- ہر رکاوٹ عبور کرکے پنڈی جائیں گے پنجاب حکومت جو کرسکتی ہے کرلے، وزیراعلیٰ کے پی
- چیمپئینز ٹرافی؛ انتظامات، اَپ گریڈیشن کی تیاریوں کیلئے اہم اجلاس
- پنجاب پولیس کا کچے میں آپریشن، بدنام زمانہ ڈاکو اختر عرف موٹی ہلاک
- خیبرپختونخوا کے حالات بدترین ہیں، وہاں کے پیسے پنجاب پر یلغارکیلیے لگ رہے ہیں، عظمی بخاری
- گیس کی فراہمی؛ گھریلو اور کمرشل صارفین پہلی، صنعتیں آخری ترجیح میں شامل
- "ہندو انتہاپسندوں کے تشدد کو چھپانے کیلئے بھارتی میڈیا جھوٹ پھیلارہا ہے"
- ایک ہی تاریخ پر پیدا ہونے والی 4 جڑواں بہنیں
- کراچی؛ قومی ادارہ برائے صحتِ اطفال میں طبی عملے کے او پی ڈی بائیکاٹ کا تیسرا دن
- عمران خان کی رہائی کا فیصلہ کن معرکہ شروع ہوچکا ہے، مشیر اطلاعات پختونخوا
- بھکاریوں کو سعودیہ بھجوانے کا مقدمہ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر ایف آئی اے کو نوٹس
- پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہ دینے پرڈی سی لاہورکیخلاف توہین عدالت کی درخواست
- باجوڑ؛ پولیس موبائل پر بم حملے میں 5 اہل کار زخمی
- تعلیمی اداروں میں طلبہ کو منشیات فروخت کرنے والے 6 ملزمان گرفتار
- لاہور، سفاری زو کے اوقات کار تبدیل
- بیروت پراسرائیلی حملہ؛ جوبائیڈن کا مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کو تیار رہنے کا حکم
- دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے دعویدار بھارت کی کئی ریاستوں میں بیروزگاری عروج پر
- شکیب کا ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ کیرئیر کو خیرباد کہنے کا خواب ادھورا رہ جانے کا امکان
- ایس آئی ایف سی اور حکومتی اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں خاطر خواہ اضافہ
- بجلی چوری کیخلاف کریک ڈاؤن میں 118 ارب سے زائد وصول، ہزاروں گرفتاریاں
- کارکن رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لائیں، ہر صورت راولپنڈی پہنچیں گے، ترجمان وزیراعلیٰ کے پی
سیاسی کشمکش
حالیہ فروری کے انتخابات کے نتائج جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی توقعات کے برعکس آئے تو دوسری طرف ان کے سابق سیاسی حلیفوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی ان سے سیاسی فاصلے پیدا کر لیے جسکو مولانا نے ناپسند کیا ۔
سندھ و پنجاب کے باعث بڑی پارٹیوں نے تیسرے بڑے صوبے کے پی میں جے یو آئی کی غیر متوقع شکست کے بعد اپنے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اقتدار کی باہمی بندربانٹ میںشریک نہیں کیا جب کہ چوتھے صوبے بلوچستان سے مولانا نہ صرف خود رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے بلکہ جے یو آئی نے بلوچستان اسمبلی میں پی پی اور (ن) لیگ جتنی یا معمولی فرق سے نشستیں جیتی تھیں مگر (ن) لیگ اور پی پی نے اپنے سابق پرانے حلیف مولانا کو مکمل نظرانداز کیا تھا۔
مولانا کے انکار کے بعد لاہور کے اجلاس میں (ن) لیگ پی پی اور ایم کیو ایم نے (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر نہ صرف وفاقی حکومت کے اہم عہدے آپس میں بانٹ لیے بلکہ پی پی اور (ن) لیگ نے بلوچستان میں بھی مولانا کو نظرانداز کر کے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے سیاسی مفاد پرستی کے لیے تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا اور اپنے حلیفوں اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کو بھی نظر انداز کیا، صرف ایک نشست والی باپ پارٹی کو اہمیت دی اور اقتداری عہدے آپس میں بانٹ لیے تھے اور (ن) لیگ اور پی پی نے جان بوجھ کر شرکت اقتدار کے دروازے مولانا پر بند کر کے انھیں سیاسی کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا جس کا عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دو سیاسی حریفوں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان کی طرف سیاسی مفاہمت کے لیے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھیجا جن پر وہ اپنے اقتدار میں الزامات لگاتے تھے۔
عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور دونوں کو حکومت کا مخالف بنوا دیا۔ انھوں نے ایک نشست والے محمود اچکزئی کو اپنے حامی نئے سیاسی اتحاد کا سربراہ بنا دیا اور قومی اسمبلی میں آٹھ نشستیں رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کوئی حکومت مخالف اتحاد اس لیے نہیں بنایا کہ وہ مولانا کی قدآور شخصیت سے خوفزدہ تھے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کے واحد بڑے سیاسی حریف تھے اور کے پی میں نہ صرف پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کی حامل بڑی پارٹی تھی اور جے یو آئی ہی وہاں پی ٹی آئی کی بڑی حریف تھی۔ کے پی میں جے یو آئی کی شکست ایسے حالات میں ہوئی جہاں ان کا سمدھی غلام علی گورنر تھا اور نگراں حکومت بھی جے یو آئی کی مرضی کی تھی۔
عمران خان نے مولانا کو پریشان کرنے کے لیے مولانا کے آبائی شہر ڈی آئی خان میں مولانا کو شکست دینے والے اپنے جارحانہ رویے کے حامل علی امین گنڈا پور کو کے پی کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جو مولانا کے سخت مخالف اور مولانا سے سیاسی اتحاد کے شدید مخالف ہیں اور اب بھی ڈی آئی خان میں مولانا کی بالکل نہیں چلنے دے رہے۔ پی پی نے، مولانا کے مخالف اپنے سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کو جو حال ہی میں مولانا کے ساتھ علی امین گنڈاپور سے ہارے تھے کو کے پی کا گورنر بنا دیا اور کے پی میں مولانا کے دونوں حریف گورنر اور وزیر اعلیٰ ہیں جب کہ مولانا 2008ء کے بعد سے مسلسل ہار رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے لیے کے پی کی موجودہ صورت حال سخت تکلیف دہ ہے جس سے حکومت اور پی ٹی آئی بخوبی آگاہ ہیں اور مولانا سیاسی کشمکش کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو آئینی ترامیم میں ووٹوں کے لیے مولانا کو اہمیت دینا پڑی اور صدر مملکت اور وزیر اعظم پی ٹی آئی کی طرح مولانا کے گھر آنے پر مجبور ہوگئے اور پی ٹی آئی نے مولانا کے گھر کے چکر بڑھا دیے کہ مولانا کہیں حکومت کے ٹریپ میں آ کر ترامیم کے لیے ووٹ نہ دے دیں۔
خبریں ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں مولانا نے حکومت سے اہم مطالبات کیے ہیں اور عمران خان کو صرف ایک پیغام دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پی کو تبدیل کیا جائے مگر دونوں طرف سے یہ مطالبے نہیں مانے جا رہے اور بلاول بھٹو نے مولانا سے کئی ملاقاتوں کے بعد کہہ دیا ہے کہ ہمیں آئینی ترامیم منظور کرانی ہیں اور مولانا نے اگر حمایت نہ بھی کی تو حکومت دوسرا راستہ تلاش کرے گی۔ مولانا بھی بڑی مہارت سے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں ،انھوں نے خوب سیاسی چال چلی ، حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے اپنے گھر کے متعدد چکر لگوائے اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو کھانے کھلا کر خود بھی اسد قیصر کے ظہرانے میں پہنچ گئے ۔
مولانا اب سیاسی کشمکش میں خوب مہارت سے حربے استعمال کر رہے ہیں، وہ ماضی میں (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ چلتے رہے ہیں مگر وہ عمران خان پر اعتماد نہیں کر رہے کیونکہ کے پی میں ان کی اصل حریف صرف پی ٹی آئی ہے جو پہلی بار مولانا کے قریب آ رہی ہے اور عمران خان مطلب نکلنے کے بعد آنکھیں پھیر لینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور مولانا بھی سوچ رہے ہیں کہ کدھر جائیں۔ مولانا (ن) لیگ اور پی پی کی حکومت اور پی ٹی آئی کو اپنی اہمیت کا احساس دلا چکے اور پی ٹی آئی کے بجائے اپنے سابق حلیفوں کو ہی ترجیح دے سکتے ہیں؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