فیاض ہاشمی کی غزل اور طلعت محمود کا عروج
فیاض ہاشمی نے طلعت محمود کی آواز کو سراہتے ہوئے کہا ’’آپ کو تو ریڈیو کے لیے گانا چاہیے۔‘‘
جس طرح پاکستان کی دو گلوکاراؤں نیرہ نور اور رونا لیلیٰ کو نامور شاعر کلیم عثمانی کے گیتوں سے شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اسی طرح ہندوستان کے مشہور غزل سنگر طلعت محمود شاعر فیاض ہاشمی کی ایک غزل کی بدولت منظر عام پر آیا اور پھر فلمی دنیا میں گیتوں کے ساتھ ساتھ خوبصورت غزلوں کو بھی زینت بنایا جانے لگا اور پھرگراموفون کمپنی غزلوں کی فروخت سے مالا مال ہوتی چلی گئی جس زمانے میں فیاض ہاشمی گراموفون کمپنی میں ملازم تھے، اسی دوران کئی اور گلوکار بھی منظر عام پر آئے ان میں گلوکار پنکج ملک، جگ موہن اور ہمنت کمار کے نام شامل تھے بعد میں غزل گانے والوں کی صف میں ایک اور نام شامل ہوا جو طلعت محمود کا تھا پھر جس کی غزلوں نے دلوں کو چھو لیا تھا اور طلعت محمود فلموں کی ضرورت بنتا چلا گیا تھا اور ہز ماسٹر وائس گراموفون کمپنی غزلوں کے ریکارڈ سارے ہندوستان میں پھیلاتی چلی گئی تھی۔
شاعر فیاض ہاشمی نے بھی اسی کمپنی کی ملازمت کے دوران فلمی اور غیر فلمی غزلوں کے ریکارڈز کو سارے ہندوستان میں پھیلا دیا تھا۔ یہ کمپنی غزلیں، نظمیں، گیت اور بھجن بھی ریکارڈ کرتی تھی اور انھیں منظر عام پر لاتی تھی۔ اسی کمپنی کے لیے جو سب سے پہلا گیت فیاض ہاشمی نے لکھا تھا اس دور کے ایک گلوکار فدا حسین نے گایا تھا پھر فیاض ہاشمی کی دریافت گلوکار طلعت محمود تھے جو ایک شوقیہ گانے والے تھے، ایک نجی تقریب میں فیاض ہاشمی صاحب نے جب طلعت محمود کو سنا تو وہ اس کی آواز سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔
فیاض ہاشمی نے طلعت محمود کی آواز کو سراہتے ہوئے کہا ''آپ کو تو ریڈیو کے لیے گانا چاہیے۔'' پھر فیاض ہاشمی انھیں ریڈیو پر لے کر آئے وہ جس گراموفون کمپنی کے ملازم تھے اس گراموفون کمپنی میں انھیں کافی مراعات حاصل تھیں اور زیادہ تر نئے فنکاروں کو ریڈیو کے ذریعے عوام سے روشناس کراتے تھے۔ طلعت محمود سے ملاقات کے بعد فیاض ہاشمی نے خاص طور پر ایک غزل لکھی اور اس کی ریہرسل نئے گلوکار طلعت محمود سے کرائی پھر کئی ریہرسلوں کے بعد فیاض ہاشمی نے وہ غزل ریڈیو کے اپنے خاص دوستوں کو سنوائی، سب نے اس نئی آواز کی بڑی تعریف کی اور پھر اس نئے گلوکار کو جو پہلی غزل آل انڈیا ریڈیو کے لیے گوائی گئی اس کا مطلع تھا۔
تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
وہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی
یہ غزل جب پہلی بار آل انڈیا ریڈیو سے نشرکی گئی تو کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ یہ نیا گلوکارگائیکی کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گا اور اتنا مشہور ہو جائے گا کہ بمبئی کی فلمی دنیا کی ضرورت بن جائے گا۔ پہلی بار اس غزل کے نشر ہونے کے بعد سارے ہندوستان سے فرمائشوں کے خطوط آنے شروع ہوگئے تھے اور ہفتہ بھر میں اس نئی آواز کی پسندیدگی پر ہزاروں خطوط جمع ہوگئے تھے، اس سے پہلے کسی سنگر کے لیے اتنی تعداد میں کبھی خطوط وصول نہیں ہوئے تھے۔ ہر خط میں ایک ہی غزل کی فرمائش لکھی ہوتی تھی '' تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی۔''
اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ۔اے بخاری صاحب ہوتے تھے جو بہت ہی لائق اور تجربہ کار ڈائریکٹر تھے وہ پاکستان بننے کے بعد ریڈیو پاکستان کے بھی پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے تھے جس زمانے میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے، اس زمانے میں ریڈیو سے کسی بھی گیت کے ساتھ صرف اس کے سنگر کا نام اناؤنس کیا جاتا تھا اور شاعر اور موسیقار کا نام نشر نہیں ہوتا تھا۔
