غذا میں گھل جانے والے ننھے کیمیائی ذرّات

سید عاصم محمود  جمعرات 26 ستمبر 2024
پلاسٹک کا روزمرہ استعمال صرف نقصان دہ نہیں، جان لیوا بھی ہو سکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

پلاسٹک کا روزمرہ استعمال صرف نقصان دہ نہیں، جان لیوا بھی ہو سکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

یہ 1902ء کی بات ہے جب امریکی سائنس دانوں نے دنیا کا پہلا پلاسٹک ایجاد کیا۔ تب سے پلاسٹک کی سیکڑوں اقسام ایجاد ہو چکیں جنھیں دنیا بھر کے انسان روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔

پانی کی بوتل ہو، موبائل یا برتن، پلاسٹک سے بنی اشیا ہمیں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ پلاسٹک اس لیے مشہور ہوا کہ یہ ایک سستا اور ہلکا میٹریل ہے۔ اس کو بنانا بھی آسان اور کم خرچ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے، پلاسٹک کی چیزیں تیزی سے انسانی معاشروں میں مقبول ہو گئیں۔

خوفناک انکشاف

اب مگر طبی سائنس یہ خوفناک انکشاف کر رہی ہے کہ پلاسٹک کی اشیا انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ وہ انسان کے سبھی جسمانی نظاموں پہ منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ تحقیق و تجربات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ اشیا انسانوں کو کینسر، ذیابیطس اور بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی چیزیں جنھیں پلاسٹکس کہا جاتا ہے، عام طور پہ قدرتی گیس یا پٹرول کی مدد سے بنتی ہیں۔ نیز ان کی تیاری میں ایک دو نہیں ہزارہا مختلف کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ یہ رکازی ایندھن (فوسل فیولز) اور کیمیائی مادے ہی پلاسٹکس کو انسانی صحت کے دشمن بنا ڈالتے ہیں۔

تلف کرنا آسان نہیں

ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پلاسٹکس کی بیشتر اقسام بہت آہستہ آہستہ تلف ہوتی ہیں۔ ان سے ذرّات جھڑ کر ماحول میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جو پلاسٹکس ذرات ایک مائکرومیٹر (micrometer) تک چھوٹے ہوں، انھیں اصطلاح میں ’’مائکروپلاسٹکس‘‘ (microplastics) کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک مائکرومیٹر سے چھوٹے ذرات ’’نینوپلاسٹکس‘‘ (nanoplastic) کہلاتے ہیں۔ یہ مائکروپلاسٹکس اور نینوپلاسٹکس سانس کے ذریعے یا بذریعہ غذا انسان کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ ذرات پھر خون میں شامل ہو کر سر سے لے کر پیر تک، ہر حصہِ جسم میں پھیل جاتے ہیں۔

غذا میں نفوذ

پلاسٹکس کے یہ ذرّات اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ ہوا میں باآسانی اڑتے رہتے ہیں۔ تبھی وہ سانس لیتے انسانوں کے جسم میں سماتے ہیں۔ جبکہ یہ ذرے پانی کاحصّہ بن کر بھی انسانی جسم کو آماج گاہ بناتے ہیں۔ تیسرا طریق یہ ہے کہ کئی ذرے کھیتوں یا باغات کی مٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ تب نشوونما پاتا پودا اپنی جڑوں کے ذریعے انھیں جذب کر لیتا ہے۔ پلاسٹکس ذرات پھر پودے کے تنے اور پتوّں ہی نہیں پھل سبزی میں بھی جا داخل ہوتے ہیں۔ انسان یہ پھل سبزی کھائے تو اس کا جسم پلاسٹک ذرات کی آماج بن جاتا ہے۔

جدید تحقیق

محض پانچ سال پہلے تک ماہرین طب نہیں جانتے تھے کہ پلاسٹکس کے ذرّات انسانی جسم کا حصہ بن کر صحت پہ کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس کے بعد لیبارٹریوں میں اسی اعجوبے پر تحقیق ہونے لگی۔ تحقیق و تجربات سے ہی یہ لرزہ خیز انکشاف ہوا کہ پلاسٹکس ذرّات انسانی جسم کے ہر طبی نظام پہ منفی اثرات ڈالتے اور انسان کو خطرناک امراض کا نشانہ بنا رہے ہیں، گو ان کے طریق واردات کا بالکل درست میکنیزم ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔

سیب اور گاجر دھیان سے کھائیے

اٹلی اور تیونس کے ماہرین طب نے چار سال قبل اپنی تحقیق’’سبزیوں اور پھلوں میں مائکرو و نینو پلاسٹکس‘‘ (Micro- and nano-plastics in edible fruit and vegetables. The first diet risks assessment for the general population ) شائع کی تھی۔ اس نے انکشاف کیا کہ نوے فیصد سبزیوں اور پھلوں میں پلاسٹکس ذرات پائے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ یہ ذرّات سیب میں ملے۔ اس کے بعد سبزیوں میں گاجر میں یہ ذرات پائے گئے۔

نمک میں بھی

دو سال قبل آسٹریلیا کے ماہرین نے یہ تحقیق کی کہ مارکیٹ میں دستیاب نمک پلاسٹکس کے کتنے ذرّات رکھتے ہیں۔ ان کی یہ تحقیق ’’مائکروپلاسٹکس کا غذا میں نفوذ‘‘ (Consuming microplastics? Investigation of commercial salts as a source of microplastics (MPs) in diet)کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے انکشاف ہوا کہ نمک کی تمام اقسام میں ہمالیائی گلابی نمک میں سب سے زیادہ پلاسٹکس ذرے پائے گئے۔ اس کے بعد کالے نمک اور سمندری نمک میں یہ ذرے بڑی تعداد میں ملے۔ محققین نے رپورٹ میں لکھا کہ یہ امر نامعلوم ہے، یہ پلاسٹکس ذرّات انسانی صحت پہ کس قسم کے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اہم جسمانی نظام

ماہرین طب مگر اب رفتہ رفتہ جان رہے ہیں کہ پلاسٹکس ذرّات کیونکر انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ جدید طبی تحقیقات کی رو سے یہ ذرے درج ذیل اہم ترین انسانی جسمانی نظاموں پہ منفی اثرات ڈالتے ہیں:

٭ قلبی و عائی نظام (system cardiovascular) ٭ نظام ہاضمہ ( system digestive)٭ نظام ِ تنفس(system respiratory )٭ افرازی نظام ( system endocrine)٭ نظام ِ اعصاب ( system nervous)٭ نظام تولید وتناسل( system reproductive)٭ مامون نظام( system immune)

گویا پلاسٹکس ذرّات کی وجہ سے درج بالا انسانی جسمانی نظاموں میں کوئی نہ کوئی گڑبڑ جنم لے رہی ہے۔ ماہرین کی تحقیق وتجربات کا اگلا موضوع اسی گڑبڑ کو دریافت کرنا ہے۔ تب یہ صحیح تصویر سامنے آئے گی کہ پلاسٹکس ذرّات کیونکر انسان کو بیمار کر رہے ہیں اور اسے مختلف امراض میں مبتلا کرتے ہیں۔

حوصلہ شکنی کی تحریک

جدید تحقیق کے باعث ہی اب یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ انسانی روزمرہ زندگی سے پلاسٹک کی اشیا کو بے دخل کر دیا جائے۔ یا کم ازکم ان کا استمعال بہت محدود ہو جائے۔ یورپی ممالک میں شعبہ پیکجنگ میں پلاسٹک کے استعمال کی سرکاری طور پہ حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ اسی طرح عوام الناس کو کہا جا رہا ہے کہ وہ پلاسٹک سے بنے برتن استعمال نہ کریں۔ وجہ یہی کہ پلاسٹکس اشیا مسلسل ایسے ذرّات خارج کرتی ہیں جو ننھے منے ہونے کی بنا پر ہمیں دکھائی نہیں دیتے … مگر انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ٹی بیگس میں مقدار

مثال کے طور پہ پلاسٹک سے بنے ٹی بیگس کو لیجیے۔ کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تجربہ کر کے دریافت کیا کہ جب ایک پلاسٹک ٹی بیگ کو پانی میں ابالا جائے تو وہ ’’گیارہ ارب چھ کروڑ‘‘ مائکروپلاسٹک ذرے اور ’’تین ارب دس کروڑ ‘‘نینوپلاسٹک ذرات پانی میں شامل کرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ انسانی جسم میں روزانہ پلاسٹک کے کھربوںذرے داخل ہو رہے ہیں کیونکہ اس میٹریل سے بنی چیزیں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں۔ درحقیقت وہ روزمرہ انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے، وہ اب ہر غذا میں شامل ہو رہے ہیں۔

