پاکستان کا نظام کیا ہو
پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے یا سیکولر؟ قیام پاکستان کو 66 برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود
پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے یا سیکولر؟ قیام پاکستان کو 66 برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ سوال شاید اتنا ہی جواب طلب، اہم اور تازہ ہے جتنا کہ آج سے 66 برس قبل تھا۔ اگر کچھ فرق واقع ہوا ہے تو وہ لبرل اور سیکولر حلقوں میں پائی جانے والی بے چینی، بے یقینی اور کسی درجے مایوسی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کا پہلا سبب تو یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے کبھی بھی ''سیکولرزم'' اور ''لبرل ازم'' کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اکثریت نے سیکولر طرز فکر کو رد کردیا۔ یہاں تک کہ کئی حلقوں میں ان اصطلاحات کو برے اور منفی معنوں میں دیکھا جانے لگا۔ اس کا ایک سبب ہمسایہ ملک میں سیکولر فکر کے نام پر جاری فسطائیت بھی ہوسکتی ہے۔ وہاں جس طرح سیکولرازم کا نام استعمال کرکے بسا اوقات سرکاری سطح تک مذہبی جنونیت کو جس طرح قبول کیا گیا یہ اس کے بداثرات بھی ہوسکتے ہیں۔
یا اس کا ایک سبب پاکستانیوں کا بڑھتا ہوا مذہبی رجحان بھی قرار پاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں جتنی مساجد ہیں اور جتنے مساجد کو آباد کرنے والے ہیں آج سے 66 برس قبل آبادی کے تناسب سے بھی اتنے نہ تھے۔اگر سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی عمائدین نے کبھی بھی پاکستان کو آئینی اور قانونی سطح پر سیکولر ملک قرار نہیں دیا۔ البتہ اس کا الٹ ضرور نظر آتا ہے۔ یعنی آئین پاکستان میں یہ طے کردیا گیا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان کے مستقبل کے لییبہتر کیا ہے؟ ایک جدید سیکولر ریاست یا ایک اسلامی ریاست؟ اس حوالے سے قائداعظم کا تصور پاکستان بھی زیر بحث آتا ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر دو جانب کے لکھنے اور بولنے والوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تحاریر اور تقاریر سے اپنے اپنے مطلب کے اقوال مل جاتے ہیں اور وہ اسے مسلسل بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہماری رائے میں سیکولر پاکستان کی بحث میں خود سیکولرازم کے حوالے سے شاید چند بنیادی مباحث کو قرار واقعی توجہ حاصل نہیں رہی۔ مثال کے طور پر معروف فلسفی ''جیکوئزڈریڈا'' اپنی کتاب ''آفٹر گاڈ'' میں لکھتے ہیں ''یہ امر معاصر مباحث کو لاحاصل بنادیتا ہے کہ کسی بھی جانب یہ نہیں مانا جاتا کہ لادینیت (سیکولریٹی) ایک مذہبی واقعہ ہے۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے صیہونی، عیسائی روایات کا جیساکہ یہ نمو پذیر ہوئے پروٹسٹنٹ ازم میں۔ مزید برآں مذہب عموماً اس وقت بہت بااثر ہوجاتا ہے جب وہ کسی قدر مخفی ہو۔''
مارک ٹیلر نے اہم بات کی ہے کہ عیسائیت کے بطن سے ''پروٹسٹنٹ ازم'' نے جنم لیا اور سیکولرازم پروٹسٹنٹ ازم کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس طرز فکر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جدیدیت، لادینیت، لبرل ازم، اور سرمایہ داریت وغیرہ سب پروٹسٹنٹ ازم سے نکلے ہیں۔ اس حوالے سے عیسائیوں کے ایک فرقے کی رائے بھی اہم ہے جو مندرجہ بالا فلاسفر کی رائے سے ملتی جلتی سی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج راسخ العقیدہ عیسائیوں کا سب سے بڑا دشمن ''سیکولرازم'' ہے۔ وہ سیکولرازم کو مغرب کا متشددانہ قومی مذہب قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سیکولرازم مغرب میں تثلیثی نظریات کے ہزار سالہ نتیجے کے طور پر سامنے آیا۔ یہاں ہم یہ رائے پیش کرکے اکتفا کرینگے کہ پروٹسٹنٹ ازم نے صدیوں سے جاری اس فکر کو بھی تبدیل کیا کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اخروی کامیابی ان ہی افراد کے حصے میں آتی ہے جن کی دنیا اچھی ہو، جنھوں نے دنیا میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہوں۔ انھوں نے سمجھایا کہ دنیاوی کامیابی اخروی کامیابی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ یوں دین و دنیا کو خلط ملط کردیا گیا اور چوں کہ صنعتی انفجار کا دور تھا تو یہ نئی تعبیر لوگوں کو زیادہ بہتر محسوس ہونے لگی۔
سیکولرازم نے اس سے بڑھ کر علمی بنیادوں پر دعویٰ کیا کہ ہم نہیں جانتے کہ سچائی کیا ہے۔ سیکولر وجودیات نے مزید ایک قدم آگے بڑھایا اور اس نے کہا سچ فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ آپ کے لیے سچ وہی ہے جسے آپ سچ مان لیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی سچائی یا اپنے لیے سچائی خود ہی تخلیق کرلیں۔ تو یہ بھی ایک پوزیشن ہے کہ اپنے لیے سچائی خود ہی تخلیق کرو۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سیکولرازم خود ایک مذہب کا روپ دھار لیتا ہے اور کسی بھی مذہب سے الگ اور دور ہوجاتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سیکولر پاکستان کے مباحث میں شاید ان نکات کو غیر اہم گردانا جاتا ہے کہ سیکولر طرز فکر کی بنیاد پروٹیسٹنٹ ازم میں تلاش کی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ سیکولر طرز فکر بجائے خود ایک مذہب ہے جس کی اپنی ایمانیات اور اپنی اخلاقیات ہیں۔ اگر سیکولر طرز فکر کو اپنا لیا جائے تو دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔ اسی طرح کے سطحی خیالات کا اعادہ حال ہی میں سیکولر پاکستان کے حوالے سے شایع ہونے والی اوکسفورڈ پاکستان کی ایک کتاب میں بھی نظر آیا۔ اگر سیکولر فکر کو اپنا لیا جائے تو فساد ختم ہوجائے گا جیساکہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ یہاں بھی شاید ایک اہم نکتے کو نظرانداز کرکے غلط نتائج تخریج کیے جا رہے ہیں۔ یورپ میں کیا ہوا تھا؟
یورپ کی تحریک تنویر اور پروٹسٹنٹ فکر نے رفتہ رفتہ دنیا والوں کے قلوب میں دنیا کی وہ اہمیت جاری کی کہ مذہب ان کے لیے غیر متعلق چیز بن کے رہ گیا۔ اب ان کا اصل ہدف اچھی تعلیم اور اچھی ملازمت بن گیا۔ اب لوگوں کی زندگی کا مقصد اچھی تعلیم اور اچھی ملازمت بن گیا۔ ان کا ہدف اپنی کمپنی کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بن کر اس کے اثاثوں اور منافعوں میں اضافہ قرار پایا ''میکسامائز پرافٹ'' اصول بن گیا۔ یوں مذہب یورپ والوں کے لیے غیر متعلق چیز بن گیا۔ لیکن تیسری دنیا میں یہ فارمولا کامیاب نہیں رہا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تیسری دنیا کے افراد آج بھی ''سسٹم'' سے زیادہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مذہب اور عقائد آج بھی ان کے لیے اہم ہیں لہٰذا یہاں سیکولر طرز فکر پنپ نہیں سکی۔
اب رہا یہ التباس کہ یورپ میں مذہب کے نام پر جاری دنگے، فساد اور جنگیں کم ہوگئیں اور سیکولر طرز فکر سے امن آگیا اور اب دنیا میں کہیں بھی اسی فارمولے کے تحت امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب درست معلوم نہیں دیتا۔ کیوں کہ صرف مذہب کو غیر متعلق کردینے سے انسان تو تبدیل نہیں ہوجاتا۔ انسان تو وہی رہتا ہے، اس کا قلب، اس کا کردار بھی وہی رہتا ہے، بلکہ مذہبی اخلاقیات اور حد بندیاں توڑ کر وہ مزید وحشی بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یورپ والوں نے انسانی تاریخ کی بھیانک ترین جنگیں لڑیں۔ تاریخ میں انھیں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیا یہ عظیم جنگیں خدا کے نام پر اور خدا کے لیے مذہبی جنونیوں نے لڑی تھیں یا سیکولر طرز فکر کے ماننے والے فاشسٹوں نے؟
