عدلیہ کس قانون کے تحت کہہ رہی ہے فلاں پارٹی میں چلے جاؤ،عرفان صدیقی

  اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مخصوص نشستیں کیس میں کسی ایک رکن نے بھی نہیں کہا کہ وہ پارٹی بدلنا چاہتے ہیں آپ کس قانون کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ فلاں پارٹی میں چلے جاؤ؟ عدلیہ کسی مارشل لا کے سامنے کھڑی نہیں ہوئی اور پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کی بات پہ شور برپا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ حالیہ دنوں میں عدالتی فیصلے کے بعد ایک سوال پیدا ہوا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ ہوا یہ تین ارکان کا بالا دستی کا فیصلہ تھا اس فیصلے سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے اور معاملے کو اتنا پیچیدہ کردیا گیا کہ سلجھانا ناممکن ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم روزانہ سنتے ہیں کہ فلاں قانون آئین سے متصادم تھا عدلیہ اس سے متعلق فیصلے کرتی ہے اور تشریح کرتی ہے

کیا یہ ممکن ہے کہ عدالت کا کوئی بنچ بھی غلطی کرسکتا ہے یا نہیںَ؟ ہمارے بنائے ہوئے قانون کو اُڑا دیا جاتا ہےاس فیصلے میں الیکشن ایکٹ کو بار بار توڑا گیا عدلیہ غلطی کا مرتکب ہوجائے تو اس کا اسباب کیا تھے؟ آج یہ طے ہو جانا چاہیے کہ اگر کوئی فیصلہ آئین سے متصادم ہو تو کون ٹھیک کرے گا؟

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اراکین کو تین دن کے اندر پارٹی جوائن کرنا ہوتی ہے آئین اور قانون تین دن کا وقت دیتا ہے ان لوگوں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا آئین اس پنجرے کو پانچ سال بند رکھتا ہے اس آئینی شرط کو آپ توڑ دیتے ہیں اور پرندوں کو باہر آنے کا کہہ دیتے ہیں آپ پنجرہ کھولتے ہیں اور پی ٹی آئی میں جانے کا کہتے ہیں یہ کیا ہے؟ یہ اختیار کہاں سے آگیا یہ اختیار اگر لیا ہے تو غلط لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نظریہ سہولت اور مکمل انصاف کے تحت فیصلہ ہوتا ہے کسی ایک رکن نے بھی نہیں کہا کہ وہ پارٹی بدلنا چاہتے ہیں آپ کس قانون کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ فلاں پارٹی میں چلے جاؤ؟ کسی مارشل لا کے سامنے عدلیہ کھڑی نہیں ہوئی اور پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کی بات پہ شور برپا ہے اب ہمارے لئے مسئلہ پیدا کردیا گیا کہ ہم کس طرف جائیں؟

ان کا کہنا تھا کہ آئین کی شق 239 کہتی ہے کہ آئین میں کی گئی ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی، یہ شق معدوم ہوچکی ہے مجلس شوریٰ کی اتھارٹی پر کوئی پابندی نہیں ہے، اپنے حدود کی تجاوز کی وجہ سے آئین کی شقوں کو مفلوج کردیا ہے۔