بالی ووڈ میں 1984 کا موضوع
فن ایسے انداز بیاں کو کہاجاتا ہے،جس میں فکری جہت کو ایک خاص پہلو سے پیش کیا جائے
فن ایسے انداز بیاں کو کہاجاتا ہے،جس میں فکری جہت کو ایک خاص پہلو سے پیش کیا جائے ۔فن اور فنکار کے درمیان دو باریک لکیریںموجود ہوتی ہیں،جن میں سے اُس کو کسی ایک لکیر کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، یہ لکیر اس کے مقدر کو بدل سکتی ہے یا پھر وہ لکیر کا فقیر بن کے رہ جاتاہے،یہ اُس پر منحصر ہے۔کسی بھی فن سے وابستہ فنکاروں کی اکثریت جذباتی مزاج کی حامل ہوتی ہے۔
یہ لوگ مادی فوائد سے زیادہ باطنی ثمر کے طالب ہوتے ہیں،مگراب فنکاروں کی ایک اکثریت ایسی بھی ہے،جن کا مطمع نظر صرف اورصرف مادی فائدے حاصل کرنا ہے۔جس میں موجودہ دور کے فنکاروں کی اکثریت پیش پیش ہے۔ کسی فنکار کے لیے مادی فائدے کو حاصل کرنا بری بات نہیں،مگر مادیت پرستی کو ہی اپنی تخلیق کا ہدف بنالینا منفی پہلو ہے،جو کسی فنکار کو زیب نہیں دیتا۔ اس سوچ نے فن اور فنکار کے درمیان کئی تنازعات کو بھی جنم دیا۔
دنیا بھر میں فنکار اپنی مخصوص سوچ کے اظہار کے لیے فن کا سہارا لیتے ہیں۔کوئی ناول لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتاہے،کسی کے جذبات کی عکاسی اس کی بنائی ہوئی فلموں میں ہوتی ہے۔کسی کے احساسات کا پیامبر اس کے لکھے ہوئے گیت ہوتے ہیں۔کسی کے دل کا خون کینوس پر رنگوں کے آنسوئوں سے لبریز ہوتا ہے اورکوئی تحقیق کے نام پر تحقیر کو موضوع خاص بنا لیتا ہے۔اس انداز فکر کے ساتھ صدیوں سے سچ کی آنکھ مچولی جھوٹ کے ساتھ جاری ہے ۔ خاص طور پر ایسی تخلیقات ،جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو،ان کو پروپیگنڈہ تخلیقات کے زمرے میں رکھا جاتا ہے،مگر کچھ مواقع پر ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے مظلوم نے انھی فنون کے ذریعے اپنے درد کو آواز دی ۔ ایسے ہی ایک درد و الم کی داستان کاآج یہاں تذکرہ ہے۔
بھارت میں فلمی صنعت کا ''پروپیگنڈہ''صنعت کے طورپر بھی کافی استعمال رہا ہے۔پاکستان کے خلاف بننے والی فلمیں اس بات کا ثبوت ہیں،لیکن آج اس کالم میں کچھ ایسی فلموں کا تذکرہ کررہاہوں،جن کے ذریعے بھارت میں ظلم کے خلاف فلم کے میڈیم کو استعمال کیاگیا۔یہ فلمیں1984کو بھارت میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام کے تناظر میں بنائی گئی ہیں۔اس موضوع کا پس منظر کچھ یوں ہے ،بھارت میںسکھوں کے کچھ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف اُس وقت کی وزیراعظم ''اندراگاندھی''نے بھارتی فوج کو سکھوں کے مقدس مرکز''گولڈن ٹیمپل''پر حملے کا حکم جاری کیا،جس کے ردعمل کے طورپر اسی کے دو سکھ گارڈز نے انھیں گولی ماردی۔
اس واقعہ کے جواب میں بھارت میں ہزاروں سکھ قتل کردیے گئے اور لاکھوں نے اس کاخمیازہ مختلف صورتوں میں بھگتا۔ یہ ایک حساس موضوع ہے،جس پر بھارت میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔بالی ووڈ میں اس واقعے کے بعد اس نوعیت کی بنائی گئی فلموں کی تعداد کم ہے،مگر یہ باقاعدگی سے بن رہی ہیں۔اس بات سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سکھوں کے زخم بھرے نہیں ،کبھی وہ کسی ناول توکبھی کسی فلم کی شکل میں دوبارہ ہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔اس موضوع پر بنائی گئی اکثر فلموں کو بھارت میں نمائش کی اجازت نہیں ملی،جن فلموں کو اجازت کا پروانہ ملا،ان پر سنسر کی تیز دھار لگائی گئی۔ کچھ فلمیں ایسی بھی ہیں ،جن کو بنایاگیا،مگر ان کی نمائش بھارت میں ہونے کی بجائے بین الاقوامی فلمی میلوں میں ہوئی۔
جون 2014کے مہینے میں ریلیز ہونے والی فلم ''1984'' ایک تازہ ترین کوشش ہے،جس میں بھارت میں مقیم سکھوں کی زندگی کے بدترین سال کی عکاسی کی گئی ہے۔اس فلم کے ہدایت کارکا نام''انو راگ سنگھ''ہے،یہ فلم کی کہانی کے شریک مصنف بھی ہیں۔معروف اداکارہ ''کرن کھیر'' نے اس فلم میں یادگار اداکاری کامظاہرہ کیا ہے۔باکس آفس پر یہ فلم ہٹ ہے اورفلمی حلقوں میں اس کو پسند کیا گیا ہے۔ یہ فلم پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے۔یہ فلم سکھوں کی بغاوت کے بعد بھارتی پنجاب پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتی ہے۔
مئی 2014میں ریلیز ہونے والی فلم کا نام ''47 ٹو 84'' ہے۔ یہ فلم ایک ایسے انسان کی حقیقی کہانی ہے،جو پہلے ہجرت کے دکھ سہتا ہے اورجب اس کی زندگی عام ڈگر پر آتی ہے ،تو اس کے سامنے 80کی دہائی میں سکھوں کے قتل عام کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں،جن کے اثرات اس سمیت کئی بے گناہ سکھوں کو بھگتنے پڑتے ہیں،یہ فلم اسی درد کی تصویر ہے۔
ستمبر2013میں اٹلی میں منعقد ہونے والے سالانہ فلمی میلے ''70وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول''میں ایک فلم ''کُش'' دکھائی گئی جس میں ایک نوعمر لڑکا،جس کانام ''کُش''ہے،اس کے 1984میں ہونیوالے فسادات کی تلخ یادوں کو اس فلم کا موضوع بنایا گیا ہے۔یہ فلم عام نمائش کے لیے بھارت میں نہیں دکھائی گئی۔اس فلم میں متعلقہ موضوع پر بہت کھل کر بات کی گئی ہے۔ یہ فلم آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی تھی۔
2013میں ہی مئی کے مہینے میں ایک اور فلم ''ساڈا حق'' بھی ریلیز ہوئی جس کا موضوع یہی تھا مگر اس کو ذرا مختلف انداز میں فلمایا گیا ہے۔ ایک کینیڈین سکھ بھارت کا تعلیمی دورہ کرتا ہے اور یہاں اس کی ملاقات ایک ایسے سکھ سے ہوتی ہے،جو قیدی ہے ،وہ اس کو بھارتی معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کی داستان سناتا ہے۔
2005میں ریلیز ہونے والی فلم''اَمو''سونالی بوس کا لکھاہوا ناول تھا،جس پر اسی نام سے فلم بنائی گئی۔اس فلم کا پریمئر جرمنی میں ''برلن فلم فیسٹیول''میں ہوا تھا اور اس کے علاوہ یہ آسڑیلیا میں منعقد ہونے والے ''ٹورنٹو فلم فیسٹیول''میں بھی دکھائی گئی۔اس فلم میں بالی ووڈ کی مقبول اداکارہ''کنکناسین شرما''نے مرکزی کردارنبھایا۔اس میں بھی کرداروں کی بُنت میں کچھ ایسا تذکرہ ہے،جس میں سکھوں کے قتل عام کا تذکرہ ملتا ہے۔2004میں فلم''ملایالم افسانے''کو بنیاد بنا کرلکھی گئی،جس میں ایک سکھ عورت اور اس کاجوان بیٹا دکھایا ہے جو1984میں بھارت میں ہونے والے فسادات میں کس طرح اپنی جان بچاتے ہیں۔
