض ہیں جب کہ اسلامی بینکوں کے پاس سرمایہ کاری کے مواقع کم ہیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اسلامی بینک صرف منافع کے لیے اسلامی ہو رہے ہیں اور یہ زیادہ منافع کے باعث فروغ پا رہی ہے، میں اسلامک بینکنگ کے خلاف نہیں ہوں اسلامک بینکنگ کو فروغ دینے میں کوئی بد نیتی نظر نہیں آرہی مگر چاہتا ہوں کہ اسلامی بینکوں پر بھی روایتی بینکوں کی طرح قوانین کا اطلاق کیا جائے اسلامی بینکوں کو بینکاری قوانین سے چھوٹ نہ دی جائے میں بھی اسلامک بینکاری کا حامی ہوں ملائشیا کی طرز پر اسلامک بینکاری متعارف کروائی جائے اسٹیٹ بینک اسلامک بینکوں کو بھی روایتی بینکوں کی طرح ریگولیٹ کرے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسلامی بینکس کو اوور ریگولیٹ نہیں کرسکتے وہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں اسلامک بینکوں کے پاس ابھی اثاثے کم ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ میں نے اپنے اکاؤنٹس کو تین سال پہلے اسلامی بینکاری پر منتقل کرلیا اور میں مطمئن ہوں حکومت کو اپنے اکاؤنٹس اسلامی بینکوں کی طرف منتقل کرنے چاہئیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر صارف تو بینک کو لکھ کر دیتے ہیں انہیں منافع نہیں چاہیے۔
شبلی فراز نے کہا کہ حکومت نے بینکوں کی موج کروائی ہوئی ہے انھیں کہیں اور دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سارا قرض تو حکومت کو دیا جا رہا ہے اس لیے اب بینکاروں کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ اسلامک بینکاری کی شرائط بینکوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں صارف کو نہیں اسٹیٹ بینک اسلامک بینکاری کو زیادہ بہتر ریگولیٹ کرے۔