شوگر ملز مالکان کے آئی پی پیز کو 8.2 ارب روپے کی ادائیگیاں

شہباز رانا  ہفتہ 28 ستمبر 2024
 تخمینے کے مطابق آٹھ پاورپلانٹس کو 20 ارب روپے ادا کیے جائیں گے (فوٹو: فائل)

تخمینے کے مطابق آٹھ پاورپلانٹس کو 20 ارب روپے ادا کیے جائیں گے (فوٹو: فائل)

  اسلام آباد:  حکومت نے شوگر ملز مالکان کو فائدہ پہنچانے کیلیے نیپرا کے متنازع فیصلے پر عملدرآمد کردیا۔

حکومت نے 5شوگر ملز مالکان کے ملکیتی 8آئی پی پیز کو امپورٹڈ فیول کی مد میں 8.2 ارب روپے کی پہلی قسط جاری کردی، جبکہ ان آئی پی پیز نے اپنے پلانٹس میں امپورٹڈ فیول کی بجائے گنے کی بائی پراڈکٹ استعمال کی ہے، تخمینے کے مطابق آٹھ پاورپلانٹس کو 20 ارب روپے ادا کیے جائیں گے، نیپرا نے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی اور نگران حکومت کے اعتراضات کے باجود ان ادائیگیوں کی اجازت دی۔

ایک ایسے وقت میں جب حکومت آئی پی پیز کو اپنی لاگت کم کرنے پر مجبوری کر رہی ہے، نیپرا کے گنے کی پھوک سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کو نوازنے کے متنازعہ فیصلے پر عمل کیا جارہا ہے کہ جس کا بوجھ بجلی صارفین پر پڑے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ CPPA-G نے اگست میں پانچ پاور پلانٹس کو پہلے مرحلے میں 8.2 ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں، ایجنسی نے جمعرات کو نیپرا سے یہ رقم اگست کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کرنے کی درخواست کی ہے۔

دستاویزات کے مطابق پہلے مرحلے میں حکومت نے چنار انرجی لمیٹڈ کو 840.3 ملین روپے، چنیوٹ پاور لمیٹڈ کو 1.48 ارب روپے، حمزہ شوگر ملز کو 1.42 ارب روپے، جے ڈی ڈبلیو کے دو یونٹس کو 4.1 ارب روپے، اور رحیم یار خان ملز کو 399.3 ملین روپے جاری کیے ہیں، جبکہ المعیز اور تھائی انڈسٹریز کو پہلے مرحلے میں کوئی رقم نہیں دی گئی ہے، یہ ادائیگیاں ایندھن کی لاگت کے طور پر کی گئی ہیں، جس کیلیے بنیاد امپورٹڈ کوئلے کو بنایا گیا ہے، تاہم یہ پاور پلانٹس گنے کی پھوک استعمال کرتے ہیں۔

اس کے باجود امپورٹڈ کوئلے کے حساب سے ان کوادائیگیاں کی جارہی ہیں، مسلم لیگ ن کی 2013-18 کی حکومت نے گنے کی پھوک سے تیار بجلی کی ادائیگی کو امپورٹڈ فیول سے جوڑ دیا تھا، دستاویزات کے مطابق نگران حکومت نے اکتوبر 2018 سے ادائیگیوں اور ان کو امپورٹڈ کوئلے سے منسلک کرنے کی مخالفت کی تھی، لیکن نیپرا نے پالیسی پر عملدرآمد کا حکم دیا، نگران وزیر توانائی محمد علی نے گنے کی پھوک کی مارکیٹ پرائس کا حساب لگائے بغیر FCC میںاکتوبر 2022 سے 5 فیصد سالانہ اضافے کی بھی مخالفت کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