2003میں فلم''ہوائیں''بنائی گئی۔اس فلم کے کرتا دھرتا معروف بھارتی پنجابی گلوکار''بابومان''تھے،جنہوں نے اس حساس موضوع کو فلمایا۔اس میں موجودہ دور کی مقبول مگر اس وقت ایک کم شہرت یافتہ اداکارہ''ماہی گل''نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کامظاہرہ کیا۔یہ فلم بھی انھی فسادات کے تناظر میں حقیقی واقعات سے متاثر ہوکر بنائی گئی،اس میں دکھایاگیا کہ کس طرح ایک نوجوان ،جو موسیقی کا رسیا تھا،وہ اس سانحے کے بعد ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد کے طورپرسامنے آیا۔یہ فلم اپنے اسی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہے۔
1996میں گلزار کی فلم''ماچس''بھی اس موضوع کے اردگرد گھومتی ہے۔گلزار نے اس فلم کے گانے اور کہانی انتہائی شاندار لکھی،جس کی وجہ سے یہ فلم بے حد مقبول ہوئی۔تبو جیسی منجھی ہوئی اداکارہ نے اس میں کام کیا۔گلزار کے لکھے ہوئے گیت''چپہ چپہ چرخا چلے''اور''چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں''ہمیشہ یاد رہ جانے والے گیت ہیں۔بالی ووڈ میں سانحہ 1984کے حوالے سے اداکار امیتابھ کا ایک متنازعہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے،جس میں انھوں نے بھارت کے قومی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سکھوں کے قتل عام کو درست قرارد یا۔
''سانحہ 1984''کے موضوع پر بننے والی یہ فلمیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سکھوں کو یہ حادثہ بھولا نہیں ،وہ اپنے جذبات کا اظہار فلم کے میڈیم کے ذریعے کرتے رہتے ہیں اور اس میں سکھ فنکار پیش پیش ہیں۔ایک ہی موضوع پر اتنی فلمیں بننا اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ زخموں کو بھرنے میں ابھی مزید وقت لگے گا،سکھوں کی جوان ہوتی نئی نسل اس میڈیم کے ذریعے اپنی تاریخ کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔یہ پہلو بھی بالی ووڈ کا ایک اہم پہلو ہے، جس پر کبھی بھارتی فلمی حلقے بات نہیں کرتے۔بالی ووڈ صرف ''سنگھ اِز کنگ''جیسی فلموں کی تشہیر میں دلچسپی لیتاہے۔
یہ لوگ مادی فوائد سے زیادہ باطنی ثمر کے طالب ہوتے ہیں،مگراب فنکاروں کی ایک اکثریت ایسی بھی ہے،جن کا مطمع نظر صرف اورصرف مادی فائدے حاصل کرنا ہے۔جس میں موجودہ دور کے فنکاروں کی اکثریت پیش پیش ہے۔ کسی فنکار کے لیے مادی فائدے کو حاصل کرنا بری بات نہیں،مگر مادیت پرستی کو ہی اپنی تخلیق کا ہدف بنالینا منفی پہلو ہے،جو کسی فنکار کو زیب نہیں دیتا۔ اس سوچ نے فن اور فنکار کے درمیان کئی تنازعات کو بھی جنم دیا۔
دنیا بھر میں فنکار اپنی مخصوص سوچ کے اظہار کے لیے فن کا سہارا لیتے ہیں۔کوئی ناول لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتاہے،کسی کے جذبات کی عکاسی اس کی بنائی ہوئی فلموں میں ہوتی ہے۔کسی کے احساسات کا پیامبر اس کے لکھے ہوئے گیت ہوتے ہیں۔کسی کے دل کا خون کینوس پر رنگوں کے آنسوئوں سے لبریز ہوتا ہے اورکوئی تحقیق کے نام پر تحقیر کو موضوع خاص بنا لیتا ہے۔اس انداز فکر کے ساتھ صدیوں سے سچ کی آنکھ مچولی جھوٹ کے ساتھ جاری ہے ۔ خاص طور پر ایسی تخلیقات ،جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو،ان کو پروپیگنڈہ تخلیقات کے زمرے میں رکھا جاتا ہے،مگر کچھ مواقع پر ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے مظلوم نے انھی فنون کے ذریعے اپنے درد کو آواز دی ۔ ایسے ہی ایک درد و الم کی داستان کاآج یہاں تذکرہ ہے۔
