سیاسی کشمکش

حالیہ فروری کے انتخابات کے نتائج جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی توقعات کے برعکس آئے تو دوسری طرف ان کے سابق سیاسی حلیفوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی ان سے سیاسی فاصلے پیدا کر لیے جسکو مولانا نے ناپسند کیا ۔

سندھ و پنجاب کے باعث بڑی پارٹیوں نے تیسرے بڑے صوبے کے پی میں جے یو آئی کی غیر متوقع شکست کے بعد اپنے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اقتدار کی باہمی بندربانٹ میںشریک نہیں کیا جب کہ چوتھے صوبے بلوچستان سے مولانا نہ صرف خود رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے بلکہ جے یو آئی نے بلوچستان اسمبلی میں پی پی اور (ن) لیگ جتنی یا معمولی فرق سے نشستیں جیتی تھیں مگر (ن) لیگ اور پی پی نے اپنے سابق پرانے حلیف مولانا کو مکمل نظرانداز کیا تھا۔

مولانا کے انکار کے بعد لاہور کے اجلاس میں (ن) لیگ پی پی اور ایم کیو ایم نے (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر نہ صرف وفاقی حکومت کے اہم عہدے آپس میں بانٹ لیے بلکہ پی پی اور (ن) لیگ نے بلوچستان میں بھی مولانا کو نظرانداز کر کے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے سیاسی مفاد پرستی کے لیے تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا اور اپنے حلیفوں اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کو بھی نظر انداز کیا، صرف ایک نشست والی باپ پارٹی کو اہمیت دی اور اقتداری عہدے آپس میں بانٹ لیے تھے اور (ن) لیگ اور پی پی نے جان بوجھ کر شرکت اقتدار کے دروازے مولانا پر بند کر کے انھیں سیاسی کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا جس کا عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دو سیاسی حریفوں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان کی طرف سیاسی مفاہمت کے لیے پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھیجا جن پر وہ اپنے اقتدار میں الزامات لگاتے تھے۔

عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور دونوں کو حکومت کا مخالف بنوا دیا۔ انھوں نے ایک نشست والے محمود اچکزئی کو اپنے حامی نئے سیاسی اتحاد کا سربراہ بنا دیا اور قومی اسمبلی میں آٹھ نشستیں رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کوئی حکومت مخالف اتحاد اس لیے نہیں بنایا کہ وہ مولانا کی قدآور شخصیت سے خوفزدہ تھے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کے واحد بڑے سیاسی حریف تھے اور کے پی میں نہ صرف پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کی حامل بڑی پارٹی تھی اور جے یو آئی ہی وہاں پی ٹی آئی کی بڑی حریف تھی۔ کے پی میں جے یو آئی کی شکست ایسے حالات میں ہوئی جہاں ان کا سمدھی غلام علی گورنر تھا اور نگراں حکومت بھی جے یو آئی کی مرضی کی تھی۔

عمران خان نے مولانا کو پریشان کرنے کے لیے مولانا کے آبائی شہر ڈی آئی خان میں مولانا کو شکست دینے والے اپنے جارحانہ رویے کے حامل علی امین گنڈا پور کو کے پی کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جو مولانا کے سخت مخالف اور مولانا سے سیاسی اتحاد کے شدید مخالف ہیں اور اب بھی ڈی آئی خان میں مولانا کی بالکل نہیں چلنے دے رہے۔ پی پی نے، مولانا کے مخالف اپنے سابق ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی کو جو حال ہی میں مولانا کے ساتھ علی امین گنڈاپور سے ہارے تھے کو کے پی کا گورنر بنا دیا اور کے پی میں مولانا کے دونوں حریف گورنر اور وزیر اعلیٰ ہیں جب کہ مولانا 2008ء کے بعد سے مسلسل ہار رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے لیے کے پی کی موجودہ صورت حال سخت تکلیف دہ ہے جس سے حکومت اور پی ٹی آئی بخوبی آگاہ ہیں اور مولانا سیاسی کشمکش کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکومت کو آئینی ترامیم میں ووٹوں کے لیے مولانا کو اہمیت دینا پڑی اور صدر مملکت اور وزیر اعظم پی ٹی آئی کی طرح مولانا کے گھر آنے پر مجبور ہوگئے اور پی ٹی آئی نے مولانا کے گھر کے چکر بڑھا دیے کہ مولانا کہیں حکومت کے ٹریپ میں آ کر ترامیم کے لیے ووٹ نہ دے دیں۔

خبریں ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں مولانا نے حکومت سے اہم مطالبات کیے ہیں اور عمران خان کو صرف ایک پیغام دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پی کو تبدیل کیا جائے مگر دونوں طرف سے یہ مطالبے نہیں مانے جا رہے اور بلاول بھٹو نے مولانا سے کئی ملاقاتوں کے بعد  کہہ دیا ہے کہ ہمیں آئینی ترامیم منظور کرانی ہیں اور مولانا نے اگر حمایت نہ بھی کی تو حکومت دوسرا راستہ تلاش کرے گی۔ مولانا بھی بڑی مہارت سے سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں ،انھوں نے خوب سیاسی چال چلی ، حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے اپنے گھر کے متعدد چکر لگوائے اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو کھانے کھلا کر خود بھی اسد قیصر کے ظہرانے میں پہنچ گئے ۔

مولانا اب سیاسی کشمکش میں خوب مہارت سے حربے استعمال کر رہے ہیں، وہ ماضی میں (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ چلتے رہے ہیں مگر وہ عمران خان پر اعتماد نہیں کر رہے کیونکہ کے پی میں ان کی اصل حریف صرف پی ٹی آئی ہے جو پہلی بار مولانا کے قریب آ رہی ہے اور عمران خان مطلب نکلنے کے بعد آنکھیں پھیر لینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور مولانا بھی سوچ رہے ہیں کہ کدھر جائیں۔ مولانا (ن) لیگ اور پی پی کی حکومت اور پی ٹی آئی کو اپنی اہمیت کا احساس دلا چکے اور پی ٹی آئی کے بجائے اپنے سابق حلیفوں کو ہی ترجیح دے سکتے ہیں؟