لسانی مطالعے
غازی علم الدین نے ایک کتاب لکھی جس کا موضوع تھا زبان کی سماجی، تاریخی اور ثقافتی جہتیں۔
غازی علم الدین نے ایک کتاب لکھی جس کا موضوع تھا زبان کی سماجی، تاریخی اور ثقافتی جہتیں۔ جب یہ کتاب ''لسانی مطالعے'' کے عنوان سے شایع ہوئی تو بہت پسند کی گئی۔ ہندوستان میں جہاں اب اردو اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے اس کتاب کی خصوصیت سے پذیرائی ہوئی۔
اہل علم و ادب کی طرف سے اس پر تبصرے ہوئے اور غازی صاحب کی تحقیقی کوشش کی اہمیت کا دل کھول کر اعتراف کیا گیا۔ تبصرے لکھے گئے اور ناقد اور شاعر، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ان تبصروں کو یکجا کرکے شایع کیا۔ ہندوستان میں ان کی یہ کتاب ''اردو! معیار اور استعمال'' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے اس سے پہلے وہ غازی صاحب کی کتاب کے حوالے سے ''لسانی لغت'' تیار کرکے شایع کرچکے ہیں جس سے اہل علم، اساتذہ اور طلبا سب ہی استفادہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر مناظر عاشق نے اپنی کتاب میں جن اہل علم و ادب کی آرا کو شامل کیا ہے، انھوں نے ''لسانی مطالعے'' کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے زبان کے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈالی ہے۔ اس اعتبار سے ان تبصروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک تو ''لسانی مطالعے'' کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ باتیں ان کے دل سے نکلی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ''میں نے اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میری تمنا ہے کہ لاتعداد دوسرے قارئین ادب بھی اس کتاب سے لسانیات کے ساتھ ساتھ دینیات اور سیاسیات کے اسرار ورموز بھی سیکھیں۔''
ڈاکٹر محبوب راہی ہندوستان کی ممتاز ادبی شخصیت ہیں۔ انھوں نے ''لسانی مطالعے'' پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: اس کتاب کے ہر مقالے، ہر صفحے، ہر جملے اور ہر لفظ سے پروفیسر غازی علم الدین کی اردو سے بے پناہ محبت اور اس کی حفاظت، زندگی، ترویج و بقا کے لیے دردمندی، دل سوزی اور جگر کاوی کی شہادتیں فراہم ہوتی ہیں۔ان کی محققانہ عرق ریزی، شجر علمی، تنقیدی بصیرت، قرآن، اسلام اور اسلامی قدروں کے فہم و شعور پر اور محنت شاقہ کے نتیجے میں جمع شدہ مواد کی انفرادیت اور اہمیت و افادیت نیز اس کی ترتیب و پیش کش کی سلیقہ مندی اور تہذیب و شائستگی سے کوئی کور چشم کافر ادب ہی انحراف کی جسارت کرسکتا ہے۔
پروفیسر غازی علم الدین نے اپنی کتاب میں اردو کے ملی تشخص اور کردار کی تفہیم میں زور دیا ہے۔ وہ زبان کو ایک ایسا وسیع میدان سمجھتے ہیں جو اپنے اندر کسی قوم کی تہذیب و ثقافت کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ جو قوم اپنی تہذیب، روایات اور فکر کی حفاظت کرنا چاہتی ہے ہو اسے اپنی زبان کی حفاظت بھی کرنا ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر زبان انجماد کا شکار ہوجائے تو جان لینا چاہیے کہ اس میں ابلاغ کرنے والے اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
''لسانی مطالعے'' میں جن موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ زبان کے استعمال کے معاملے میں ان کا ادراک ضروری ہے۔ اس میں ایسے اردو الفاظ اور محاورات کی نشان دہی جن سے اسلامی شعائر کی تضحیک و توہین ہوتی ہے، الفاظ کا تخلیقی اور معنوی اور اصطلاحی پس منظر، اردو میں بعض عربی الفاظ کے معنی میں تبدیلی، بعض الفاظ کی نئی تعبیر و تشریح، اردو کا عربی سے لسانی تعلق، املا میں صحت اور نشریاتی اداروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں استعمال ہونے والی زبان کی درستی شامل ہے۔ ڈاکٹر سیفی سرونجی کے بقول پروفیسر علم الدین نے زبان سے متعلق کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ اس سے ان کی اردو دوستی اور اس کے صحیح استعمال کی فکر کا اظہار ہے۔
حیدر آباد دکن کے رؤف خیر شاعر ہیں جن کا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے ہے انھوں نے زبان کے درست استعمال کے معاملے میں ہندو پاکستان میں اردو کی موجودہ حالت کو مایوس کن ٹھہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھا جانے لگا ہے۔ خود اردو والے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔ صورت حال یہ ہے کہ اترپردیش کے بیشتر علاقوں میں (بشمول لکھنو) اردو ایک ''بولی'' ہوکر رہ گئی ہے۔