بھارت میں فلمی صنعت کا ''پروپیگنڈہ''صنعت کے طورپر بھی کافی استعمال رہا ہے۔پاکستان کے خلاف بننے والی فلمیں اس بات کا ثبوت ہیں،لیکن آج اس کالم میں کچھ ایسی فلموں کا تذکرہ کررہاہوں،جن کے ذریعے بھارت میں ظلم کے خلاف فلم کے میڈیم کو استعمال کیاگیا۔یہ فلمیں1984کو بھارت میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام کے تناظر میں بنائی گئی ہیں۔اس موضوع کا پس منظر کچھ یوں ہے ،بھارت میںسکھوں کے کچھ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف اُس وقت کی وزیراعظم ''اندراگاندھی''نے بھارتی فوج کو سکھوں کے مقدس مرکز''گولڈن ٹیمپل''پر حملے کا حکم جاری کیا،جس کے ردعمل کے طورپر اسی کے دو سکھ گارڈز نے انھیں گولی ماردی۔
اس واقعہ کے جواب میں بھارت میں ہزاروں سکھ قتل کردیے گئے اور لاکھوں نے اس کاخمیازہ مختلف صورتوں میں بھگتا۔ یہ ایک حساس موضوع ہے،جس پر بھارت میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔بالی ووڈ میں اس واقعے کے بعد اس نوعیت کی بنائی گئی فلموں کی تعداد کم ہے،مگر یہ باقاعدگی سے بن رہی ہیں۔اس بات سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سکھوں کے زخم بھرے نہیں ،کبھی وہ کسی ناول توکبھی کسی فلم کی شکل میں دوبارہ ہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔اس موضوع پر بنائی گئی اکثر فلموں کو بھارت میں نمائش کی اجازت نہیں ملی،جن فلموں کو اجازت کا پروانہ ملا،ان پر سنسر کی تیز دھار لگائی گئی۔ کچھ فلمیں ایسی بھی ہیں ،جن کو بنایاگیا،مگر ان کی نمائش بھارت میں ہونے کی بجائے بین الاقوامی فلمی میلوں میں ہوئی۔
جون 2014کے مہینے میں ریلیز ہونے والی فلم ''1984'' ایک تازہ ترین کوشش ہے،جس میں بھارت میں مقیم سکھوں کی زندگی کے بدترین سال کی عکاسی کی گئی ہے۔اس فلم کے ہدایت کارکا نام''انو راگ سنگھ''ہے،یہ فلم کی کہانی کے شریک مصنف بھی ہیں۔معروف اداکارہ ''کرن کھیر'' نے اس فلم میں یادگار اداکاری کامظاہرہ کیا ہے۔باکس آفس پر یہ فلم ہٹ ہے اورفلمی حلقوں میں اس کو پسند کیا گیا ہے۔ یہ فلم پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے۔یہ فلم سکھوں کی بغاوت کے بعد بھارتی پنجاب پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتی ہے۔
مئی 2014میں ریلیز ہونے والی فلم کا نام ''47 ٹو 84'' ہے۔ یہ فلم ایک ایسے انسان کی حقیقی کہانی ہے،جو پہلے ہجرت کے دکھ سہتا ہے اورجب اس کی زندگی عام ڈگر پر آتی ہے ،تو اس کے سامنے 80کی دہائی میں سکھوں کے قتل عام کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں،جن کے اثرات اس سمیت کئی بے گناہ سکھوں کو بھگتنے پڑتے ہیں،یہ فلم اسی درد کی تصویر ہے۔
ستمبر2013میں اٹلی میں منعقد ہونے والے سالانہ فلمی میلے ''70وینس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول''میں ایک فلم ''کُش'' دکھائی گئی جس میں ایک نوعمر لڑکا،جس کانام ''کُش''ہے،اس کے 1984میں ہونیوالے فسادات کی تلخ یادوں کو اس فلم کا موضوع بنایا گیا ہے۔یہ فلم عام نمائش کے لیے بھارت میں نہیں دکھائی گئی۔اس فلم میں متعلقہ موضوع پر بہت کھل کر بات کی گئی ہے۔ یہ فلم آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی تھی۔
2013میں ہی مئی کے مہینے میں ایک اور فلم ''ساڈا حق'' بھی ریلیز ہوئی جس کا موضوع یہی تھا مگر اس کو ذرا مختلف انداز میں فلمایا گیا ہے۔ ایک کینیڈین سکھ بھارت کا تعلیمی دورہ کرتا ہے اور یہاں اس کی ملاقات ایک ایسے سکھ سے ہوتی ہے،جو قیدی ہے ،وہ اس کو بھارتی معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کی داستان سناتا ہے۔
2005میں ریلیز ہونے والی فلم''اَمو''سونالی بوس کا لکھاہوا ناول تھا،جس پر اسی نام سے فلم بنائی گئی۔اس فلم کا پریمئر جرمنی میں ''برلن فلم فیسٹیول''میں ہوا تھا اور اس کے علاوہ یہ آسڑیلیا میں منعقد ہونے والے ''ٹورنٹو فلم فیسٹیول''میں بھی دکھائی گئی۔اس فلم میں بالی ووڈ کی مقبول اداکارہ''کنکناسین شرما''نے مرکزی کردارنبھایا۔اس میں بھی کرداروں کی بُنت میں کچھ ایسا تذکرہ ہے،جس میں سکھوں کے قتل عام کا تذکرہ ملتا ہے۔2004میں فلم''ملایالم افسانے''کو بنیاد بنا کرلکھی گئی،جس میں ایک سکھ عورت اور اس کاجوان بیٹا دکھایا ہے جو1984میں بھارت میں ہونے والے فسادات میں کس طرح اپنی جان بچاتے ہیں۔
2003میں فلم''ہوائیں''بنائی گئی۔اس فلم کے کرتا دھرتا معروف بھارتی پنجابی گلوکار''بابومان''تھے،جنہوں نے اس حساس موضوع کو فلمایا۔اس میں موجودہ دور کی مقبول مگر اس وقت ایک کم شہرت یافتہ اداکارہ''ماہی گل''نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کامظاہرہ کیا۔یہ فلم بھی انھی فسادات کے تناظر میں حقیقی واقعات سے متاثر ہوکر بنائی گئی،اس میں دکھایاگیا کہ کس طرح ایک نوجوان ،جو موسیقی کا رسیا تھا،وہ اس سانحے کے بعد ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد کے طورپرسامنے آیا۔یہ فلم اپنے اسی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہے۔
1996میں گلزار کی فلم''ماچس''بھی اس موضوع کے اردگرد گھومتی ہے۔گلزار نے اس فلم کے گانے اور کہانی انتہائی شاندار لکھی،جس کی وجہ سے یہ فلم بے حد مقبول ہوئی۔تبو جیسی منجھی ہوئی اداکارہ نے اس میں کام کیا۔گلزار کے لکھے ہوئے گیت''چپہ چپہ چرخا چلے''اور''چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں''ہمیشہ یاد رہ جانے والے گیت ہیں۔بالی ووڈ میں سانحہ 1984کے حوالے سے اداکار امیتابھ کا ایک متنازعہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے،جس میں انھوں نے بھارت کے قومی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سکھوں کے قتل عام کو درست قرارد یا۔
''سانحہ 1984''کے موضوع پر بننے والی یہ فلمیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سکھوں کو یہ حادثہ بھولا نہیں ،وہ اپنے جذبات کا اظہار فلم کے میڈیم کے ذریعے کرتے رہتے ہیں اور اس میں سکھ فنکار پیش پیش ہیں۔ایک ہی موضوع پر اتنی فلمیں بننا اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ زخموں کو بھرنے میں ابھی مزید وقت لگے گا،سکھوں کی جوان ہوتی نئی نسل اس میڈیم کے ذریعے اپنی تاریخ کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔یہ پہلو بھی بالی ووڈ کا ایک اہم پہلو ہے، جس پر کبھی بھارتی فلمی حلقے بات نہیں کرتے۔بالی ووڈ صرف ''سنگھ اِز کنگ''جیسی فلموں کی تشہیر میں دلچسپی لیتاہے۔