پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترامیم

آجکل پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے پھر تنازعہ سامنے آرہا ہے۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر آرڈیننس کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترامیم کر دی ہیں۔ اس سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سپریم کورٹ میں جو کمیٹی قائم کی گئی تھی اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ دو سینئر ترین جج شامل ہوتے تھے۔ لیکن اب ترمیم کر کے چیف جسٹس کے ساتھ سینئر جج کو تو کمیٹی کا رکن رہنے دیا گیا ہے۔ لیکن چیف جسٹس پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کمیٹی میں تیسرا رکن مقرر کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کمیٹی کا بنیادی کام سپریم کورٹ میں کیس مقرر کرنا اور کونسا بنچ کونسا کیس سنے گا طے کرنا ہے۔ کونسا جج کونسے بنچ میں ہوگا یہ بھی یہی کمیٹی طے کرتی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیوں لایا گیا تھا۔ پارلیمنٹ نے یہ بل کیوں پاس کیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں بہت شور مچ گیا تھا کہ ایک ہی بنچ تمام مقدمات سنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ججز کو اہم کیسز سے باہر رکھا جا رہا تھا۔ پانچ ججز ہی زیادہ تر مقدمات سنتے تھے‘ اسے ہم خیال بنچ کا بھی نام دیا گیا۔اس ایک بنچ نے ریکارڈ کیس سنے۔ اس بنچ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کا جھکاؤ تحریک انصاف کی طرف محسوس کیا جاتا تھا۔

اس بنچ کے سارے فیصلے تحریک انصاف کے حق میں آئے۔ بہت شور مچا۔ سپریم کورٹ کے سینئر ججز نے بھی کہا کہ انھیں کوئی کیس دیا ہی نہیں جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی احتجاج کیا۔ اس بنچ کے کئی فیصلوں کے بارے میں یہ ر ائے بھی سامنے آئی کہ یہ فیصلے آئین سے ماورا ہیں اور آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہیں۔

ایسے ماحول میں جب یہ محسوس کیا گیا کہ بنچز کے قیام میں چیف جسٹس کے پاس ایک آمر کے اختیارات ہیں۔ چیف جسٹس کسی کے ساتھ مشورہ کے پابند نہیں ہیں۔ وہ اکیلے جو مرضی کریں۔ سب احتجاج بھی کرتے رہیں تو کسی کے پاس اپنی بات کہنے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ اس لیے سینئر ججز کی ایک کمیٹی تجویز کی گئی جہاں کیسز کو لگانے بنچ بنانے کے معاملات مشاورت سے طے کیے جائیں۔

جب یہ بل پارلیمان سے پاس کیا گیا تو ابھی یہ بل نوٹیفائی نہیں ہوا تھا۔ ابھی صدر نے اس بل پر دستخط نہیں کیے تھے تو چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس قانون کو معطل کر دیا۔ یہ بھی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا جب ایک قانون ابھی قانون بنا ہی نہیں تھا، اس کو معطل کر دیا گیا۔ اور پھر جب تک عمر عطا بندیال چیف جسٹس رہے اس قانون کو معطل ہی رکھا گیا۔ معطل کرنے کے بعد دوبارہ اس کی سماعت ہی نہیں کی گئی۔ بس قانون کو معطل ہی رکھا گیا۔

ایسے میں قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان بن گئے اور انھوں نے چیف جسٹس بنتے ہی سب سے پہلے اسی قانون پر فل کورٹ بنا دیا۔ اس کیس کی لائیو سماعت بھی شروع کروا دی۔ فل کورٹ نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا اور کمیٹی نے کام شروع کر دیا۔ حالانکہ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چاہتے تو اس قانون کو معطل رکھتے۔ لیکن انھوں نے بنچ بنانے کا اپنا اختیار خود ہی ختم کیا اور اس کو ایک کمیٹی کو دے دیا۔

