نابینا افراد کیلئے ادویات پر بریل لینگویج نہ ہونے پر ان کو مشکلات کا سامنا
کراچی سمیت ملک بھر میں بصارت سے محروم افراد کا کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے، ماہرین
کراچی سمیت ملک بھر میں بصارت سے محروم افراد کا کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے، ماہر امراض چشم کے مطابق پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد نابینا پن کا شکار ہیں جن میں سے صرف سندھ میں 3 لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد بینائی سے محروم ہیں۔
نابینا افراد کو سرکاری ملازمتیں، شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے حصول سمیت ادویات کے پیکجوں پر بریل لینگویج نہ ہونے سے مختلف مسائل درپیش ہیں، بریل لینگویج ان بصارت سے محروم افراد کو دوائیوں کے نام، خوراک اور ادویات کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ کی درست طریقے سے شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، بریل لیبلنگ ادویات کا محفوظ استعمال یقینی بناتی ہے۔
ملک کے معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی نے بتایا کہ پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد نابینا پن کا شکار ہیں جن میں سے صرف سندھ میں 3 لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد بینائی سے محروم ہیں، نابیناپن کی بڑی وجہ پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہونا، موتیا، اور ذیابطیس شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری طور پر ملک میں بینائی سے محروم افراد کا کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے، ماہرین امراض چشم کی رائے ہے کہ ملک کی کل آبادی کے 2 فیصد افراد اندھے پن کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نابیناپن کی فلاح وبہبود پر کام کرنے والی کوئی تنظیم یا ادارہ بغیر سروے کے کوئی مستند اعدادوشمار مرتب نہیں کرسکتا ہے، یہ ڈیٹا ماہرین امراض چشم اور سماجی ادارے اپنی رائے اور آنکھوں کی علاج کی روشنی میں دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دواؤں کے پیکجوں پر بریل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بصارت سے محروم افراد ادویات اور ان کی ضروری معلومات جیسے نام، خوراک اور میعاد ختم ہونے کی تاریخ کو آزادانہ طور پر پہچان سکتے ہیں، یہ اقدام صحت کے انتظام میں رسائی، حفاظت اور خود مختاری کو بہتر بناتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی نے کہا کہ بہت سے ممالک اب فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے معذوری کے حقوق اور صحت کے ضوابط کی تعمیل کے لیے ادویات کی پیکیجنگ پر بریل لیبلنگ شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستان میں دواسازی کی مصنوعات پر بریل لیبلنگ نہیں ہے، جس کی وجہ سے نابینا افراد کو معلوم ہی نہیں چلتا کہ اس دوا کا نام کیا ہے، یہ کون سی کمپنی کی ہے اور اس کا فارمولا کیا ہے اور اس دوا کی مدت کب ختم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ادویات کے پیکجوں پر بریل کی شمولیت بصارت سے محروم افراد کے لیے رسائی اور حفاظت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ نابینا یا جزوی طور پر بینائی والے لوگوں کو مدد کے لیے دوسروں پر انحصار کیے بغیر آزادانہ طور پر دواؤں کی شناخت اور استعمال کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ خودمختاری خاص طور پر اس وقت اہم ہوتی ہے جب دوائی کے نام، خوراک اور میعاد ختم ہونے کی تاریخ کی درست طریقے سے شناخت کرنے کی ہو، جس سے دوائی کا مناسب اور محفوظ استعمال یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریل لیبلنگ ادویات کی غلطیوں کے خطرے کو کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے، جیسے کہ غلط دوا لینا یا غلط خوراک لینا، جو صحت کے منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالات میں ادویات کی درست معلومات تک فوری رسائی جان بچانے والی ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، پیکیجنگ پر بریل فراہم کرنا نابینا افراد کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مساوات اور شمولیت کو فروغ دیتا ہے جو دیکھنے والے افراد کی طرح ضروری معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، عالمی سطح پر بہت سے ممالک نے دواسازی کی مصنوعات پر بریل کی ضرورت کے ضوابط کو اپنایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ بصارت سے محروم افراد کو صحت کی دیکھ بھال کے وسائل تک بہتر رسائی ہو، جیسے جیسے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے، زیادہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ان معیارات کو اپنا رہی ہیں، جو ایک محفوظ اور زیادہ جامع صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ کے صدر مظفر علی قریشی نے بتایا کہ نابینا افراد کے مستند اعدادوشمار قیام پاکستان سے لے کر اب تک مرتب ہی نہیں کیے جاسکے ہیں، اسی لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ سندھ سمیت ملک بھر میں کتنے مرد، خواتین، بزرگ اور بچے نابیناپن کا شکار ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا جواب تو سرکاری حکام ہی دے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری ایسوسی ایشن کے پاس سندھ میں 4 ہزار نابینا افراد رجسٹرڈ ہیں جن کی تعلیم، روزگار اور بحالی کے لیے ہم کام کرتے ہیں۔
مظفر علی قریشی کا کہنا تھا کہ ملک میں ادویات پر نابینا افراد کے لیے بریل لینگویج درج نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم نابینا افراد ادویات کی شناخت نہیں کرسکتے ہیں، حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
نابینا خاتون شاہدہ احمد نے بتایا کہ وہ مقامی نابینا اسکول میں ٹیچر ہیں جہاں بریل کے ذریعہ نابینا بچوں کو تعلیم دیتی ہیں، چند روز پہلے ان کی شوگر بڑھ گئی تھی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئیں جہاں انہوں نے دوا لکھ دی لیکن میڈیکل اسٹور والے اس ہی فارمولے کی دوسری کمپنی کی دوا دے دی اور مجھے انہوں نے اس حوالے سے بتایا لیکن اس دوا پر بریل لینگوئج ہوتی تو میں خود اس دوا کی شناخت کرلیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ادویات پر بریل لینگویج نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے، حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔
ڈس ایبلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے شعبہ قانون کے سربراہ رانا آصف نے بتایا کہ سندھ سمیت ملک بھر میں نابینا افراد کے لیے سرکاری سطح پر کوئی سہولیات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نابینا افراد کو اسپتالوں میں علاج کی کوئی خصوصی سہولت موجود نہیں ہے، سب سے بڑا مسئلہ ادویات پر بریل لینگوئج کا نہ ہونا ہے، ادویات بنانے والی کمپنیاں اپنی دوائی پر بریل لینگوئج کا اطلاق نہیں کرتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھی اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے جو افسوس ناک ہے، اس حوالے سے قوانین بنے چاہیں، اسی طرح نابینا افراد کو تعلیم دینے کے لیے سرکاری سطح پر بہت کم تعلیمی ادارے ہیں، جن کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایک بزرگ نابینا شخص ابراہیم نے بتایا کہ وہ ریٹائرڈ ملازم ہیں، نابینا افراد کے لیے ادویات پر بریل لینگویج کا اطلاق ہوجائے تو کسی کی مدد کے بغیر اپنی دوا خود لے سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ حکومت خصوصی افراد کو اس معاشرے کا شہری نہیں سمجھتی ہے۔
پاکستان فارماسیٹوئیکل ایسوسی ایشن کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ادویات پر بریل لینگویج نہیں ہوتی ہے، حکومت اگر اس حوالے سے ہدایت دے گی تو ہم اس پر عمل کریں گے، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ چار ارب ڈالر کی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل ورک کی میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹرنسرین اسلم نے بتایا کہ پاکستان میں نابینا سمیت خصوصی افراد کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان خصوصی افراد کا حکومت کی نظر میں کوئی مقام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نابینا افراد بھی ایسی معاشرے کا حصہ ہیں، ان کو ملازمتوں کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے، نہ ہی ان افراد کا کوئی مستند ڈیٹا ہے، نابینا افراد کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک جامع پالیسی بنانی ہوگی تاکہ نابینا افراد معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکیں۔
پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو عاصم رؤف نے ادویات کی پیکنگ پرایک سوال کے جواب میں بریل سے متعلق نابینا افراد کے حوالے سے بتایا کہ ادویات کی پیکنگ پر بریل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح معذور ڈس ایبل افراد کے لیے خصوصی طور پر اقدامات کیے جاتے ہیں اسی طرح نابینا افراد کے لیے ادویات کی پیکینگ پر بریل تحریر ہونی چاہییے، ایکسپریس کی جانب سے نابینا افراد کے لیے ادویات پر بریل تحریر نہ ہونے کے سوال کو بہترین نشان دہی قراردیا۔
نابینا افراد کو سرکاری ملازمتیں، شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے حصول سمیت ادویات کے پیکجوں پر بریل لینگویج نہ ہونے سے مختلف مسائل درپیش ہیں، بریل لینگویج ان بصارت سے محروم افراد کو دوائیوں کے نام، خوراک اور ادویات کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ کی درست طریقے سے شناخت کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، بریل لیبلنگ ادویات کا محفوظ استعمال یقینی بناتی ہے۔
ملک کے معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی نے بتایا کہ پاکستان میں تقریبا 20 لاکھ سے زائد افراد نابینا پن کا شکار ہیں جن میں سے صرف سندھ میں 3 لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد بینائی سے محروم ہیں، نابیناپن کی بڑی وجہ پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہونا، موتیا، اور ذیابطیس شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری طور پر ملک میں بینائی سے محروم افراد کا کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے، ماہرین امراض چشم کی رائے ہے کہ ملک کی کل آبادی کے 2 فیصد افراد اندھے پن کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نابیناپن کی فلاح وبہبود پر کام کرنے والی کوئی تنظیم یا ادارہ بغیر سروے کے کوئی مستند اعدادوشمار مرتب نہیں کرسکتا ہے، یہ ڈیٹا ماہرین امراض چشم اور سماجی ادارے اپنی رائے اور آنکھوں کی علاج کی روشنی میں دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دواؤں کے پیکجوں پر بریل اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بصارت سے محروم افراد ادویات اور ان کی ضروری معلومات جیسے نام، خوراک اور میعاد ختم ہونے کی تاریخ کو آزادانہ طور پر پہچان سکتے ہیں، یہ اقدام صحت کے انتظام میں رسائی، حفاظت اور خود مختاری کو بہتر بناتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی نے کہا کہ بہت سے ممالک اب فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے معذوری کے حقوق اور صحت کے ضوابط کی تعمیل کے لیے ادویات کی پیکیجنگ پر بریل لیبلنگ شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستان میں دواسازی کی مصنوعات پر بریل لیبلنگ نہیں ہے، جس کی وجہ سے نابینا افراد کو معلوم ہی نہیں چلتا کہ اس دوا کا نام کیا ہے، یہ کون سی کمپنی کی ہے اور اس کا فارمولا کیا ہے اور اس دوا کی مدت کب ختم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ادویات کے پیکجوں پر بریل کی شمولیت بصارت سے محروم افراد کے لیے رسائی اور حفاظت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ نابینا یا جزوی طور پر بینائی والے لوگوں کو مدد کے لیے دوسروں پر انحصار کیے بغیر آزادانہ طور پر دواؤں کی شناخت اور استعمال کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ خودمختاری خاص طور پر اس وقت اہم ہوتی ہے جب دوائی کے نام، خوراک اور میعاد ختم ہونے کی تاریخ کی درست طریقے سے شناخت کرنے کی ہو، جس سے دوائی کا مناسب اور محفوظ استعمال یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریل لیبلنگ ادویات کی غلطیوں کے خطرے کو کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے، جیسے کہ غلط دوا لینا یا غلط خوراک لینا، جو صحت کے منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہنواز منعمی کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالات میں ادویات کی درست معلومات تک فوری رسائی جان بچانے والی ہو سکتی ہے۔
مزید برآں، پیکیجنگ پر بریل فراہم کرنا نابینا افراد کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مساوات اور شمولیت کو فروغ دیتا ہے جو دیکھنے والے افراد کی طرح ضروری معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، عالمی سطح پر بہت سے ممالک نے دواسازی کی مصنوعات پر بریل کی ضرورت کے ضوابط کو اپنایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ بصارت سے محروم افراد کو صحت کی دیکھ بھال کے وسائل تک بہتر رسائی ہو، جیسے جیسے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے، زیادہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ان معیارات کو اپنا رہی