مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا ڈھونگ

کشمیری کسی بھی صورت اپنے حق خود اختیاریت کا سودا نہیں کرسکتے

مقبوضہ کشمیر میں آج کل مودی نے الیکشن کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ یہ الیکشن تین مرحلوں میں ہوں گے۔ یہ بھارتی آئین کی شق 370 کے ہٹائے جانے کے بعد وادی کو تین حصوں میں منقسم کیے گئے علاقوں میں باری باری ہوں گے۔ الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، وہ زور شور سے پرچار کر رہی ہے کہ اس نے دہشت گردی ختم کر کے وادی میں امن بحال کردیا ہے۔


اس کے دور میں کشمیری خوشحال ہوگئے ہیں اور ان کی تمام محرومیوں کو دورکردیا گیا۔ کشمیری اسے مودی کا پراپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں،کیونکہ وادی اب بھی جیل خانے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وادی میں اتنی بھارتی فوج موجود ہے کہ ہر کشمیری بھارتی فوجی کی زد میں ہے۔ تمام حریت پسند لیڈروں اور کارکنوں کو یا تو جیل میں ڈال دیا گیا ہے یا پھر نظربند ہیں۔ اس الیکشن میں صرف بھارت نواز کشمیری ہی الیکشن کا پرچار کرتے نظر آرہے ہیں۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی پارٹیاں الیکشن میں متحرک ہیں۔


فاروق عبداللہ کو راہول گاندھی کی سپورٹ حاصل ہے، وہ کشمیریوں کو رجھانے کے لیے وادی میں پھر سے بھارتی آئین کی شق 370 نافذ کر کے وادی کی پہلی والی پوزیشن واپس لانے کا وعدہ کر رہے ہیں مگر دوسری جانب بی جے پی کے اہم لیڈر امیت شا نے فاروق عبداللہ اور راہول گاندھی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب کوئی طاقت کشمیرکو پھر پہلی والی پوزیشن میں نہیں لا سکتی۔ انھوں نے پھر وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ انھوں نے پاکستان کو بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بہت جلد پاکستانی کشمیر جسے وہ POK کہتے ہیں بھارت میں شامل کر لیں گے۔



افسوس اس بات پر ہے کہ مودی کشمیر کو اپنی جاگیر بنا چکا ہے، اس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی پیروں تلے روند دیا ہے جس پر اقوام متحدہ خاموش ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھارت کے ساتھ ہیں، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستان جو کشمیرکو متنازعہ خطہ قرار دیتا ہے اورکشمیریوں کے لیے حق خود اختیاری کی ترجمانی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک دم خاموش ہے، شاید اس کی خاموشی کی وجہ سے بھی کشمیری خاموش ہوگئے ہیں بلکہ بعض آزادی پسند کشمیری بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ شاید وہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان اس وقت خود اپنے اندرونی خلفشار میں پھنسا ہوا ہے وہ بھلا ہماری کیا مدد کر سکتا ہے، اگر پاکستان واقعی مزید وقت اپنے اندرونی مسائل میں الجھا رہا اور ملک یوں ہی تباہی کی جانب جاتا رہا تو اس سے بھارت کو بہت فائدہ ہونے والا ہے۔


مودی اب تیسری مرتبہ الیکشن جیت کر برسر اقتدار آچکے ہیں اور اس ٹرم میں اسے اپنے خفیہ منشورکے تحت پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹنا شامل ہے اور اگر ایسا نہیں ہو سکا توکم سے کم آزاد کشمیرکو ضرور ہتھیانے کی کوشش کرے گا۔ بی جے پی کے اکثر رہنما آئے دن آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں لیکن یہ صرف دھمکیاں ہی نہیں ہیں، اس کے پیچھے اس کی تیاری بھی جاری ہے۔ اس وقت کشمیر میں سیز فائر لاگو ہے اس کی آفر بھارت نے کی تھی شاید اس لیے کہ اپنی تیاری کے لیے اسے LOC پر امن درکار تھا، وہ اسے حاصل ہو چکا ہے اب اس کے جواب میں پاکستان کو کیا کرنا ہے۔ سب سے پہلے بیرونی دنیا میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے ملک میں استحکام لانا ہوگا۔


حال ہی میں سوات میں سفارتکاروں کی بسوں پر دہشت گردوں کے حملے نے پاکستانیوں کے دلوں میں ملک میں دس سال قبل جاری خطرناک دہشت گردی کی یاد تازہ کردی ہے۔ ہماری سیکیورٹی کے حکام دہشت گردی کے واقعات کے بعد ضرور بہت متحرک ہو جاتے ہیں۔ کاش! کہ وہ ایسے واقعات سے قبل متحرک ہوجایا کریں تاکہ وہ ان کا قبل از وقت راستہ روک سکیں۔ عالمی بدنامی سے بچنے کے لیے کاش کہ وہاں کے پہاڑوں کی پہلے سے نگرانی شروع کردی جاتی اور راستوں کی بھی نگرانی کی جاتی تو دہشت گردوں کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ ایسا قدم اٹھاتے۔


اب جہاں تک دہشت گردوں کا تعلق ہے کہ وہ کون ہو سکتے ہیں تو وہ ہمارے دشمن کے کارندے ہی ہو سکتے ہیں اگر ان سفرا کے سفر کی خبر مخفی رہتی تو یہ بہتر ہوتا۔ لگتا ہے اس واردات میں ہمارے ہاں موجود ''را'' کے ایجنٹوں کا اہم کردار رہا ہوگا۔ ''را'' پر اس لیے الزام لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ''را'' کا کردارکیسے بڑھا ہوگا تو اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے سیاسی معاملات میں اس بری طرح الجھائے گئے ہیں کہ شاید وہ اہم معاملات میں بھی ضروری توجہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بھارت دراصل ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام کی حالت میں رکھنا چاہتا ہے وہ کشمیریوں کی حمایت کا بدلہ ہمارے ہاں دہشت گردی پھیلا کر لے رہا ہے۔ اس سے اسے مقبوضہ کشمیر پر اپنا کنٹرول رکھنے میں مدد مل رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری الیکشن پر ہماری طرف سے کم ہی احتجاج کیا گیا ہے، تاہم اس کے نتائج جھوٹے ہوں گے،کیونکہ کشمیری کسی بھی صورت اپنے حق خود اختیاریت کا سودا نہیں کرسکتے۔

Load Next Story