اس زمانے میں ریڈیو کی یہی پالیسی اور روایت تھی مگر اس پرانی روایت کو شاعر فیاض ہاشمی نے ہی توڑا تھا اس زمانے میں سارے ہندوستان میں ریڈیو لسنرز (ریڈیو سننے والے) کی ایک ایسوسی ایشن ہوتی تھی جو ریڈیو کے پروگراموں کو پسند کرتے ہوئے اپنے بے شمار خطوط ریڈیو اسٹیشن کو بھیجا کرتی تھی وہ خطوط ہزاروں میں ہوا کرتے تھے۔ لسنرز ایسوسی ایشن نے ملک گیر پیمانے پر ایک مہم چلائی کہ طلعت محمود کی آواز میں جو غزل ریڈیو سے نشر کی جاتی ہے اس غزل کے شاعر کا نام بھی نشر کیا جائے، جب کہ یہ بات آل انڈیا ریڈیو کی پالیسی کے خلاف تھی مگر جب لسنرز ایسوسی ایشن کے احتجاج نے سارے ہندوستان میں زور پکڑا تو آل انڈیا ریڈیو کی اس پالیسی کو بھی تبدیل کیا گیا اور آل انڈیا ریڈیو سے سنگر کے ساتھ ساتھ شاعر کا نام بھی نشر کیا جانے لگا اور اس بات کا اعزاز بھی شاعر فیاض ہاشمی کو جاتا ہے پھر طلعت محمود کے ساتھ شاعر اور موسیقار کا نام بھی نشر ہونے لگا اور پھر یہ ریت ریڈیو کی پالیسی میں شامل ہوگئی تھی۔
ریڈیو ہی سے طلعت محمود فلموں کی طرف آگئے اور بے شمار فلموں میں ان کی غزلوں نے دھوم مچائی اور بعض فلموں کو ان کی غزلوں ہی کی وجہ سے باکس آفس پر کامیابی اور بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ طلعت محمود کو ان کی بے مثال گائیکی پر سب سے بڑا پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تھا اور ہندوستان میں طلعت محمود کو غزل کا سب سے بڑا سنگر تسلیم کیا گیا تھا۔ طلعت محمود کو بھی شہرت کے اس بلند مقام تک آنے کے لیے بڑے کٹھن سفر سے گزرنا پڑا تھا۔ طلعت محمود کا تعلق لکھنو کے ایک متوسط گھرانے سے تھا، انھیں بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ ان کی آواز میں جو سُروں کا رچاؤ تھا یہ انداز دیگر گانے والوں سے مختلف تھا، ان کی آواز گیتوں میں ایک جادو سا بھر دیتی تھی، انھیں اپنے دور میں '' ویلوٹ وائس، سنگر کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ان کی آواز کی مٹھاس کا احساس دیگر آوازوں سے بالکل الگ تھا، انڈین فلموں میں غزل کی ابتدا بھی طلعت محمود کی غزلوں سے ہوئی تھی، ان کی زیادہ تر غزلیں نامور ہیروز پر فلمائی جاتی تھیں۔
شاعر فیاض ہاشمی نے بھی اسی کمپنی کی ملازمت کے دوران فلمی اور غیر فلمی غزلوں کے ریکارڈز کو سارے ہندوستان میں پھیلا دیا تھا۔ یہ کمپنی غزلیں، نظمیں، گیت اور بھجن بھی ریکارڈ کرتی تھی اور انھیں منظر عام پر لاتی تھی۔ اسی کمپنی کے لیے جو سب سے پہلا گیت فیاض ہاشمی نے لکھا تھا اس دور کے ایک گلوکار فدا حسین نے گایا تھا پھر فیاض ہاشمی کی دریافت گلوکار طلعت محمود تھے جو ایک شوقیہ گانے والے تھے، ایک نجی تقریب میں فیاض ہاشمی صاحب نے جب طلعت محمود کو سنا تو وہ اس کی آواز سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔
فیاض ہاشمی نے طلعت محمود کی آواز کو سراہتے ہوئے کہا ''آپ کو تو ریڈیو کے لیے گانا چاہیے۔'' پھر فیاض ہاشمی انھیں ریڈیو پر لے کر آئے وہ جس گراموفون کمپنی کے ملازم تھے اس گراموفون کمپنی میں انھیں کافی مراعات حاصل تھیں اور زیادہ تر نئے فنکاروں کو ریڈیو کے ذریعے عوام سے روشناس کراتے تھے۔ طلعت محمود سے ملاقات کے بعد فیاض ہاشمی نے خاص طور پر ایک غزل لکھی اور اس کی ریہرسل نئے گلوکار طلعت محمود سے کرائی پھر کئی ریہرسلوں کے بعد فیاض ہاشمی نے وہ غزل ریڈیو کے اپنے خاص دوستوں کو سنوائی، سب نے اس نئی آواز کی بڑی تعریف کی اور پھر اس نئے گلوکار کو جو پہلی غزل آل انڈیا ریڈیو کے لیے گوائی گئی اس کا مطلع تھا۔
تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
وہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی
یہ غزل جب پہلی بار آل انڈیا ریڈیو سے نشرکی گئی تو کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ یہ نیا گلوکارگائیکی کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گا اور اتنا مشہور ہو جائے گا کہ بمبئی کی فلمی دنیا کی ضرورت بن جائے گا۔ پہلی بار اس غزل کے نشر ہونے کے بعد سارے ہندوستان سے فرمائشوں کے خطوط آنے شروع ہوگئے تھے اور ہفتہ بھر میں اس نئی آواز کی پسندیدگی پر ہزاروں خطوط جمع ہوگئے تھے، اس سے پہلے کسی سنگر کے لیے اتنی تعداد میں کبھی خطوط وصول نہیں ہوئے تھے۔ ہر خط میں ایک ہی غزل کی فرمائش لکھی ہوتی تھی '' تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی۔''
اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ۔اے بخاری صاحب ہوتے تھے جو بہت ہی لائق اور تجربہ کار ڈائریکٹر تھے وہ پاکستان بننے کے بعد ریڈیو پاکستان کے بھی پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے تھے جس زمانے میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے، اس زمانے میں ریڈیو سے کسی بھی گیت کے ساتھ صرف اس کے سنگر کا نام اناؤنس کیا جاتا تھا اور شاعر اور موسیقار کا نام نشر نہیں ہوتا تھا۔
اس زمانے میں ریڈیو کی یہی پالیسی اور روایت تھی مگر اس پرانی روایت کو شاعر فیاض ہاشمی نے ہی توڑا تھا اس زمانے میں سارے ہندوستان میں ریڈیو لسنرز (ریڈیو سننے والے) کی ایک ایسوسی ایشن ہوتی تھی جو ریڈیو کے پروگراموں کو پسند کرتے ہوئے اپنے بے شمار خطوط ریڈیو اسٹیشن کو بھیجا کرتی تھی وہ خطوط ہزاروں میں ہوا کرتے تھے۔ لسنرز ایسوسی ایشن نے ملک گیر پیمانے پر ایک مہم چلائی کہ طلعت محمود کی آواز میں جو غزل ریڈیو سے نشر کی جاتی ہے اس غزل کے شاعر کا نام بھی نشر کیا جائے، جب کہ یہ بات آل انڈیا ریڈیو کی پالیسی کے خلاف تھی مگر جب لسنرز ایسوسی ایشن کے احتجاج نے سارے ہندوستان میں زور پکڑا تو آل انڈیا ریڈیو کی اس پالیسی کو بھی تبدیل کیا گیا اور آل انڈیا ریڈیو سے سنگر کے ساتھ ساتھ شاعر کا نام بھی نشر کیا جانے لگا اور اس بات کا اعزاز بھی شاعر فیاض ہاشمی کو جاتا ہے پھر طلعت محمود کے ساتھ شاعر اور موسیقار کا نام بھی نشر ہونے لگا اور پھر یہ ریت ریڈیو کی پالیسی میں شامل ہوگئی تھی۔
ریڈیو ہی سے طلعت محمود فلموں کی طرف آگئے اور بے شمار فلموں میں ان کی غزلوں نے دھوم مچائی اور بعض فلموں کو ان کی غزلوں ہی کی وجہ سے باکس آفس پر کامیابی اور بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ طلعت محمود کو ان کی بے مثال گائیکی پر سب سے بڑا پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تھا اور ہندوستان میں طلعت محمود کو غزل کا سب سے بڑا سنگر تسلیم کیا گیا تھا۔ طلعت محمود کو بھی شہرت کے اس بلند مقام تک آنے کے لیے بڑے کٹھن سفر سے گزرنا پڑا تھا۔ طلعت محمود کا تعلق لکھنو کے ایک متوسط گھرانے سے تھا، انھیں بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ ان کی آواز میں جو سُروں کا رچاؤ تھا یہ انداز دیگر گانے والوں سے مختلف تھا، ان کی آواز گیتوں میں ایک جادو سا بھر دیتی تھی، انھیں اپنے دور میں '' ویلوٹ وائس، سنگر کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ان کی آواز کی مٹھاس کا احساس دیگر آوازوں سے بالکل الگ تھا، انڈین فلموں میں غزل کی ابتدا بھی طلعت محمود کی غزلوں سے ہوئی تھی، ان کی زیادہ تر غزلیں نامور ہیروز پر فلمائی جاتی تھیں۔