
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عدم اعتماد کے بعد ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں ان کے طے کردہ معاہدے پر عمل کرنا پڑا، وہ اتنا ڈیمج تھا کہ ملک کو دوبارہ سہارا دینے کیلیے اسی وقت اندازہ تھا کہ ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ آئی ایم ایف اور انٹرنیشنل ایجنسیوں کا حکومت کی سمت اور وزیراعظم کے فیصلوں پر اعتماد کا اظہار ہے،آئی ایم ایف فنانشل سرکلز میں ایک سند کا درجہ رکھتا ہے، سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ تلخیاں ہر جگہ ہی ہیں اور روز باتوں سے ہم تلخیاں بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ بڑی تصویر توکوئی دیکھ ہی نہیں رہا، حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے سیاسی اکابرین کے سارے اقدامات صرف یہی ہیں کہ آج کا دن تو نکالیں، یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے، پنجاب میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اگلے چھ مہینے میں الیکشن ہوں تو (ن) لیگ کا ٹکٹ ہی کوئی نہیں لے گا، اٹک سے لاہور تک (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہے کون اس خلا کو پْر کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد اور فلانے ہیں اور یہ کہتے ہیں آپ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہیں اور آپ کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے یہ ایک سیاسی بیان بازی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ جس قسم کی سرگرمی عمران خان چاہتے ہیں اس کے لیے تنظیم چاہیے اور تنظیم ابھی ہے نہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