ہماری رائے میں سیکولر پاکستان کے مباحث میں معروضی حقائق کا غیر جانب داری سے مطالعہ نہایت ضروری ہے۔
اس کا پہلا سبب تو یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے کبھی بھی ''سیکولرزم'' اور ''لبرل ازم'' کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اکثریت نے سیکولر طرز فکر کو رد کردیا۔ یہاں تک کہ کئی حلقوں میں ان اصطلاحات کو برے اور منفی معنوں میں دیکھا جانے لگا۔ اس کا ایک سبب ہمسایہ ملک میں سیکولر فکر کے نام پر جاری فسطائیت بھی ہوسکتی ہے۔ وہاں جس طرح سیکولرازم کا نام استعمال کرکے بسا اوقات سرکاری سطح تک مذہبی جنونیت کو جس طرح قبول کیا گیا یہ اس کے بداثرات بھی ہوسکتے ہیں۔
یا اس کا ایک سبب پاکستانیوں کا بڑھتا ہوا مذہبی رجحان بھی قرار پاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کے پاکستان میں جتنی مساجد ہیں اور جتنے مساجد کو آباد کرنے والے ہیں آج سے 66 برس قبل آبادی کے تناسب سے بھی اتنے نہ تھے۔اگر سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی عمائدین نے کبھی بھی پاکستان کو آئینی اور قانونی سطح پر سیکولر ملک قرار نہیں دیا۔ البتہ اس کا الٹ ضرور نظر آتا ہے۔ یعنی آئین پاکستان میں یہ طے کردیا گیا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان کے مستقبل کے لییبہتر کیا ہے؟ ایک جدید سیکولر ریاست یا ایک اسلامی ریاست؟ اس حوالے سے قائداعظم کا تصور پاکستان بھی زیر بحث آتا ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر دو جانب کے لکھنے اور بولنے والوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تحاریر اور تقاریر سے اپنے اپنے مطلب کے اقوال مل جاتے ہیں اور وہ اسے مسلسل بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہماری رائے میں سیکولر پاکستان کی بحث میں خود سیکولرازم کے حوالے سے شاید چند بنیادی مباحث کو قرار واقعی توجہ حاصل نہیں رہی۔ مثال کے طور پر معروف فلسفی ''جیکوئزڈریڈا'' اپنی کتاب ''آفٹر گاڈ'' میں لکھتے ہیں ''یہ امر معاصر مباحث کو لاحاصل بنادیتا ہے کہ کسی بھی جانب یہ نہیں مانا جاتا کہ لادینیت (سیکولریٹی) ایک مذہبی واقعہ ہے۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے صیہونی، عیسائی روایات کا جیساکہ یہ نمو پذیر ہوئے پروٹسٹنٹ ازم میں۔ مزید برآں مذہب عموماً اس وقت بہت بااثر ہوجاتا ہے جب وہ کسی قدر مخفی ہو۔''
مارک ٹیلر نے اہم بات کی ہے کہ عیسائیت کے بطن سے ''پروٹسٹنٹ ازم'' نے جنم لیا اور سیکولرازم پروٹسٹنٹ ازم کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس طرز فکر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جدیدیت، لادینیت، لبرل ازم، اور سرمایہ داریت وغیرہ سب پروٹسٹنٹ ازم سے نکلے ہیں۔ اس حوالے سے عیسائیوں کے ایک فرقے کی رائے بھی اہم ہے جو مندرجہ بالا فلاسفر کی رائے سے ملتی جلتی سی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج راسخ العقیدہ عیسائیوں کا سب سے بڑا دشمن ''سیکولرازم'' ہے۔ وہ سیکولرازم کو مغرب کا متشددانہ قومی مذہب قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سیکولرازم مغرب میں تثلیثی نظریات کے ہزار سالہ نتیجے کے طور پر سامنے آیا۔ یہاں ہم یہ رائے پیش کرکے اکتفا کرینگے کہ پروٹسٹنٹ ازم نے صدیوں سے جاری اس فکر کو بھی تبدیل کیا کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اخروی کامیابی ان ہی افراد کے حصے میں آتی ہے جن کی دنیا اچھی ہو، جنھوں نے دنیا میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہوں۔ انھوں نے سمجھایا کہ دنیاوی کامیابی اخروی کامیابی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ یوں دین و دنیا کو خلط ملط کردیا گیا اور چوں کہ صنعتی انفجار کا دور تھا تو یہ نئی تعبیر لوگوں کو زیادہ بہتر محسوس ہونے لگی۔
