معاشی اصلاحات کے ثمرات

ایڈیٹوریل  ہفتہ 28 ستمبر 2024

آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے پروگرام کی منظوری کے بعد بیل آؤٹ پیکیج کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کردی ہے۔ دوسری جانب نیو یارک میں وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات میں ادارے کے تعاون کو سراہا ہے جب کہ ورلڈ بینک کے صدر سے ملاقات میں عالمی بینک کی جانب سے حکومت پاکستان کے ساتھ اقتصادی اصلاحات، غربت میں کمی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی سمیت پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کو سراہا۔

عالمی مالیاتی ادارے کے بورڈ توثیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری یا کم از کم بڑی طاقتیں ملک کی موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔ اسلام آباد حکومت کے بارے میں عالمی سطح پر بے اعتمادی موجود نہیں ہے۔ یہ اشارہ ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی مثبت طور سے اثر انداز ہوگا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھی اس کا اثر پڑنا چاہیے۔ اب ملک کے ان سیاسی عناصر کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا چاہیے، جو عالمی سطح پر موجودہ حکومت کے خلاف کوششیں کرتے رہے ہیں۔

اس طرح داخلی سیاسی ماحول میں بہتری کا امکان روشن ہو گا۔آئی ایم ایف کا پیکیج ملکی معیشت کے لیے اس حد تک اچھی خبر ہے کہ اب ان دوست ملکوں سے سرمایہ کاری کا امکان پیدا ہوگا جو اس سلسلے میں وعدے کرتے رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری آنے سے ملک میں روزگار کی صورت حال بہتر ہوگی اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا، اس طرح حکومت کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر مثبت ہوگا جس کی وجہ سے پاکستان مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لے سکے گا۔

آئی ایم ایف کے پروگرام سے کرنسی مستحکم ہوتی ہے اور ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن ہوتا ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور عام آدمی کو یقیناً ان سب کے فوائد مل سکتے ہیں۔ بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام آیا ہے، پالیسی ریٹ میں بہتری آئی ہے اور چند ماہ میں 4.5 فی صد کمی آنے کی وجہ سے صنعتوں میں سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے سے بھی لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ روپے کی قدر بھی بہتر ہو رہی ہے۔ رئیل ریلیف کا مطلب یہ ہے کہ اگر معیشت مستحکم ہوگی تو صنعتیں چلیں گی جس کی وجہ سے بیروزگاری میں کمی ہوگی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی پچھلی پی ڈی ایم حکومت جون 2023 میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے 9 ماہ پر محیط اسٹینڈ بائی پیکیج لینے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یہ امداد لینے کے لیے پاکستان کو سخت معاشی اقدامات کرنے پڑے تھے جن کا زیادہ تر بوجھ پاکستان کے غریب اور متوسط عوام کے کاندھوں پر پڑا تھا۔ البتہ اس امداد کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بھی بچ گیا اور پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں قائم ہونے والی نگران حکومت کے دور میں سخت معاشی اقدامات کے نتیجے میں معاشی بہتری کے متعدد اشاریے دیکھنے میں آئے۔

ان مثبت تبدیلیوں کا اعتراف عالمی مالی اداروں کی طرف سے بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے میں کامیاب ہوا ہے اور اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ میں کمی کا رجحان ختم ہو چکا ہے۔ طویل عرصہ کے بعد اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کی ہے جو اس وقت ساڑھے سترہ فیصد ہے۔ یہ مثبت اشاریے ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے اہم سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط میں حکومتی مالیات مستحکم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور سرکاری ملکیت میں چلنے والے اداروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ یعنی انھیں منافع بخش بنانے کی شرائط شامل ہیں۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ دوست ممالک سے قرض لے کر زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے اور ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کرنے والے ملک کے لیے یہ مقاصد حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ معاشی ابتری سے نکالنے کے بعد پیداواری صلاحیت میں اضافے کی طرف گامزن کرنے کا سخت اور مشکل کام درپیش ہے۔ دنیا کی تاریخ میں متعدد قوموں نے یہ مقصد حاصل کیا ہے اور تباہ شدہ معیشت کو کامیاب پیداواری مشینری میں تبدیل کر کے اپنے عوام کے لیے خوشحالی کا سامان مہیا کیا ہے۔ پاکستان بھی یہ مقصد حاصل کر سکتا ہے تاہم اس کے لیے عزم و ارادے کے علاوہ سیاسی استحکام اور معاشی ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں افراط زر حالیہ برسوں میں ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں مزید کمی کر کے اسے 17.5 فیصد کر دیا ہے۔

شرح سود میں کمی کاروبار کے فروغ کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے سرمایہ کاری میں اضافے کے ساتھ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ شرح سود میں کمی کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عوام کو گھریلو قرضوں اور کاروباری قرضوں کی واپسی میں آسانی ہوگی، جس کا براہ راست اثر ان کی قوت خرید پر پڑتا ہے۔ اس سے داخلی مارکیٹ میں طلب بڑھے گی، جس کا مثبت اثر پیداوار اور روزگار پر پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت کا ایک اہم ستون اس کا زرعی شعبہ ہے، جو کہ ملک کی کل جی ڈی پی کا تقریباً 19 فیصد ہے اور لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش ہے۔ زرعی پیداوار کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومت نے حالیہ برسوں میں متعدد اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ بہتر بیجوں کا استعمال، آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانا اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی زرعی پیداوار میں نمایاں بہتری آئی ہے، جو نہ صرف خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہمیشہ سے ملکی برآمدات کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ حکومت نے ٹیکسٹائل کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں جیسے کہ فارماسیوٹیکلز، آئی ٹی اور آٹو موبائلز میں بھی اصلاحات متعارف کرائی ہیں، تاکہ پاکستان کی برآمدات کو عالمی سطح پر مزید مستحکم کیا جا سکے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی سیاحتی صنعت کو سالانہ 20 سے 30 ارب ڈالر تک پہنچایا جا سکتا ہے، اگر ملک سیاحتی انفرا اسٹرکچر کو بہتر کرے اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے سہولیات فراہم کرے۔

پاکستان کی معیشت کو عالمی سطح پر مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سی پیک ( چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور) جیسے بڑے منصوبے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سی پیک کے تحت بننے والے صنعتی زونز، توانائی کے منصوبے اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی سے ملکی معیشت میں انقلاب برپا ہونے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کی کوشش ہے کہ دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی بڑھائی جائے، جس سے ملکی برآمدات کو فروغ ملے گا۔

ایک خبر کے مطابق حکومت نے پانچ آئی پی پیز بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، سو کے قریب آئی پی پیز کے ساتھ منافع میں کمی کے لیے بات چیت جاری رکھنے کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک بھر میں بجلی صارفین پر بے شمار بے تحاشا بوجھ ڈالنے اور بجلی بلوں میں مسلسل اضافے کے اقدام نے عام غریب صارفین کو بجلی بلوں کی ادائیگی کے کسی طور قابل نہیں رہنے دیا۔

دوسری جانب ذرایع ابلاغ نے اس ساری صورتحال کو واضح کرتے ہوئے ایسی تقسیم کار کمپنیوں کی نشاندہی کی جو سسٹم میں ایک یونٹ بجلی شامل کیے بغیر اربوں ڈالرز سالانہ منافع حاصل کرنے میں مصروف ہیں، حقیقت آشکار ہونے پر عوامی سطح پر سوال اٹھائے جانے لگے تو آئی پی پیز کے حوالے سے حکومت نے اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے ان تقسیم کار کمپنیوں کے ساتھ نہ صرف بات چیت کا آغاز کر دیا ہے اور خود حکومتی آئی پی پیز میں سے بعض کی بندش پر آمادگی ظاہرکی ہے بلکہ اب کہا جا رہا ہے کہ دیگر کئی کمپنیوں نے قیمتوں میں کمی کے حوالے سے لچک ظاہر کردی ہے۔

اس مسئلے کا مستقل حل ضروری ہے جس کے بغیر نہ عوام کو ریلیف ملے گا نہ ملکی معیشت درست سمت پر گامزن ہو سکے گی۔ شرح سود میں کمی، زرعی اور صنعتی شعبوں میں اصلاحات اور سیاحت کے فروغ جیسے اقدامات پاکستانی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل ابھی موجود ہیں لیکن ان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے قوم کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔ معاشی اصلاحات کا تسلسل اور عوام کے تعاون سے پاکستان نہ صرف ان مشکلات سے نکلے گا بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، اور اگر ہم مل کر محنت کریں اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اْبھرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