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ پارلیمان کی کبھی یہی خواہش نہیں تھی کہ بنچ بنانے کے عمل سے چیف جسٹس کے کردار کو ختم کر دیا جائے۔ بلکہ کوشش تھی کہ بنچ بنانے کا عمل شفاف کیا جائے۔ مشاورت کو عمل کا حصہ بنایا جائے۔ شروع میں تو کمیٹی نے اچھا کام کیا۔ لیکن جب سے حکومت نے عدلیہ میں اصلاحات کی بات کی‘ اس کے رد عمل میں تقسیم نظر آنا شروع ہو گئی۔ اس تقسیم نے اس کمیٹی کے کام کو بھی متاثر کیا۔ اور ایک نئی صورتحال سامنے آگئی۔

اب یہ بات دیکھی گئی کہ کمیٹی کے دو ممبران نے چیف جسٹس کو عملی طور پر بنچ بنانے کے عمل سے آؤٹ ہی کر دیا۔ چیف جسٹس افسر بکار خاص بن گئے۔ ایک طرف صورتحال یہ تھی جب چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے لامحدود اختیارات سسٹم کے لیے نقصان دہ بن رہے تھے۔

اب یہ صورتحال بن گئی کہ چیف جسٹس بنچ کے بنانے کے عمل سے بالکل ہی آؤٹ ہو گئے۔ عملی طور پر چیف جسٹس بے اختیار ہو گئے اور کمیٹی کے دو جونیئر ممبران نے سپریم کورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ تمام بنچ ان دو ممبران کی مرضی سے بننے لگے۔ چیف جسٹس کی کوئی رائے نہیں تھی۔ وہ اقلیتی ممبر بن کر رہ گئے۔ جہاں ان کی بات کی اہمیت ہی ختم ہو گئی۔ اگر یہ صورتحال ہی رہتی ہے تو چیف جسٹس کا منصب ہی ختم ہو جائے گا۔ بہر حال چیف جسٹس کے عہدہ کا تقدس تو قائم رکھنا ہے۔ ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بے اختیار کر کے تو نہیں بٹھا سکتے۔

اس صورتحال میں یہ آرڈیننس جاری کیا گیا ہے کمیٹی میں تیسرے رکن کی نامزدگی کا اختیار چیف جسٹس کو دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس آرڈیننس کے بنتے ہی اس پرعمل کرتے ہوئے کمیٹی میں اپنی مرضی سے تیسرے رکن کو نامزد کر دیا ہے۔ اب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو جسٹس منیب اختر تو اس کمیٹی کے پہلے دن سے ہی خلاف تھے۔

انھوں نے فل کورٹ میں بھی اس کمیٹی کے قیام کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ وہ بنچ بنانے میں چیف جسٹس کے اختیار میں کمی کے خلاف تھے۔ لیکن اب جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انھیں کمیٹی سے ہٹایا ہے تو انھوں نے کسی بھی بنچ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی احتجاج کیا ہے۔

بنچ بنانے کے عمل میں مشاورت کی تلاش میں پارلیمان اور حکومت ایک بیلنس کی تلاش میں ہے۔ چیف جسٹس مکمل اختیار حاصل کر لے تو مسائل سامنے آتے ہیں۔ اور چیف جسٹس بالکل بے اختیار ہو جائے تو بھی مسائل سامنے آتے ہیں۔

عدلیہ اس کمیٹی میں بھی بیلنس نہیں بنا سکی۔ عدلیہ کے اندر جو چپقلش ہے وہ اچھے کام کو بھی غلط بنا دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ قانون اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ اس پر عمل کرنے کا طریقہ اچھا یا برا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی مسئلہ ہے۔ کمیٹی اس لیے نہیں بنائی گئی تھی کہ چیف جسٹس کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہ رہ جائے اور نہ اس لیے بھی بنائی گئی تھی کہ صرف چیف جسٹس کا ہی اختیار ہو۔ اس کے درمیان ہی بیلنس ہے جو نظر نہیں آرہا۔