سیکولرازم نے اس سے بڑھ کر علمی بنیادوں پر دعویٰ کیا کہ ہم نہیں جانتے کہ سچائی کیا ہے۔ سیکولر وجودیات نے مزید ایک قدم آگے بڑھایا اور اس نے کہا سچ فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ آپ کے لیے سچ وہی ہے جسے آپ سچ مان لیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی سچائی یا اپنے لیے سچائی خود ہی تخلیق کرلیں۔ تو یہ بھی ایک پوزیشن ہے کہ اپنے لیے سچائی خود ہی تخلیق کرو۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سیکولرازم خود ایک مذہب کا روپ دھار لیتا ہے اور کسی بھی مذہب سے الگ اور دور ہوجاتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سیکولر پاکستان کے مباحث میں شاید ان نکات کو غیر اہم گردانا جاتا ہے کہ سیکولر طرز فکر کی بنیاد پروٹیسٹنٹ ازم میں تلاش کی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ سیکولر طرز فکر بجائے خود ایک مذہب ہے جس کی اپنی ایمانیات اور اپنی اخلاقیات ہیں۔ اگر سیکولر طرز فکر کو اپنا لیا جائے تو دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔ اسی طرح کے سطحی خیالات کا اعادہ حال ہی میں سیکولر پاکستان کے حوالے سے شایع ہونے والی اوکسفورڈ پاکستان کی ایک کتاب میں بھی نظر آیا۔ اگر سیکولر فکر کو اپنا لیا جائے تو فساد ختم ہوجائے گا جیساکہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ یہاں بھی شاید ایک اہم نکتے کو نظرانداز کرکے غلط نتائج تخریج کیے جا رہے ہیں۔ یورپ میں کیا ہوا تھا؟
یورپ کی تحریک تنویر اور پروٹسٹنٹ فکر نے رفتہ رفتہ دنیا والوں کے قلوب میں دنیا کی وہ اہمیت جاری کی کہ مذہب ان کے لیے غیر متعلق چیز بن کے رہ گیا۔ اب ان کا اصل ہدف اچھی تعلیم اور اچھی ملازمت بن گیا۔ اب لوگوں کی زندگی کا مقصد اچھی تعلیم اور اچھی ملازمت بن گیا۔ ان کا ہدف اپنی کمپنی کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بن کر اس کے اثاثوں اور منافعوں میں اضافہ قرار پایا ''میکسامائز پرافٹ'' اصول بن گیا۔ یوں مذہب یورپ والوں کے لیے غیر متعلق چیز بن گیا۔ لیکن تیسری دنیا میں یہ فارمولا کامیاب نہیں رہا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تیسری دنیا کے افراد آج بھی ''سسٹم'' سے زیادہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مذہب اور عقائد آج بھی ان کے لیے اہم ہیں لہٰذا یہاں سیکولر طرز فکر پنپ نہیں سکی۔
اب رہا یہ التباس کہ یورپ میں مذہب کے نام پر جاری دنگے، فساد اور جنگیں کم ہوگئیں اور سیکولر طرز فکر سے امن آگیا اور اب دنیا میں کہیں بھی اسی فارمولے کے تحت امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب درست معلوم نہیں دیتا۔ کیوں کہ صرف مذہب کو غیر متعلق کردینے سے انسان تو تبدیل نہیں ہوجاتا۔ انسان تو وہی رہتا ہے، اس کا قلب، اس کا کردار بھی وہی رہتا ہے، بلکہ مذہبی اخلاقیات اور حد بندیاں توڑ کر وہ مزید وحشی بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یورپ والوں نے انسانی تاریخ کی بھیانک ترین جنگیں لڑیں۔ تاریخ میں انھیں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیا یہ عظیم جنگیں خدا کے نام پر اور خدا کے لیے مذہبی جنونیوں نے لڑی تھیں یا سیکولر طرز فکر کے ماننے والے فاشسٹوں نے؟
ہماری رائے میں سیکولر پاکستان کے مباحث میں معروضی حقائق کا غیر جانب داری سے مطالعہ نہایت ضروری ہے۔