سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی تک مریضوں کی ایمبولینس سے منتقلی میں رکاوٹیں
اسپتالوں کے اطراف تجاوزات کے قیام میں مافیا سرگرم ہوتی ہے
تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں تین سے زائد بڑے سرکاری اسپتال ہیں جن میں جناح، عباسی اسپتالوں سمیت قومی ادارہ برائے امراض قلب اور قومی ادارہ برائے اطفال و صحت شامل ہیں، یہ اسپتال گنجان آبادی والے علاقوں اور شاہراہوں پر واقع ہیں لیکن ایمرجنسی تک مریضوں کی ایمبولینس کے ذریعے منتقلی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔
کراچی کے ان اسپتالوں کے اطراف غلط پارکنگ، تجاوزات، لوگوں کا رش، غلط سمت سے گاڑی آنے اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس سروسز شدید متاثر ہوتی ہیں، یومیہ ان اسپتالوں کی ایمرجنسی میں 4500 سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں جو مختلف حادثات و واقعات سمیت امراض کا شکار ہوتے ہیں، کسی بھی احتجاج اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس سروسز کو راستہ ملنا کسی بھی اہم شاہراہ پر مشکل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
ریسکیو سروسز پلانر کا کہنا ہے کہ ان اسپتالوں کو تو منتقل نہیں کیا جا سکتا لیکن ٹریفک مینجمنٹ پلان مرتب کرکے ان مسائل سے نجات پائی جا سکتی ہے، ٹریفک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایمبولینس سروسز کو راستہ دینے کے لیے ٹریفک پولیس ہر ممکن کردار ادا کرتی ہے، محکمہ صحت کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز نے کراچی کے اہم سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی تک مریضوں کی ایمبولینس سروسز کے ذریعے منتقلی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔
ٹراما سروسز شعبہ کے ماہر کاشف بھٹی نے بتایا کہ کراچی کا شمار ملک کے سب سے بڑے آبادی والے شہر میں ہوتا ہے، اندازاً تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں ایمرجنسی سروسز کے لیے چند بڑے اسپتال ہیں، یہ اسپتال گنجان آباد علاقوں اور شاہراہوں پر قائم ہیں، ان میں رفیقی شہید روڈ پر قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی)، قومی ادارہ برائے امراض اطفال (این آئی سی ایچ)، جناح اسپتال، دی کڈنی سینٹر، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، ڈبلیو ایچ او آفس، محکمہ صحت ادویات کی آئی آئی ڈپو اور سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے دفاتر، اسی طرح ایم اے جناح روڈ پر ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال، شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر، ایس آئی یو ٹی، ڈاو میڈیکل یونیورسٹی، سندھ گورنمنٹ سروسز اسپتال، سندھ کمیمیکل ایگزامینشن آفس، سمیت دیگر دفاتر قائم ہیں جبکہ ناظم آباد میں عباسی شہید اسپتال شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اسپتال ایسی شاہراہوں پر موجود ہیں جہاں ہر وقت ٹریفک کا رش ہوتا ہے، خصوصاً سول اسپتال اور ٹراما سینٹر شہر کے مرکز میں واقع ہیں، جہاں بڑی مارکیٹیں اور بازار موجود ہیں جبکہ جناح اسپتال، بچوں اور امراض قلب کے اسپتال، شاہراہ فیصل سے منسلک رفیقی شہید روڈ پر ہیں، یہاں پر بھی ٹریفک کا رش اور عوام کی نقل و حرکت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ٹراما سروسز کے ماہر عمران الحق نے بتایا کہ کراچی کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات ایمرجنسی کے لیے 24 گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں، ان میں حادثات اور دیگر واقعات کے مریض لائے جاتے ہیں جبکہ امراض قلب کے لیے این آئی سی وی ڈی اور بچوں کے امراض کے لیے این آئی سی ایچ موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اسپتال جن شاہراہوں پر موجود ہیں، وہاں تجاوزات، غلط پارکنگ اور ٹریفک کے رش کی وجہ سے ایمبولینسز کی نقل و حمل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کراچی کی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی عدم توجہ کی وجہ سے ان شاہراہوں پر ایمبولینس کے لیے کوئی مخصوص لائن مختص نہیں ہے، اگر کوئی احتجاج یا کسی واقعے کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جائے تو ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے بعض دفعہ افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں۔
ایک مقامی کمپنی کے ملازم فرحان نے بتایا کہ ان کے بہنوئی ناظم آباد میں رہائش پذیر ہیں، حالیہ دنوں میں ان کو دل کا دورہ پڑا، فوری طور پر ایمبولینس بلوا کر انہیں پہلے عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں این آئی سی وی ڈی منتقل کرنے کی ہدایت کی، جب انہیں ایمبولینس کے ذریعہ مذکورہ اسپتال لے جایا گیا تو گولیمار، لسبیلہ اور گرومندر اور صدر میں ٹریفک جام کی وجہ سے ان کی ایمبولینس کافی دیر تک پھنسی رہی، جس کی وجہ سے ان کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ تاہم ایمبولینس کے ڈرائیور کی جانب سے مسلسل سائرن بجاکر راستہ طلب کیا گیا۔ بہت مشکل سے انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انہیں فوری طبی امداد دی گئی۔
ڈاکٹرز نے کہا کہ اگر آپ 10 منٹ اور لیٹ ہو جاتے تو مریض کو بچانا مشکل ہو جاتا، تاہم خدا نے خیر کی اور ان کی زندگی بچ گئی، انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے، بڑے اسپتالوں کی ایمرجنسی کے اطراف رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیں۔
مقامی ہوٹل کے مالک وزیر خان نے بتایا کہ ان کے بھائی کا سہراب گوٹھ پر موٹر سائیکل کا دوران سفر حادثہ ہو گیا، جس کی وجہ سے دائیں ٹانگ کی دو جگہ سے ہڈی ٹوٹ گئی، انہیں ایمبولینس کے ذریعہ ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا، تاہم اس دوران لیاقت آباد اور ایم اے جناح روڈ پر مختلف مقامات پر رش کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ نہیں ملا اور ایک گھنٹے تاخیر سے اسپتال پہنچے، دوران سفر ان کے بھائی کو شدید تکلیف ہوتی رہی، تاہم ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ ملنے میں مشکلات درپیش آئیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی شاہراہوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینسز کو راستہ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
ریسکیو ادارے کے ترجمان نے بتایا کہ کراچی کے بڑی سرکاری اسپتالوں جناح، سول اور عباسی شہید ایسے مقامات پر واقع ہیں، جہاں پر اطراف میں صبح 7 بجے سے رات گئے تک ٹریفک جام رہنا معمول کی بات ہے، ایمرجنسی کیسز انہیں اسپتال میں آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب کسی مریض کو اسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس سروس کی خدمات لی جاتی ہیں تو ایمبولینس فوری طور پر مذکورہ مریض کو لینے کے لیے مطلوبہ مقام پر پہنچ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مریض کو اسپتال لے جانے کے لیے جب ایمبولینس مذکورہ مقام پر جاتی ہے تو راستے میں رش اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کو پہنچنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مریض کو ایمبولینس میں منتقل کرنے کے بعد جب بڑے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا جاتا ہے تو دوران تجاوزات، غلط پارکنگ اور لوگوں کی سڑکوں پر آمد ورفت غلط سمت میں گاڑیوں کے آنے سمیت مختلف مسائل کی وجہ سے شاہراہوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے اور ایمبولینسز پھنس جاتی ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو بہت مشکل ہوتی ہے، بعض دفعہ افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اہم سرکاری اسپتالوں کے اطراف شاہراہوں پر تجاوزات کا خاتمہ کرے اور اہم شاہراہوں پر ایک لائن ایمبولینس سروسز کے لیے مختص کی جائیں۔
ریسکیو سروسز پلانر سعید جدون نے بتایا کہ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال قدیم آبادی میں قائم ہیں، اس لیے ان اسپتالوں کو ٹریفک جام کی شکایت پر منتقل نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر حکومت مرکزی شاہراہوں پر ایمبولینس سروسز کو راستہ دینے کے لیے ٹریفک مینجمنٹ پلان مرتب کرے تو ہم اس مسئلے سے نجات پا سکتے ہیں، اس کے لیے تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔
جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 1200 سے 1500 مریض لائے جاتے ہیں، اسپتال کے باہر ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کی آمدورفت اور مریضوں کی منتقلی میں پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
سول اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ ایک ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر صابر میمن نے بتایا کہ ٹراما سینٹر میں روزانہ 800 سے زائد مریض لائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سول اسپتال اور ٹراما سینٹر ایم اے جناح روڈ پر واقع ہیں، رش کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال آنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
عباسی شہید کے ایم ایس ڈاکٹر جاوید نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 600 سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، مختلف شاہراہوں اور اسپتال کے اطراف تجاوزات اور ٹریفک جام کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
این آئی سی وی ڈی کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر طارق شیخ نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 1000سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، اسپتال جس روٹ پر قائم ہے، وہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ رفیقی شہید روڈ پر ایسا ٹریفک پلان مرتب کریں، جس کی وجہ سے ایمبولینس سروسز بلا کسی رکاوٹ کے جاری رہیں۔
کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات کے حکام نے بتایا کہ شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن بلاتعطل جاری رہتا ہے۔
ٹریفک پولیس کے حکام نے بتایا کہ شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے اطراف ایمبولینس سروسز کی خدمات کو بلاتعطل جاری رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس کا عملہ ہر ممکن اقدام کرتا ہے اور رش میں پھنس جانے والی ایمبولینس کو راستہ بنانے کے لیے بھی ٹریفک پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
کراچی میں سرکاری اور نجی اسپتالوں کے اطراف تجاوزات سمیت رکشہ، ٹیکسی اور بائیکا کے اسٹینڈ قائم ہیں جبکہ ان اسپتالوں کی شعبہ حادثات کے اطراف، مارکیٹیں، دکانیں، میڈیکل اسٹور باقائدہ قائم ہیں، اسپتالوں کے اطراف میں غیر قانونی اسٹریٹ وینڈرز اور چھوٹے کاروبار کرنے والے اسٹالز ہوتے ہیں جو اسپتال میں آنے جانے والے مریضوں کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
ان تجاوزات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سب سے اہم مسائل میں سے ایک اسپتالوں کے شعبہ حادثات تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال کے شعبہ حادثات میں لانے والی ایمبولینس ڈرائیورں کو مشکلات پیش آتی ہیں اور مریضوں کے فوری طبی امداد میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
بیشتر اسپتالوں میں گاڑیاں اور موٹرسائکلیں بے ترتیب کھڑی رہتی ہے یہ بھی مریضوں کے طبی حصول میں روکاوٹ بنتی ہیں، اس کے علاوہ بیشتر اسپتالوں میں مریضوں کے لیے ریمپ بھی موجود نہیں، اسپتالوں کے اطراف ہونے والی تجاوزات کا خاتمہ کرنا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسپتالوں کے اطراف تجاوزات کے قیام میں مافیا سرگرم ہوتی ہے، اسپتالوں کے اطراف میں قائم تجاوزات اسپتال کی سیکیورٹی کے لیے بھی مستقل سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، اسپتال کے اطراف کھڑی کی جانے والی گاڑیوں کے سامان چوری کے بھی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
کراچی کے ان اسپتالوں کے اطراف غلط پارکنگ، تجاوزات، لوگوں کا رش، غلط سمت سے گاڑی آنے اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس سروسز شدید متاثر ہوتی ہیں، یومیہ ان اسپتالوں کی ایمرجنسی میں 4500 سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں جو مختلف حادثات و واقعات سمیت امراض کا شکار ہوتے ہیں، کسی بھی احتجاج اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس سروسز کو راستہ ملنا کسی بھی اہم شاہراہ پر مشکل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
ریسکیو سروسز پلانر کا کہنا ہے کہ ان اسپتالوں کو تو منتقل نہیں کیا جا سکتا لیکن ٹریفک مینجمنٹ پلان مرتب کرکے ان مسائل سے نجات پائی جا سکتی ہے، ٹریفک پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایمبولینس سروسز کو راستہ دینے کے لیے ٹریفک پولیس ہر ممکن کردار ادا کرتی ہے، محکمہ صحت کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز نے کراچی کے اہم سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی تک مریضوں کی ایمبولینس سروسز کے ذریعے منتقلی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔
ٹراما سروسز شعبہ کے ماہر کاشف بھٹی نے بتایا کہ کراچی کا شمار ملک کے سب سے بڑے آبادی والے شہر میں ہوتا ہے، اندازاً تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں ایمرجنسی سروسز کے لیے چند بڑے اسپتال ہیں، یہ اسپتال گنجان آباد علاقوں اور شاہراہوں پر قائم ہیں، ان میں رفیقی شہید روڈ پر قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی)، قومی ادارہ برائے امراض اطفال (این آئی سی ایچ)، جناح اسپتال، دی کڈنی سینٹر، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، ڈبلیو ایچ او آفس، محکمہ صحت ادویات کی آئی آئی ڈپو اور سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے دفاتر، اسی طرح ایم اے جناح روڈ پر ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال، شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر، ایس آئی یو ٹی، ڈاو میڈیکل یونیورسٹی، سندھ گورنمنٹ سروسز اسپتال، سندھ کمیمیکل ایگزامینشن آفس، سمیت دیگر دفاتر قائم ہیں جبکہ ناظم آباد میں عباسی شہید اسپتال شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اسپتال ایسی شاہراہوں پر موجود ہیں جہاں ہر وقت ٹریفک کا رش ہوتا ہے، خصوصاً سول اسپتال اور ٹراما سینٹر شہر کے مرکز میں واقع ہیں، جہاں بڑی مارکیٹیں اور بازار موجود ہیں جبکہ جناح اسپتال، بچوں اور امراض قلب کے اسپتال، شاہراہ فیصل سے منسلک رفیقی شہید روڈ پر ہیں، یہاں پر بھی ٹریفک کا رش اور عوام کی نقل و حرکت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ٹراما سروسز کے ماہر عمران الحق نے بتایا کہ کراچی کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات ایمرجنسی کے لیے 24 گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں، ان میں حادثات اور دیگر واقعات کے مریض لائے جاتے ہیں جبکہ امراض قلب کے لیے این آئی سی وی ڈی اور بچوں کے امراض کے لیے این آئی سی ایچ موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اسپتال جن شاہراہوں پر موجود ہیں، وہاں تجاوزات، غلط پارکنگ اور ٹریفک کے رش کی وجہ سے ایمبولینسز کی نقل و حمل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کراچی کی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی عدم توجہ کی وجہ سے ان شاہراہوں پر ایمبولینس کے لیے کوئی مخصوص لائن مختص نہیں ہے، اگر کوئی احتجاج یا کسی واقعے کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جائے تو ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے بعض دفعہ افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں۔
ایک مقامی کمپنی کے ملازم فرحان نے بتایا کہ ان کے بہنوئی ناظم آباد میں رہائش پذیر ہیں، حالیہ دنوں میں ان کو دل کا دورہ پڑا، فوری طور پر ایمبولینس بلوا کر انہیں پہلے عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں این آئی سی وی ڈی منتقل کرنے کی ہدایت کی، جب انہیں ایمبولینس کے ذریعہ مذکورہ اسپتال لے جایا گیا تو گولیمار، لسبیلہ اور گرومندر اور صدر میں ٹریفک جام کی وجہ سے ان کی ایمبولینس کافی دیر تک پھنسی رہی، جس کی وجہ سے ان کی حالت مزید خراب ہو گئی۔ تاہم ایمبولینس کے ڈرائیور کی جانب سے مسلسل سائرن بجاکر راستہ طلب کیا گیا۔ بہت مشکل سے انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انہیں فوری طبی امداد دی گئی۔
ڈاکٹرز نے کہا کہ اگر آپ 10 منٹ اور لیٹ ہو جاتے تو مریض کو بچانا مشکل ہو جاتا، تاہم خدا نے خیر کی اور ان کی زندگی بچ گئی، انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے، بڑے اسپتالوں کی ایمرجنسی کے اطراف رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیں۔
مقامی ہوٹل کے مالک وزیر خان نے بتایا کہ ان کے بھائی کا سہراب گوٹھ پر موٹر سائیکل کا دوران سفر حادثہ ہو گیا، جس کی وجہ سے دائیں ٹانگ کی دو جگہ سے ہڈی ٹوٹ گئی، انہیں ایمبولینس کے ذریعہ ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا، تاہم اس دوران لیاقت آباد اور ایم اے جناح روڈ پر مختلف مقامات پر رش کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ نہیں ملا اور ایک گھنٹے تاخیر سے اسپتال پہنچے، دوران سفر ان کے بھائی کو شدید تکلیف ہوتی رہی، تاہم ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ ملنے میں مشکلات درپیش آئیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی شاہراہوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینسز کو راستہ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
ریسکیو ادارے کے ترجمان نے بتایا کہ کراچی کے بڑی سرکاری اسپتالوں جناح، سول اور عباسی شہید ایسے مقامات پر واقع ہیں، جہاں پر اطراف میں صبح 7 بجے سے رات گئے تک ٹریفک جام رہنا معمول کی بات ہے، ایمرجنسی کیسز انہیں اسپتال میں آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب کسی مریض کو اسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس سروس کی خدمات لی جاتی ہیں تو ایمبولینس فوری طور پر مذکورہ مریض کو لینے کے لیے مطلوبہ مقام پر پہنچ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مریض کو اسپتال لے جانے کے لیے جب ایمبولینس مذکورہ مقام پر جاتی ہے تو راستے میں رش اور ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کو پہنچنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مریض کو ایمبولینس میں منتقل کرنے کے بعد جب بڑے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا جاتا ہے تو دوران تجاوزات، غلط پارکنگ اور لوگوں کی سڑکوں پر آمد ورفت غلط سمت میں گاڑیوں کے آنے سمیت مختلف مسائل کی وجہ سے شاہراہوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے اور ایمبولینسز پھنس جاتی ہیں، جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو بہت مشکل ہوتی ہے، بعض دفعہ افسوس ناک واقعات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اہم سرکاری اسپتالوں کے اطراف شاہراہوں پر تجاوزات کا خاتمہ کرے اور اہم شاہراہوں پر ایک لائن ایمبولینس سروسز کے لیے مختص کی جائیں۔
