میں نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کی

اقوامِ متحدہ اب اقوامِ غیر متحدہ ہوچکی ہے، بس اس کا شیرازہ بکھرنے کی دیر ہے


September 26, 2024
موجودہ حالات میں اقوامِ متحدہ ایک مردہ گھوڑے کا روپ دھار چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج کل اقوام متحدہ کا اجلاس ہورہا ہے جس میں مختلف سربراہان مملکت خطاب کررہے ہیں۔ کل رات میں نے خواب میں دیکھا کہ دیگر سربراہان مملکت کی طرح مجھے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ دعوت دینے والے سے میں نے کہا کہ میں تو نہ سکندر ہوں اور نہ سلطان اور نہ ہی کہیں کا راجہ، تو پھر میری یہ عزت کیوں؟ میرے پاس تو آپ کا کوئی کام بھی نہیں پھنسا ہوا۔


اس پر انھوں نے کہا کہ آپ شانتی نگر کے تو راجہ ہیں اور دنیا بھر میں خوامخواہ امن کا خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں۔ تو بس اب آپ آئیے اور تقریر کیجیے۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ خود چاہ رہے ہیں کہ ''آ بیل مجھے مار'' حالانکہ موجودہ دور میں تو یہ محاورہ بھی بدل گیا ہے کہ ''جا بیل اسے مار'' تو ان حالات میں بیل بننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور پھر میں نے فی البدیہہ درج ذیل تقریر کی۔ اب آپ تقریر پڑھیے۔


لیگ آف نیشن سے اقوامِ متحدہ تک کا سفر اس امید پر کیا گیا تھا کہ یہ ادارہ دنیا کے تنازعات کو حل کرنے میں اپنا کردار انصاف کے ساتھ ادا کرے گا، دنیا کو ایک پُرامن جگہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا، لیکن کچھ ادارے اپنے آغاز یا بنیاد میں ہی ایسا سقم یا بگاڑ لے کر وجود میں آتے ہیں جس کا انجام خودکشی یا اپنی موت آپ مرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں اقوامِ متحدہ اس کی مثال ہے جو کہ اب ایک مردہ گھوڑے کا روپ دھار چکی ہے اور اب اس کے انجام کا تعین وقت نے کرنا ہے کہ کب، کیسے اور کس کے ہاتھوں یہ ادارہ دفن ہوگا، کیونکہ یہ اپنی افادیت تو زمانہ پہلے ہی کھو چکا ہے۔


آغاز کے سقم سے کیا مراد ہے؟ اقوامِ متحدہ نے اپنے چارٹر میں کچھ ممالک کو ویٹو کی طاقت دے کر شروع میں ہی اس بات کو تسلیم کر کے اپنی بنیاد میں ڈال دیا تھا کہ ان چند ممالک میں سے کسی ایک کی بھی ''ہاں'' یا ''نہ'' کی طاقت کے سامنے دیگر تمام ممالک کی اجتماعی ہاں یا نہ ''ہیچ'' ہے۔ ہرچند کہ یہ جمہوری روایات کے خلاف ہے لیکن اس کی اس ادارے کے سامنے کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے یہ سارے قوائد و ضوابط بنانے میں ان ممالک کی اکثریت ہے جو خود کو جمہوری کہتے ہیں اور ان کے اپنے یہاں تمام فیصلے جمہوری اقدار کے مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن جب امنِ عامہ اور عالمی مسائل ہوں تو اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کےلیے کسی بھی اصول کی پامالی پر سب متفق ہوجاتے ہیں اور جمہور اور جمہوریت کی ماں، کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ عالمی منافقت کی شاید اس سے بڑی کوئی مثال نہ ہو۔


جہاں آج اقوامِ متحدہ کا دفتر ہے، اس علاقے کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا وہاں کسی زمانے میں مذبح خانے اور قصابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں، تو آپ کو اقوامِ متحدہ کا موجودہ کردار سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ ابھی ہم راکا فیلر کے 7/8 ملین ڈالر کے عطیہ اور وہ عوامل جس کے تحت اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر کو امریکا میں بسایا گیا، کا فی الوقت ذکر نہیں کرتے۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ تمام عالمی ادارے مخصوص قوتوں کی پوری دنیا پر اجارہ داری کےلیے قائم کیے گئے ہیں اور قائم کیے جاتے رہیں گے۔ اسے آپ دنیا کی حماقت ہی سمجھیے کہ ان اداروں سے انصاف اور عدل کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی اسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔


آپ آج تک دیکھ لیجیے کہ اقوامِ متحدہ نے کون سا عالمی تنازعہ حل کرایا ہے۔ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا، مشرقی تیمور، یہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ ہاں بڑے اور طاقتور ممالک جو چاہے، جب چاہے اپنی مرضی کی قرارداد حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ دو چھوٹے ملکوں کا ہو تو مسئلہ غائب ہوجاتا ہے اور اگر مسئلہ ایک چھوٹے اور بڑے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہوجاتا ہے اور اگر مسئلہ دو بڑے ممالک کے درمیان ہوں تو اقوامِ متحدہ غائب ہوجاتا ہے۔


اب وقت آگیا ہے کہ تمام چھوٹے ممالک کو اپنا دفاع خود کرنا ہے، کیونکہ ہم نے دیکھ لیا کہ اقوامِ متحدہ کے ترجمان کے منہ سے اسرائیل کی مذمت میں دو لفظ تک نہیں نکلے اور ہم ان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ یہ فلسطین کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، یہ امید سوائے دیوانگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقوامِ متحدہ اب اقوامِ غیر متحدہ ہوچکی ہے، بس اس کا شیرازہ بکھرنے کی دیر ہے۔ انتظار کیجیے اور آپ دیکھیے گا کہ یہ کام بھی اس کے مستقل ارکان بالخصوص ویٹو کی طاقت رکھنے والے کسی رکن یا ارکان کے ہاتھوں ہوگا۔


اب اس کے بعد آنکھ بھی نہیں کھلی کہ میں آپ کو بتا سکوں میں واپس بھی آیا یا وہیں رکھ لیا گیا۔ مجھے جیسے ہی اپنی کوئی اطلاع ملے گی میں آپ تمام دوستوں کو فوراً مطلع کروں گا، تب تک کےلیے اجازت دیجیے۔ میرا اللہ ہی حافظ ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں