ایک کروڑ 7 لاکھ کا کھانا…

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کی شاہراہ پر قدم قدم اسپیڈ بریکر لگے ہوئے ہیں۔


Safora Khairi July 15, 2014

KARACHI: یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کی شاہراہ پر قدم قدم اسپیڈ بریکر لگے ہوئے ہیں۔ اس آسیب زدہ شہر میں سب کی حرکت تیز تر ہے مگر سفر آہستہ آہستہ پورا ملک ملاوٹ اور گراوٹ کی لپیٹ میں ہے دنیا کے کسی مہذب ملک میں عوام کی صحت اولین ترجیح ہے ان کو سلوپوائزن نہیں دیا جاتا مگر ہمارا یہ پیارا اسلامی جمہوریہ پاکستان مملکت خداداد کے رہنے والے ناگہانی اموات سے دوچار ہیں یہاں طبعی موتیں اب کم ہوتی ہیں مارے زیادہ جاتے ہیں کہیں گولی، کہیں بم اور کہیں اشیائے خورونوش میں زہریلی ملاوٹ، جب تک الیکٹرانک میڈیا اس ملک میں نہیں آیا تھا بس سنا ہی سنا تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ہوتی ہے مگر جب ٹی وی کی چھوٹی سی اسکرین پر یہ راز طشت ازبام ہوا تو سر شرم سے جھک گیا کیونکہ یہ چینلز بیرون ملک بھی دیکھے جاتے ہیں۔

ہماری نئی نسل فاسٹ فوڈ کی رسیا ہوچکی ہے ایلیٹ کلاس زنگر برگر، چکن بروسٹ کھاتی ہے تو غریب طبقے کو بن کباب بھی میسر نہیں، بازار میں سرعام بکتی ہوئی چیزوں میں آلودگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، شکم کی آگ تو بجھ جاتی ہے مگر زندگی کم ہوتی جاتی ہے کہیں گھر کے چولہے گیس کی نایابی سے ٹھنڈے پڑے ہیں تو کہیں قوت خرید ختم ہوجانے سے ایک غریب آدمی روٹی پیاز کھانے سے بھی محروم ہے ہر روز جانے کتنے لوگ فاقے سے مر جاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک حیران کن خبر نے ذہن ماؤف کردیا کہ ہمارے اراکین قومی اسمبلی صرف چند روز کے اجلاس میں ایک کروڑ 7لاکھ کا کھانا چٹ کرگئے گویا ایک دن میں قومی اسمبلی کی ڈائننگ ٹیبل پر یومیہ تیار ہونے والا کھانا سات لاکھ اور چند ہزار کا تیار ہوتا ہے۔

ہمارے یہ عوامی نمایندے خدا جانے کس خمیر کے بنے ہوئے ہیں کہ انھیں بھوک اور پیاس سے بلبلاتے غریب لوگ نظر نہیں آتے ان میں کتنے ایسے ہیں جو اتنے قیمتی کھانوں سے انکار کرتے ہیں ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جب تک میرے ملک کے نادار عوام کو پیٹ بھرنے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں آتی ہم ان سرکاری ضیافتوں میں حصہ نہیں لیں گے مگر وہ ایسا کیوں کہیں گے کہ ان کے حلق میں جانے والے تر نوالے ملاوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔

کہنے کو تو یہ ایک غریب ملک ہے مگر جب بھی بجٹ آتا ہے تو ٹیکس میں چھوٹ امرا کو دی جاتی ہے یہاں سرکاری ملازم اور خاص طور پر پنشنرز کی آمدنی میں دس فیصد اضافہ ہوتا ہے جب کہ وزرا اور پارلیمنٹیرنز کی تنخواہ ڈبل کردی جاتی ہے ان کے گھروں میں سرکاری گاڑیاں ان کے خاندان والوں کے لیے کھڑی رہتی ہیں۔ اس ماہ مقدس میں سب سے زیادہ لوٹ مار ہوتی ہے کہ یہ سال کا سب سے زیادہ کمانیوالا مہینہ ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ عید کی تیاری کے لیے بھی تو پیسہ درکار ہوتا ہے رمضان میں شیطان کو قید کردیا جاتا ہے مگر اس کی روح منافع خوروں کے جسم میں حلول ہو جاتی ہے۔ شیطان کے یہ چیلے آپ کو ہر گلی اور ہر چوراہے پر عوام کو لوٹنے میں مصروف عمل نظر آئینگے وہ تو بھلا ہو اس ملک کے مخیر حضرات کا جن کی بدولت لاکھوں روزہ داروں کو افطاری اور کھانا نصیب ہوجاتا ہے۔

شاید قارئین کو یقین نہ آئے مگر ہم نے بہت سے سفید پوش اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی سیلانی اور چھیپا کے دسترخوان پر مستقل کھانا کھاتے دیکھا ہے ہم نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیکر ان کا مستقبل روشن نہیں کرسکتے کہ اولین ترجیح ان کی تعلیم ہے۔ مساوی تعلیم، مفت تعلیم اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ نوجوان جن کو لیپ ٹاپ دیے گئے ہیں۔ اس سے کوئی تعمیری کام لیں گے کہ آج کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر فیس بک اور چیٹنگ پر کام ہوسکتا ہے ممکن ہے کہ وہ اسے بیچ کر اپنی کوئی ضرورت پوری کرلیں۔

آپ اپنے عوام کو زہر کھلا کر تریاق دینا چاہتے ہیں آپ غیرملکی اور ملکی امداد میں ملنے والی تمام رقم کیا واقعی مستحقین پر خرچ کرتے ہیں اس کا کوئی حساب رکھا جاتا ہے یا یہاں بھی ففٹی ففٹی چلتا ہے؟

