جوئے شیر

ایم جے گوہر  جمعرات 26 ستمبر 2024
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ایک صاحب کی تالا کھولنے کی ناکام کوشش اب باقاعدہ جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہو چکی تھی، وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کر رہے تھے، خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’ کنجی تو بظاہر صحیح ہے، یقیناً تالے کے اندرکوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے تالا کھل نہیں رہا ہے۔‘‘ ان کا غصہ اب اس درجہ انتہا پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلہ صرف یہ تھا کہ تالا کھولنے کے لیے وہ کنجی کے بجائے ہتھوڑے کا استعمال شروع کردیں۔ اتنے میں موصوف کے رفیق خاص نے ان سے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ غلط کنجی لگا رہے ہیں، تالا تبدیل ہوگیا ہے، اس کی کنجی دوسری ہے۔‘‘ پھر انھوں نے درست کنجی سے لمحے بھر میں تالا کھول دیا۔

ماضی کے معیاروں پر حال کی دنیا سے اپنے لیے حق وصول کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ من پسند خواہشوں کی عدم تکمیل کے باعث نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں، لیکن وہ کنجی کی تبدیلی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے تالے کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

آج بھی حکمران اسی مخمصے کا شکار ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے برق رفتار تبدیل ہوتے ہوئے دور میں اس کی اہمیت اور حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ جس نے عام آدمی، پسماندہ طبقے اور ناخواندہ لوگوں کے اذہان کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ عوام الناس کے شعور و آگہی میں حیران کن تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ وہ اہل اقتدار کے کردار اور قول و عمل کے تضادات کو سمجھنے اور اپنی آرا کا اظہار کرنے میں مشاق ہوتے جا رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ حکومت انتہائی عجلت میں آئینی ترامیم کیوں منظور کرانا چاہتی ہے۔ آئینی عدالت کے قیام پر کیوں مصر ہے ۔

ججوں کی مدت ملازمت اور عمر کی حد بڑھانے کے پس پردہ کون سے مقاصد کار فرما ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر الیکشن کمیشن کا تادم تحریر عمل درآمد نہ کرنے کی کیا وجوہات ہیں۔ گزشتہ ماہ نافذ ہونے والے الیکشن ترمیمی ایکٹ کو جواز بنا کر الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر یہ ہدایت دینا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہو سکتا، کا سبب کیا ہے؟ مذکورہ خط جاری ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے نئی پارٹی پوزیشن کا اجرا کہ جس کے تحت پی ٹی آئی کے 80 ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہرکیا گیا ہے، کی آڑ میں مجوزہ آئینی ترامیم منظور کرانے کی کون سی منصوبہ سازی کی جا رہی ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے درپردہ کون سی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت کی مذکورہ ساری کوشش، فیصلے، مجوزہ ترامیم اور اقدامات محض موجودہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بروقت دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئینی ترامیم کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا جس سے عوامی سطح پر ان کے سیاسی قد اور مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔ پی ٹی آئی جو ممکنہ آئینی ترمیم کی بڑی ناقد اور مخالف ہے اگر مولانا کو اپنے احتجاجی سفر میں شریک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، بعینہ وکلا تنظیمیں جو مجوزہ ترامیم کو قبول کرنے سے انکاری اور مخالف تحریک کے لیے تیار ہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت کے لیے آئینی ترمیم منظور کروانا ’’جوئے شیر‘‘ لانے کے برابر ہے، کیوں کہ گھاگ سیاستدانوں نے عوام کے اذہان پر جو زنگ آلود تالے ڈال رکھے تھے وہ الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے تبدیل ہو چکے ہیں اور اب نئے تالوں کی چابی سوشل میڈیا کے ہاتھ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