غزہ پر صیہونی یلغار
فلسطینی علاقہ غزہ جو گزشتہ 6برس سے زائد عرصے سے غاصب صیہونی اسرائیلی محاصرے میں ہے
فلسطینی علاقہ غزہ جو گزشتہ 6برس سے زائد عرصے سے غاصب صیہونی اسرائیلی محاصرے میں ہے، غزہ کی اندرونی صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کوخوراک نہیں تو بیماروں کو دینے کو دوا نہیں، کہیں اسپتالوں میں مشینری موجود ہے تو ڈاکٹر موجود نہیں اور اگر ڈاکٹرز موجود بھی ہیں تو ادویات کی قلت کے باعث معصوم فلسطینیوں کی مشکلات کا سامنا ہے۔
اسی طرح غزہ کو سپلائی کی جانے والی بجلی کے ہیڈ آفسز پر بھی صہیونی اسرائیلیوں کا قبضہ ہے، جس کے باعث غزہ کے لوگوں کو اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، اسی طرح غزہ میں موجود کھیتوں کو صہیونیوں نے اجاڑ دیا ہے تا کہ فلسطینی کسان کسی بھی قسم کی کھیتی باڑی کر کے سبزیاں اور اناج پیدا کر کے خوراک حاصل نہ کر سکیں۔
غزہ میں بسنے والے اٹھارہ لاکھ انسان ایسے زندگی گزار رہے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں نکلتا، خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل نے غزہ کے ان اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں پر زندگی تنگ کر دی ہے اور موت آسان کر دی ہے، غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کا قصور کیا ہے؟ کیا یہ لوگ انسانوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں؟ کیا ان اٹھارہ لاکھ افراد کو زندگی گزارنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؟ کیا ان اٹھارہ لاکھ انسانوں کے کسی بھی قسم کے بنیادی حقوق نہیں ہیں؟ کیا یہ اٹھارہ لاکھ مظلوم انسان صرف اس لیے قتل کیے جا رہے ہیں کہ کیونکہ یہ فلسطینی ہیں؟ یا پھر ان کو اس لیے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا جا رہاہے کیونکہ یہ فلسطینی ہیں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے؟
یا پھر ان کا گناہ یہ ہے کہ انھوں نے 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو ووٹ دیا تھا؟ یا پھر اس سے بھی بڑھ کر ان کا گناہ یہ ہے کہ یہ سر زمین فلسطین پر پیدا ہوئے ہیں؟ تو کیا فلسطینی ہونا کوئی گناہ کی بات ہے؟ اس طرح کے درجنوں سوالات اذہان میں جنم لے رہے ہیں، کیونکہ ان اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، عالمی برادری کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ دنیا کے ان مظلوم ترین انسانوں کی مدد کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے، اقوام متحدہ ہو یا عرب لیگ یا پھر یورپی یونین ہو یا اسلامی ممالک کی تنظیم یہ سب کے سب خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔
یکم جولائی یعنی 2رمضان المبارک سے ایک مرتبہ پھر محصورین غزہ پر اسرائیل کی جانب سے آگ و خون برسانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، اس مرتبہ اسرائیل نے غزہ پر یلغار کرنے کے لیے جو بہانہ بنایا ہے وہ تین یہودی آباد کاروں کا اغوا اور پھر ان کا قتل ہے، 12جون 2014ء کو مقبوضہ فلسطین کے تین یہودی آباد کاروں کو اغوا کر لیا گیا جس کے بعد کافی دن گزر جانے کے بعد یکم جولائی کو ان تینوں یہودی آباد کاروں کی لاشیں غزہ کے ایک علاقے میں پھینک دی گئیں جس کے بعد غاصب صیہونی اسرائیل نے فوری طور پر غزہ پر حملہ کا آغاز کر دیا اور بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا۔
پہلے روز مختلف مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا تاہم رفتہ رفتہ صیہونی فضائیہ کے ساتھ بحری اور بری فوجیں بھی میدان میں کود پڑی ، صیہونیوں نے ایک طرف اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کو غزہ میں نشانہ بنانا شروع کیا تو دوسری جانب غزہ میں بسنے والے عام فلسطینیوں پر بھی بڑے پیمانے پر یلغار شروع کر دی جس کے نتیجے میں درجنوں کی تعداد میں بچے، خواتین اور نوجوان شہید ہوئے ، سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو چکے ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے تین یہودی آباد کاروں کے اغوا کا الزام اسلامی مزاحمتی تحریک حماس پر عائد کیا اور روز اول سے ہی حماس کے خلاف حملے اورکارروائی کا راگ الاپنا شروع کر دیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ غاصب اسرائیل نے بہت پہلے سے ہی غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک کے خلاف سازشوں کا جال بنا رکھا تھا، بس وہ کسی بہانے کے انتظار میں تھا اور پھر یہ جواز اسرائیل نے خود ہی پیدا کر لیا، پہلے اپنے ہی شہریوں کو اغوا کیا اور پھر کچھ روز قید میں رکھنے کے بعد انھیں قتل کرکے ایسے علاقے میں پھینکا گیا جہاں فلسطینیوں کی کثیرآبادی مقیم ہے تا کہ اس کا الزام براہ راست فلسطینیوں پر ثابت کیا جائے۔
فرض کریں کہ اگر تین یہودی آباد کاروں کے اغوا میں فلسطینی گروہ یا پھر حما س ہی ملوث ہوتی تو پھر ان تین یہودی آباد کاروں کے بدلے میں کہ جن کے لیے اسرائیل ان کے اغوا کے بعد سے ہی بے چین ہو رہا تھا ، فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ کیا جاتا، کوئی ڈیل سامنے آتی ، جیسا کہ ماضی میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا اور پھر ان فوجیوں کے بدلے میں سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی، یقینا ایسا کوئی معاہدہ کیا جاتا ۔
حماس اس طرح کی بزدلانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہو سکتی، لیکن اسرائیل کہ جس کا ماضی اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں سے بھرا پڑا ہے کوئی بعید نہیں ہے کہ خود اپنے شہریوں کا اغوا کیا جانا اور پھر قتل کیا جانا اسرائیلی بدنام زمانہ ایجنسی ''موساد'' کی کاروائی ہو سکتی ہے، اور امریکا ہو یا اسرائیل اس قسم کی کاروائیوں سے تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جس میں سے ایک مثال 9/11کی ہے۔
غزہ پر صہیونی بد ترین جارحیت اور یلغار جاری ہے، لیکن دوسری طرف عالم اسلام خاموش ہے، کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے، ایک آدھ اسلامی ملک ہے جو مسئلہ فلسطین کی خاطر مسلسل جد وجہد کرتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن مجموعی طور پر صورتحال قابل تشویش ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری مسلم امہ اس ماہ رمضان المبارک میں یکجان ہو کر اٹھ کھڑی ہو، مسلم ممالک میں کام کرنے والی اسرائیلی اقتصادی کمپنیوں پر فی الفور پابندی عائد کر دی جائے اور پوری مسلم امہ امریکا اور اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو وہ دن دور نہیں ہے کہ جب غاصب صیہونی اسرائیل کا وجود ہی صفحہ ہستی سے ختم ہو جائے گا۔