چاولوں میں پلاسٹکس

پچھلے سال آسٹریلیا کی کوئزلینڈ یونیورسٹی کے محققوں نے یہ جاننے کی خاطر تحقیق کی کہ چاول میں پلاسٹکس ذرّات کتنی مقدار میں ملتے ہیں۔ یاد رہے، چاول دنیا میں اربوں انسانوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔ اس تحقیق سے بھی حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ انکشاف ہوا کہ ایک سو گرام (آدھا کپ )چاول کھانے سے تین چار ملی گرام پلاسٹکس ذرّات انسان کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ فوری پکنے والے چاولوں (انسٹنٹ رائس) میں یہ مقدار تیرہ ملی گرام تک پائی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاول پکانے سے قبل انھیں اچھی طرح پانی سے دھو لیں۔ یوں چالیس فیصد تک پلاسٹکس ذرّات ختم ہو جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں خواتین چاول پکانے سے پہلے انھیں پانی سے دھوتی ہیں۔ یوں خاصے مضر صحت پلاسٹکس ذرّات اور دیگر آلودگیاں صاف ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پہ آرسینک جو چاولوں میں خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے۔

پانی کی پلاسٹک بوتلیں

پلاسٹکس ذرّات پانی کی بوتلوں کو بھی اپنا ٹھکانہ بنا چکے جو دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہیں۔ جنوری 2024ء میں امریکا کے سائنسی رسالے ، پروسیڈنگز ( Proceedings of the National Academy of Sciences) میں ایک تحقیق شائع ہوئی۔ پلاسٹک بوتلوں میں موجود پانی میں نینوپلاسٹکس کی مقدار جاننے کی خاطر یہ تحقیق (Rapid single-particle chemical imaging of nanoplastics by SRS microscopy ) امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے انجام دی۔ اس سے انکشاف ہوا کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں موجود ہر ایک لیٹر پانی میں اوسطاً پلاسٹکس کے ’’دو لاکھ چالیس ہزار ‘‘ذرّات پائے جاتے ہیں۔ ان میں نوے فیصد ذرّات نینوپلاسٹکس اور دس فیصد مائکروپلاسٹکس کے تھے۔

ماہرین طب کی نگاہ میں نینوپلاسٹکس پلاسٹک میٹریل کی سب سے زیادہ خطرناک قسم ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی بال سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے کہ خردبین سے بھی بہ مشکل دکھائی دیتے ہیں۔ ننھے منے ہونے کی وجہ سے یہ انسانی اعضا ، بافتوں حتی کہ خلیوں کے اندر گھس جاتے ہیں۔ وہاں پھر مضر صحت کیمیکل خارج کر کے وہ خلیے کا نظام اتھل پتھل کر ڈالتے ہیں۔ خلیوں کی خرابی سے انسان بتدریج کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

سولہ ہزار کیمیکل

پلاسٹک اشیا کی تیاری میں رکازی ایندھن ہی نہیں مختلف کیمیائی مادے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پچھلے سال ناروے اور سوئٹزرلینڈ کے محققوں نے ایک خصوصی منصوبہ ’’پلاسٹ چیم پروجیکٹ‘‘( Project PlastChem) شروع کیا تھا۔ اس منصوبے کی مدد سے محقق جاننا چاہتے تھے کہ پلاسٹک اشیا کی تیاری میں کتنے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ مئی 2024ء میں یہ تحقیقی منصوبہ اختتام کو پہنچا۔ منصوبے سے معلوم ہوا کہ پلاسٹک اشیا کی تیاری میں ’’سولہ ہزار ‘‘مختلف کیمیائی مادے استعمال ہوتے ہیں۔ خاص بات یہ کہ ماہرین نے یہ اہم بات بھی دریافت کی, ان سولہ ہزار میں سے ’’چار ہزار دو سو‘‘ کیمیکل انسانی صحت کے لیے مضر تصّور کیے جاتے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی طور انسان کی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دس ہزار کیمیائی مادے