ریسکیو سروسز پلانر سعید جدون نے بتایا کہ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال قدیم آبادی میں قائم ہیں، اس لیے ان اسپتالوں کو ٹریفک جام کی شکایت پر منتقل نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر حکومت مرکزی شاہراہوں پر ایمبولینس سروسز کو راستہ دینے کے لیے ٹریفک مینجمنٹ پلان مرتب کرے تو ہم اس مسئلے سے نجات پا سکتے ہیں، اس کے لیے تمام اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔
جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نوشین نے بتایا کہ جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 1200 سے 1500 مریض لائے جاتے ہیں، اسپتال کے باہر ٹریفک جام کی وجہ سے ایمبولینس کی آمدورفت اور مریضوں کی منتقلی میں پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
سول اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ ایک ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، شہید بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر صابر میمن نے بتایا کہ ٹراما سینٹر میں روزانہ 800 سے زائد مریض لائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سول اسپتال اور ٹراما سینٹر ایم اے جناح روڈ پر واقع ہیں، رش کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال آنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
عباسی شہید کے ایم ایس ڈاکٹر جاوید نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 600 سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، مختلف شاہراہوں اور اسپتال کے اطراف تجاوزات اور ٹریفک جام کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
این آئی سی وی ڈی کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر طارق شیخ نے بتایا کہ اسپتال کی ایمرجنسی میں روزانہ 1000سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں، اسپتال جس روٹ پر قائم ہے، وہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ رفیقی شہید روڈ پر ایسا ٹریفک پلان مرتب کریں، جس کی وجہ سے ایمبولینس سروسز بلا کسی رکاوٹ کے جاری رہیں۔
کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات کے حکام نے بتایا کہ شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن بلاتعطل جاری رہتا ہے۔
ٹریفک پولیس کے حکام نے بتایا کہ شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے اطراف ایمبولینس سروسز کی خدمات کو بلاتعطل جاری رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس کا عملہ ہر ممکن اقدام کرتا ہے اور رش میں پھنس جانے والی ایمبولینس کو راستہ بنانے کے لیے بھی ٹریفک پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
کراچی میں سرکاری اور نجی اسپتالوں کے اطراف تجاوزات سمیت رکشہ، ٹیکسی اور بائیکا کے اسٹینڈ قائم ہیں جبکہ ان اسپتالوں کی شعبہ حادثات کے اطراف، مارکیٹیں، دکانیں، میڈیکل اسٹور باقائدہ قائم ہیں، اسپتالوں کے اطراف میں غیر قانونی اسٹریٹ وینڈرز اور چھوٹے کاروبار کرنے والے اسٹالز ہوتے ہیں جو اسپتال میں آنے جانے والے مریضوں کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
ان تجاوزات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سب سے اہم مسائل میں سے ایک اسپتالوں کے شعبہ حادثات تک رسائی میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال کے شعبہ حادثات میں لانے والی ایمبولینس ڈرائیورں کو مشکلات پیش آتی ہیں اور مریضوں کے فوری طبی امداد میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
بیشتر اسپتالوں میں گاڑیاں اور موٹرسائکلیں بے ترتیب کھڑی رہتی ہے یہ بھی مریضوں کے طبی حصول میں روکاوٹ بنتی ہیں، اس کے علاوہ بیشتر اسپتالوں میں مریضوں کے لیے ریمپ بھی موجود نہیں، اسپتالوں کے اطراف ہونے والی تجاوزات کا خاتمہ کرنا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسپتالوں کے اطراف تجاوزات کے قیام میں مافیا سرگرم ہوتی ہے، اسپتالوں کے اطراف میں قائم تجاوزات اسپتال کی سیکیورٹی کے لیے بھی مستقل سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، اسپتال کے اطراف کھڑی کی جانے والی گاڑیوں کے سامان چوری کے بھی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