ول ڈیورانٹ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 26 ستمبر 2024
barq@email.com

[email protected]

یہ بات تو ہم ایک مرتبہ پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ اردو زبان کو جتنا زیادہ علمی مال ومتاع یاسر جواد نے دیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور نے دیا ہو، اب تک اردو میں انھوں نے لگ بھگ ایک سو پچاس سے زیادہ تراجم کیے ہیں اوریہ تراجم یونہی انٹ شنٹ کتابوں کے نہیں بلکہ سارے انتہائی علمی کتابوں کے ترجمے ہیں جن میں ہیروڈوس کی ’’تواریخ‘‘ سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ کی وقت کی تاریخ ،کیرن آر مسٹرانگ کی خدا کی تاریخ ، فرشتوں کی تاریخ ، سو عظیم فلسفی ، ادبیات عالم ، عالمی انسائیکلوپیڈیا شامل ہیں، اوراب انھوں نے ’’ول ڈیورانٹ‘‘ (فرانسیسی لہجے میں ول ڈیوران‘‘ کی اس عظیم کتاب کو شروع کیا ہے۔

ول ڈیورانٹ اوراس کی بیوی ائیرئیل کا یہ کارنامہ گیارہ بڑی جلدوں پر مشتمل ہے، نام ہے ’’تہذیب کی کہانی ( دی اسٹوری آف سوئیلائزیشن) جس میں ساری دنیا کی تاریخ کا احاطہ کیاگیا ہے، حجری اوربشری دورسے اب تک اس دنیا کے کونے کونے میں اقوام وانسال پر کیاکیا گزرتی رہی ہے ، وحشت ،بربریت اورتہذیب کے ان منازل میں نسل انسانی نے کیا کیا ہے۔

ان سب کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے حیرت ہوتی ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی انسان تھے یا جن کہ دونوں نے نہ صرف ہزاروں کتابوں کو چھاپا ہے بلکہ دنیا کے اکثر گوشوں میں خود جاکر مشاہدے بھی کیے ہیں اورشواہد اکٹھے کیے ہیں یعنی ’’مکمل علم‘‘ کے ساتھ یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ ’’مکمل علم‘‘ اسے کہتے ہیں جس میں مطالعہ اورمشاہدہ دونوں شامل ہوتے ہیں ، ہندی اصطلاح میں اسے سرتی اورسمرتی کانام دیاگیا، سرتی وہ علم ہے جو آوازکے وسیلے سے کانوں تک پہنچتا ہے اورسمرتی وہ جو آنکھوں سے حاصل ہو، اردو میں ہم اسے مطالعہ اورمشاہدہ کا نام دے سکتے ہیں اور تہذیب کی کہانی ان دونوں علوم کامجموعہ ہے ۔

میں خود (ساتویں جماعت پاس) ان دونوں علمی ذرایع کا دیوانہ ہوں اس لیے ایسی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہوں یہاں تک کہ ہندی لٹریچر کے لیے میں نے پہلے ہندی اورسنسکرت ( رسم الخط) سیکھی پھر مختلف ذرایع سے ویدیں برھما نا پران رامائن اورمھا بھارت حاصل کیں ، پشتونوں کی تاریخ لکھنے کے لیے مجھے ان کی ضرورت تھی ۔

اس حال میں رہ رہ کر جب میں ول ڈیورانٹ کی اس کتاب کے بارے میں سنتا تھا تو دل اسے پڑھنے کے لیے مچل مچل جاتاتھا ، جس کے حوالے دوسری کتابوں میں پڑھنے کو مل جاتے بھی تھے، وہ جو کہتے ہیں کہ بندہ پریشان تو اللہ مہربان۔ اوراللہ کی یہ مہربانی یاسرجواد کی شکل میں ظہورپذیر ہوئی کہ انھوں نے اس بہت بڑے بھاری اوروزن دار ’’پتھر‘‘ کو اٹھانے کا بیڑا اٹھایا ۔

اس عظیم کتاب ’’تہذیب کی کہانی ‘‘ کی پہلی جلد کو محترم یاسر جواد کی خصوصی مہربانی سے پڑھ چکا ہوں جس میں ہمارے مشرق کی تہذیبوں کا احاطہ کیاگیا ہے ، مصر ،عرب، ایران، دجلہ وفرات ،ہندوستان اورچین وجاپان کے سارے پہلو اجاگر کیے ہیں ۔

زیر نظر جلد جو تقریباً لگ بھگ نوسو صفحات پر مشتمل ہے اس میں روم کی تاریخ وتہذیب کااحاطہ کیاگیا ہے ، رومن ایمپائر کو قدیم زمانوں سے لے کر موجودہ زمانے تک زینہ بہ زینہ بیان کیاگیا ہے اور ساتھ ہی مسیحیت کے مختلف ادوار اورپہلو بھی بیان کیے گئے، مختلف معاصر اورہمسایہ تہذیبوں کارومی تہذیب اوررومی تہذیب کا ان پر اثر بھی وضع کیا گیا ہے لیکن میں سب سے زیادہ جناب یاسر جواد کے ’’فن ترجمہ‘‘ سے متاثر ہوا ہوں ۔

میں نے بے شمار لوگوں کے بے شمار ترجمے پڑھے ہیں جن میں اکثر ’’پاژند‘‘ کی کیفیت لیے ہوتے ہیں، پاژند زردشت کی کتاب’’ژند اوولیتا‘‘ کے ایک ترجمے اورتفسیر کا نام ہے جو اپنی اصل سے بھی زیادہ ادق اور مشکل ہوگئی تھی، علامہ اقبال نے اس کا ذکر یوں کیا ہے۔

احکام ترے حق ہیں مگر میرے مفسر

تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پاژند

خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے جس پر بات کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ہم یاسر جواد کے ترجمے کی بات کررہے ہیں جو اتنا آسان عام فہم اور رواں ہے کہ پڑھنے والا عش عش کیے بنا نہیں رہ پاتا بلکہ جن لوگوں نے انگریزی میں یہ کتاب پڑھی ہے میں ان کو بھی مشورہ دوں گا کہ پوری طرح سمجھنے کے لیے یاسر جواد کا ترجمہ ضرورپڑھیں۔

یاسر جواد کبھی کبھی کسی انگریزی لفظ کو اردو کے اپنے ایجاد کردہ لفظ میں اس کمال سے ڈھال لیتے ہیں کہ مزہ آجاتا ہے مثال کے طورپر اس ترجمے کے ذریعے انھوں نے اردو کو نئے نئے الفاظ دیے ہیں یہاں میں صرف ایک لفظ کاذکرکروں گا جو میں نے اس سے پہلے اسے اردو میں بالکل نہیں پڑھا ہے اوروہ لفظ ہے قبیلچہ یا قبیلچے ، قبیلے اورقبائل تو اردو میں عام ہے لیکن قبیلچہ بالکل نیا لفظ ہے ، قبیلے کا اسم تصغیر ہے جیسے کتاب سے کتابچہ ، باغ سے باغیچہ، خوان سے خوانچہ ، تفنگ سے تفنگچہ ( طمانچہ) یہ طریقہ تصغیر فارسی سے اردو میں آیاہے۔

لکھنے والوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کیوں کہ کتابوں کی طباعت اوراشاعت سے تعلق رکھنے والے ’’ادارے‘‘ آج کل ایک پشتو کہاوت کے مطابق بسولا(تیشہ) چلاتے ہیں یعنی سب کچھ اپنی ’’جھولی ‘‘ میں گراتے ہیں ’’آرا‘‘ نہیں چلاتے کہ لکھنے والے کی جھولی میں بھی تھوڑا بہت برادہ گرے ۔ہم خود اس بسولے کاشکارہیں اوریقیناً یاسر جواد ہم سے زیادہ ڈسے ہوئے ہوں گے ۔ لیکن پھر بھی آخر میں سہی ان کو کچھ مہربان ایسے مل گئے جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں مالی تعاون کیا اورکررہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