ہیں، جو ایک محفوظ اور زیادہ جامع صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ کے صدر مظفر علی قریشی نے بتایا کہ نابینا افراد کے مستند اعدادوشمار قیام پاکستان سے لے کر اب تک مرتب ہی نہیں کیے جاسکے ہیں، اسی لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ سندھ سمیت ملک بھر میں کتنے مرد، خواتین، بزرگ اور بچے نابیناپن کا شکار ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا جواب تو سرکاری حکام ہی دے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری ایسوسی ایشن کے پاس سندھ میں 4 ہزار نابینا افراد رجسٹرڈ ہیں جن کی تعلیم، روزگار اور بحالی کے لیے ہم کام کرتے ہیں۔
مظفر علی قریشی کا کہنا تھا کہ ملک میں ادویات پر نابینا افراد کے لیے بریل لینگویج درج نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم نابینا افراد ادویات کی شناخت نہیں کرسکتے ہیں، حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
نابینا خاتون شاہدہ احمد نے بتایا کہ وہ مقامی نابینا اسکول میں ٹیچر ہیں جہاں بریل کے ذریعہ نابینا بچوں کو تعلیم دیتی ہیں، چند روز پہلے ان کی شوگر بڑھ گئی تھی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئیں جہاں انہوں نے دوا لکھ دی لیکن میڈیکل اسٹور والے اس ہی فارمولے کی دوسری کمپنی کی دوا دے دی اور مجھے انہوں نے اس حوالے سے بتایا لیکن اس دوا پر بریل لینگوئج ہوتی تو میں خود اس دوا کی شناخت کرلیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ادویات پر بریل لینگویج نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے، حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔
ڈس ایبلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے شعبہ قانون کے سربراہ رانا آصف نے بتایا کہ سندھ سمیت ملک بھر میں نابینا افراد کے لیے سرکاری سطح پر کوئی سہولیات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نابینا افراد کو اسپتالوں میں علاج کی کوئی خصوصی سہولت موجود نہیں ہے، سب سے بڑا مسئلہ ادویات پر بریل لینگوئج کا نہ ہونا ہے، ادویات بنانے والی کمپنیاں اپنی دوائی پر بریل لینگوئج کا اطلاق نہیں کرتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھی اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے جو افسوس ناک ہے، اس حوالے سے قوانین بنے چاہیں، اسی طرح نابینا افراد کو تعلیم دینے کے لیے سرکاری سطح پر بہت کم تعلیمی ادارے ہیں، جن کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایک بزرگ نابینا شخص ابراہیم نے بتایا کہ وہ ریٹائرڈ ملازم ہیں، نابینا افراد کے لیے ادویات پر بریل لینگویج کا اطلاق ہوجائے تو کسی کی مدد کے بغیر اپنی دوا خود لے سکتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ حکومت خصوصی افراد کو اس معاشرے کا شہری نہیں سمجھتی ہے۔
پاکستان فارماسیٹوئیکل ایسوسی ایشن کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ادویات پر بریل لینگویج نہیں ہوتی ہے، حکومت اگر اس حوالے سے ہدایت دے گی تو ہم اس پر عمل کریں گے، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ چار ارب ڈالر کی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل ورک کی میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹرنسرین اسلم نے بتایا کہ پاکستان میں نابینا سمیت خصوصی افراد کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان خصوصی افراد کا حکومت کی نظر میں کوئی مقام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نابینا افراد بھی ایسی معاشرے کا حصہ ہیں، ان کو ملازمتوں کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے، نہ ہی ان افراد کا کوئی مستند ڈیٹا ہے، نابینا افراد کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایک جامع پالیسی بنانی ہوگی تاکہ نابینا افراد معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکیں۔
پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو عاصم رؤف نے ادویات کی پیکنگ پرایک سوال کے جواب میں بریل سے متعلق نابینا افراد کے حوالے سے بتایا کہ ادویات کی پیکنگ پر بریل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح معذور ڈس ایبل افراد کے لیے خصوصی طور پر اقدامات کیے جاتے ہیں اسی طرح نابینا افراد کے لیے ادویات کی پیکینگ پر بریل تحریر ہونی چاہییے، ایکسپریس کی جانب سے نابینا افراد کے لیے ادویات پر بریل تحریر نہ ہونے کے سوال کو بہترین نشان دہی قراردیا۔