نئی نسل اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ عام بول چال میں انگریزی اور ہندی الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔ نئی نسل کی مادری زبان سے یہ دوری بڑی افسوسناک ہے۔ جو شخص اپنی مادری زبان اچھی طرح نہیں جانتا وہ دنیا کی کوئی بھی زبان بہتر انداز میں نہیں سیکھ سکتا۔'' رؤف خیر کہتے ہیں کہ غازی علم الدین نے زبان و بیان کی اصلاح کے لیے کتاب لکھ کر اردو کو ''شہید'' ہونے سے بچانے کے جہاد میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
دہلی کے افسانہ نگار عظیم اختر نے بھی ''لسانے مطالعے'' کو اردو زبان کی خدمت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''پاکستان میں اگر پروفیسر غازی علم الدین جیسے دردمندوں کی خدمات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھایا گیا اور انھوں نے جو ابتر صورتحال بیان کی ہے اس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب اس مملکت خداداد میں اردو الفاظ کا صحیح تلفظ، درست املا، اور موزوں استعمال گزرے زمانے کی باتیں ہوکر رہ جائے گی اور آنے والی نسلوں کے لیے وہ اردو معتبر ہوجائے گی جو آج ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کے لیے سنائی دے رہی اور اخبارات میں نظر آرہی ہے۔''
ندیم صدیقی اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پروفیسر غازی کی کتاب کا سب سے پہلے مطالعہ اساتذہ، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو کرنا چاہیے کہ زبان کی اصلاح اور فروغ ان سب کی ذمے داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ استاد تدریس کے ذریعے اپنے شاگردوں میں اور شاعر اپنی شاعری کے ذریعے ادب میں زندہ رہتا ہے۔
شمس جیلانی نے اپنے تبصرے میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ پروفیسر علم الدین نے ان الفاظ کی درستی پر زیادہ زور دیا ہے جو عربی اور فارسی سے اردو میں آئے ہیں اور غلط معنوں میں بولے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس کی بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ اردو میں چونکہ لفظوں پر زیر زبر لکھنے کا رواج نہیں ہے اس لیے لکھنے میں تو فرق نظر نہیں آتا لیکن جب بولتے ہیں تو بہت سی غلطیاں سماعتوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ نثر تو پھر بھی اتنی نہیں کھلتی مگر نظم معیار سے ہی گر جاتی ہے۔ غلط تلفظ شعر میں باندھنے کی وجہ سے اس کا خالق اور اس کا تخلیق کردہ شعر دونوں غیر معیاری قرار پاتے ہیں کیوں وہ بے وزنی کی کیفیت میں ہوتا ہے جیسے چاند پر انسان۔
ڈاکٹر مظفر حسن عالی نے ''لسانی مطالعے میں ژرف نگاہی'' کے عنوان سے غازی علم الدین کی کتاب کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''اکثر محققین فن لسانیات کی پرپیچ وادیوں میں قدم رکھنے سے کتراتے ہیں اور جنھوں نے اس میں اترنے کی کوششیں کی وہ اکثر کامیابی سے دور جا نکلے لیکن غازی علم الدین اس پرپیچ، خاردار اور پتھریلی وادی سے نہ صرف بامراد نکلے بلکہ اس وادی کے دیوانوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔
''لسانی مطالعے'' میں نو مقالے شامل ہیں۔ زبان و بیان پر اخلاقی انحطاط کا اثر الفاظ کا تخلیقی اور معنوی پس منظر، الفاظ معنی بدلتے ہیں، لسانی تحقیق کے کچھ نئے زاویے، اردو کا عربی سے لسانی تعلق، اردو میں مستعمل عربی الفاظ کی تشکیل اور معنوی وسعت، املا میں الفاظ کی جداگانہ حیثیت سے انحراف، قومی زبان اور ہمارے نشریاتی ادارے، اردو کا ملی تشخص اور کردار۔ یہ تمام مقالے پروفیسر علم الدین کے لسانی تحقیقاتی اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہیں اور دلیل کے ساتھ ہیں۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مرتب کردہ مجموعہ ''اردو: معیار اور استعمال'' میں جن اہل قلم اور ناقدین کی تحریریں شامل ہیں انھوں نے پروفیسر علم الدین کے ان تمام مقالوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے۔ کچھ پروفیسر صاحب کے تجزیوں سے اختلاف کیا ہے اور اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ پروفیسر علم الدین نے جو کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور انھوں نے اردو زبان کے استعمال کے ضمن میں جو سوال اٹھائے ہیں وہ قابل توجہ ہیں۔
پروفیسر علم الدین ایک دردمند محقق ہیں، اردو زبان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے درست استعمال پر زور دیتے ہیں۔ بقول خواجہ محمد عارف ان کی کتاب سنجیدہ علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ علم و ادب کے محققین اس کے مندرجات سند کے طور پر استعمال کریں گے۔ زبان کی صحت کا خیال رکھنے والوں کے لیے اس کی افادیت مسلم ہے۔