اسی تحقیق سے یہ بھی اہم انکشاف ہوا کہ پلاسٹک اشیا کی تیاری میں مستعمل دس ہزار کیمیکل ایسے ہیں جن کی بابت ماہرین طب زیادہ نہیں جانتے۔ معنی یہ کہ انھیں علم ہی نہیں کہ انسان کے جسم میں داخل ہو کر وہ کیا  غل مچاتے کرتے ہیں؟کیا اسے نقصان پہنچاتے ہیں یا بول و بزار کے راستے خارج ہو جاتے ہیں؟ اب ان کے مضر اثرات جاننے کی غرض سے تحقیق وتجربات جاری ہیں۔ بعض کیمیائی مادوں کے مضر صحت اثرات البتہ طبی ماہرین خوب جانتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ’’فتھالیٹس (Phthalates) جو فرش پہ بچھائے جانے والی پلاسٹکس اشیا میں استعمال ہوتے ہیں تاکہ وہ پتلی اور لچکدار ہو جائیں۔ یہ کیمیکل انسانی تولیدی نظام پہ مضر اثرات ڈال کر مرد یا عورت کو بانجھ بنا دیتے ہیں۔حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ اگر گھر کی فضا میں فتھالیٹس کے ذرّات پائے جائیں تو پلنے بڑھنے والے نوزائیدہ بچے دمے کی بیماری کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ پلاسٹکس کی تیاری میں استعمال ہونے والے سبھی کیمیکل انسانی صحت کو کوئی نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں، ایسے نقصانات جن سے ابھی طبی ماہرین ناواقف ہیں۔ مثلاً بسفینول (Bisphenols) جو انسان کی جسم میں ہارمون خارج کرنے کا نظام خراب کرتے ہیں۔ پرفلوروالکائل (perfluoroalkyl) اور پولی فلوروالکائل (polyfluoroalkyl) نامی کیمیکل کے ذرّات تو انسان کو کینسر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ نیز انسان کا مامون یا مدافعتی نظام بھی کمزور کرتے ہیں۔

ایک بہت بڑا مغالطہ

عوام الناس میں ایک بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی اشیا کے ذرّات نہیں جھڑتے۔ اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک سے بنی ہر شے سے دوران استعمال ذرّات جھڑتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ سوچنا غلط ہے کہ پلاسٹک کی چیزیں محفوظ ہیں اور ان سے ذرّات خارج نہیں ہوتے۔ اس لیے ماہرین اب سبھی لوگوں کو مشور دے رہے ہیں کہ وہ پلاسٹک کی بنی اشیا کم سے کم استعمال کریں۔ وجہ یہ ہے کہ طبی سائنس داں اب تک نہیں جان پائے کہ پلاسٹک کے ذرّات یعنی مائکروپلاسٹکس اور نینوپلاسٹکس انسان کے خلیوں، غدود، بافتوں، شریانوں اور اعضا میں داخل ہو کر کس قسم کے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ کیا وہ مضر صحت ہیں یا نہیں؟ اور کیا ان کی وجہ سے ایسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن کا پہلے وجود نہیں تھا۔

دنیا کے سبھی ممالک میں یہ عجوبہ جنم لے چکا کہ ایک انسان اچھا بھلا صحت مند ہوتا ہے۔ پھر اچانک خبر آتی ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ انسان یہ سن کر حیران پریشان ہو جاتا ہے۔ اکثراوقات دل کا دورہ موت کا سبب بنتا ہے۔ اور جدید طبی سائنس نے دریافت کیا ہے کہ پلاسٹکس اشیا کے ذرّات انسان کو دل کی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ پلاسٹکس کے ذرّات انسانوں کو عجیب وغریب امراض میں گرفتار کر رہے ہوں۔ چونکہ ان امراض کا علاج نہیں ہو پاتا، اس لیے انسان ایک دن اچانک ان کی وجہ سے چل بستا ہے۔

سدباب کیا ہو؟

پلاسٹکس کے ذرات جو منفی اور مضر صحت اثرات رکھتے ہیں، ان سے بچاؤ کا آسان حل یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں پلاسٹک سے بنی اشیا کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ ان کی جگہ شیشے کی بنی اشیا استعمال کی جائیں۔ اسی طرح چیزوں کی پیکنگ میں کاغذ اور گتے کو رواج دینا چاہیے۔ پولی تھین پلاسٹک سے بنی تھیلیوں نے تو دنیا بھر میں بہت زیادہ آلودگی پھیلا دی ہے۔ آنے والی نسلوں کو پلاسٹکس کے مضر صحت نقصانات سے بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ رکازی ایندھن اور کیمیائی مادوں سے بنی ان اشیا کا استعمال ختم نہیں تو زیادہ سے زیادہ محدود ضرور کر دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