بلدیاتی نظام کے ختم ہونے کے بعد شہر کی گلیاں کھنڈر بن گئیں گٹر ابلنے لگے عوام کس سے شکایت کریں کہ وزرا اپنی سیٹوں پر نہیں ہوتے سیکریٹریز کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے اداروں کے سربراہوں کو ''میٹنگز'' سے فرصت نہیں ہوتی۔ گویا ہر جگہ ایک فرعون براجمان ہے بھول جایے کہ اب ہمارے درمیان کوئی موسیٰ آئیگا، اگر آئیگا تو اس اخلاقی انحطاط پر خدا کا قہر ہی آئیگا۔ بس نام کا اسلام ہے یا طالبان کا وہ ظالمانہ نظام جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ضروری نہیں کہ جن کے ماتھے پر سجدے کے نشان، کاندھوں پر ململ کے بڑے بڑے رومال اور سروں پر ٹوپیاں ہوں مومن ہوں، آج شمالی وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے مارے جانے والے دہشت گردوں کا حلیہ اس سے مختلف تو نہیں تھا۔

تو اے اہل وطن یہ قوم اس بھوکی ننگی قوم کے رہنما اجلاسوں میں ایک کروڑ 7لاکھ کا کھانا تو تناول فرما لیتے ہیں مگر ان کے بخت میں ایک روٹی اور ایک گٹھی پیاز خریدنے کی بھی سکت نہیں کرپشن کے یہ نادر مواقعے ہم نے ہی اپنے رہنماؤں کو عطا کیے ہیں کیونکہ اس کی کوئی کڑی سزا نہیں یہاں تو وہ حال ہے کہ

رشوت لے کر پھنس گیا تو رشوت دے کر چھوٹ جا

اس معاشرے کے مسیحا چھیپا، سیلانی اور ایدھی یا چند فلاحی ادارے ہیں مسئلہ سارا یہ ہے کہ اس دور میں جو عدم مساوات کی بات کرتا ہے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے لوگ اسے ''سرخا'' کہتے ہیں آج ہمارے رہنما انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں، سونامی کی نوید دے رہے ہیں، وہ شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ یہ سونامی ہی تو ہے جس نے پورے پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جب پاکستان بنا تھا اور کروڑوں لوگوں کا خون بہا تھا جب ایک دوسرے کو پناہ دینے کے لیے ہزاروں بانہیں وا ہوئی تھیں جب دکھ بھرے سینوں سے ہم رشتہ کئی سینے تھے جب دوسروں کا درد اپنے وجود کا زخم بن جاتا تھا پھر اچانک اسی معاشرے میں ایسی تبدیلی آئی کہ یہ قوم بے حس اور حکمراں مفاد پرست بن گئے۔

اگر انقلاب کے معنی تبدیلی کے ہیں تو تبدیلی تو آچکی سو پچھلے 65 برس کا مقابلہ آج کے حالات سے کیجیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یہ تغیر انقلاب نہیں، سونامی نہیں اب اس ادھورے پاکستان میں دو دنیائیں بستی ہیں ایک ان کی جو سرکاری خزانے سے چند روزہ اجلاس میں ایک کروڑ سات لاکھ کا کھانا چٹ کر جاتے ہیں اور ایک وہ جو بھوکے مر جاتے ہیں ان کے درمیان جو طبقہ ہے وہ ادھار اور مانگے کے اجالے سے اپنا گھر چلاتا ہے ایک وہ ہیں جن کی نودولتیا اولاد لمبی لمبی چمچماتی گاڑیوں میں گھومتی ہے بغیر لائسنس کے اسلحے کے ساتھ دندناتی پھرتی ہے اور کبھی کبھی اسی پستول یا کلاشنکوف سے شوقیہ قتل کرکے رہا بھی ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف وہ جو بے خطا، بیگناہ مار دیے جاتے ہیں یا پولیس کے جعلی مقابلوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ایک وہ جو اس پاک وطن کو اپنے ناپاک ذرایع آمدنی سے دھڑا دھڑ پلاٹ جاگیریں اور محلات بناتے ہیں باہر کے ملکوں میں پیسہ جمع کرواتے ہیں اور ایک وہ جو گھر کے ہوتے ہوئے بھی بے گھر ہیں وطن میں رہتے ہوئے بے وطن ہیں جن کے پاس اپنی کوئی چھت نہیں جو کرائے کے گھروں میں کرائے کے ٹٹو کی طرح روز و شب مشقت کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو روشن مستقبل یااعلیٰ مقام دلوانے کے بجائے اپنی قبروں پر فاتحہ پڑھوانے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔

مگر یہ کیا کم ہے کہ لینڈ مافیا کے اس ملک میں آخری دنوں میں انھیں دو گز ایسی زمین مل جاتی ہے جس پر کوئی سالانہ ٹیکس نہیں لگتا جہاں کا مالک مکان کرایہ وصول کرنے ہر ماہ دروازے پر دستک نہیں دیتا جہاں انھیں سمندر برد نہیں کیا جاتا یہ اور بات کہ قبرستان میں جگہ ملنا بھی اتنا آسان نہیں پھر بھی یہ دو گز زمین ہمیشہ کے لیے ان کے نام ہوجاتی ہے وہ دنیا کی تمام تکلیفوں اور مصائب سے آزاد ہوجاتے ہیں اور یوں ان کا نام اس ملک کے آزاد شہریوں میں شامل ہوجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں