شرپسندوں اورلوٹ مارکرنیوالوں کو سزا ملنی چاہیے
اخبارات میں شایع ہونے والی تفصیل کے مطابق کراچی سمیت ملک بھر میں 7 بینکوں، 9 سینما گھروں،۔۔۔
ملک میں اس روز انارکی کا عالم تھا۔ فوٹو ظفر اسلم
لاہور:
جمعے کو پاکستان کے شہروں میں لاقانونیت کا جو مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔
اسے کوئی مہذب اور قانون پسند شہری درست قرار نہیں دے سکتا۔ امریکا میںتیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف پاکستان میں مظاہروں اور جلوسوں کا جو طریقہ کار اپنایا گیا'اس میں پرامن رہنے کی منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔
سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے اپنے بیانات سے فضا کو جذباتی بنا رکھا تھا۔ادھر جلوسوں اور ریلیوں نکالنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ہر کوئی اپنی دکان چمکانے کے لیے میدان میں نکل آیا۔ اس موقع پر ٹاپ لیڈر شپ خود غائب رہی اور کارکنوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ یوں کراچی' لاہور' اسلام آباد' راولپنڈی' پشاور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں جلوسوں کی آڑ میں شر پسندوں اور قانون شکنوں کو مکمل کھیلنے کا موقع مل گیا۔
ہفتے کو اخبارات میں لوٹ مار اور قتل وغارت کی جو تفصیلات شایع ہوئی ہیں انھیں پڑھ کر پاکستان ایک ایسے ملک کی تصویر پیش کر رہا ہے جہاں ریاستی ادارے کمزور پڑ گئے ہیں، قانون شکن اور شرپسند جس عمارت یا دفتر کو چاہیں آگ لگا دیں' اور جس دکان کو چاہیں لوٹ لیں۔ اے ٹی ایم مشینوں پر حملے کیے گئے۔
اخبارات میں شایع ہونے والی تفصیل کے مطابق کراچی سمیت ملک بھر میں سات بینکوں' نو سینما گھروں' دو غیرملکی ریسٹورینٹ' ایک پٹرول پمپ' چار پولیس موبائلوں اور ایک بکتربند گاڑی سمیت متعدد نجی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔پشاور میں تو پاگل پن کی حالت یہ تھی کہ وہاں شرپسندوں نے پارک میں گھس کر بچوں کے کھیلنے کے جھولے اور دوسری چیزوں کو تباہ کر دیا۔
یہ صورت حال جہاں حکومت کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے وہاں جلسے جلوسوں کی قیادت کرنے کے شوقین رہنماؤں کے لیے بھی باعث ندامت و دکھ ہونی چاہیے۔ ٹی وی اسکرین پر گھیراؤ جلاؤ کے جو مناظر چلے ہیں، انھیں دیکھ کر پاکستان کا ہر پرامن شہری پریشان ہوا ہے۔ ان مناظر کا مشاہدہ پاکستان میں مقیم غیرملکی سفیروں نے بھی کیا ہوگا اور وہ یقیناً اس صورت حال سے لطف اندوز بھی ہوئے ہوں گے۔
پاکستان میں سیاسی قیادت ہو یا دینی قیادت' سب کا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیے بغیر پاپولر لہر کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر جذباتی بیانات جاری کرتے ہیں۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو عوام میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ یوں عوام خاص طور پر مختلف تنظیموں کے نوجوان کارکن اصل صورت حال سے باخبر نہیں ہو پاتے اور جب وہ سڑکوں پر آتے ہیں تو حالات خراب ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال میں ہجوم میں شامل شرپسند اپنا کھیل شروع کر دیتے ہیں۔ یوم عشق رسولﷺ کا تقاضا تو یہ تھا کہ جمعتہ المبارک کو علماء کرام و مشائخ عظام مساجد میں خطبہ جمعہ کے دوران سیرت النبیﷺ پر روشنی ڈالتے' نبی پاکﷺ کا غیرمسلموں سے حُسن سلوک بیان کرتے، امریکا اور مغرب کو باور کراتے کہ ان کے ملکوں میں بعض شرارتی عناصر شر انگیز کاموں میں مصروف ہیں۔
ان کی شر انگیزی مسلمانوں کے دل پر زخم لگا رہی ہے۔ مغربی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ انھیں روکیں۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے مسلمانوں کا پرامن اور مہذب امیج پیدا ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کا حکم دینے کے بجائے خود اعلیٰ سطحی سیمینارز کا اہتمام کرتے' بالکل ویسے ہی جیسے وفاقی حکومت نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں کیا تھا اور وہاں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے علماء ومشائخ سے خطاب کرتے ہوئے یہ جائز سوال اٹھایا کہ ہولوکاسٹ سے انکار پر سزا ہے تو توہین رسالتؐ پر کیوں نہیں۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین کو بھی کنونشن سینٹر میں مدعو کیا جاتا۔
اس سیمینار میں علماء و مشائخ کے علاوہ امریکا و یورپی ممالک کے سفراء کو بھی مدعو کیا جاتا۔ ان کے سامنے گستاخانہ فلم سے پیدا ہونے والے نتائج بیان کیے جاتے' انھیں امریکا اور مغرب کے رویے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا۔ اس طرح غیرملکی سفیروں تک ہمارا احتجاج بھی پہنچ جاتا اور وہ اپنی آنکھوں سے ہمارا اتحاد اور نظم و ضبط بھی دیکھ لیتے لیکن افسوس ہوا اس کے برعکس۔
ملک میں جب شٹر ڈاؤن تھا' تعلیمی اور سرکاری ادارے بند تھے' ایسے ماحول میں احتجاجی ریلیاں اور جلوس نکالنے کے کیا مقاصد تھے؟ جمعے کو پاکستان کی حکومت اور عوام کا کروڑوں' اربوں کا نقصان ہوا۔ لوگوں کی گاڑیاں جلائی گئیں' نقاب پوش آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرتے رہے' ڈنڈے برساتے رہے۔
ملک میں اس روز انارکی کا عالم تھا۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائدین اپنی اپنی دکانداری چمکانے کے لیے بیان بازی کرتے رہے اور شرپسند اور قانون شکن عناصر لوٹ مار اور گھیراؤ جلاؤ میں مصروف رہے۔ ملک گیر پر تشدد مظاہروں کے بعد ہفتے کو زندگی تو معمول پر آ گئی ہے لیکن گھیراؤ جلاؤ کے زخم ابھی ہرے ہیں۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی' توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے والوں کو گرفتار کیا۔
زیادہ تر گرفتاریاں کراچی' لاہور' اسلام آباد اور پشاور میں ہوئیں۔ گرفتار افراد کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں اور کئی افراد کو ریمانڈ پر جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پولیس کو ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لندن میں کچھ عرصہ قبل فسادات ہوئے تھے۔ ان میں شرپسندوں نے لوٹ مار بھی کی تھی اور کئی لوگوں کو قتل بھی کیا تھا۔
لندن پولیس نے فسادات کے بعد سب کو گرفتار کیا اور انھیں عدالتوں سے سزائیں دلوائیں۔ پاکستان کی پولیس کو بھی ایسا ہی کارنامہ سرانجام دینا چاہیے۔ شرپسندوں کو سزا مل گئی تو اس قسم کی لوٹ مار کو روکا جا سکتا ہے۔