صرف عدالتیں ہی جوڈیشل اختیارات استعمال کر سکتی ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ
وفاقی حکومت کی جانب سے 23 سال گزرنے کے باوجود گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد ایڈمنسٹریشن کے ماتحت انتظامی افسران کو بطور ایگزیکٹو مجسٹریٹ مقدمات کے فیصلوں سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں صرف عدالتیں ہی جوڈیشل اختیارات استعمال کر سکتی ہیں، آئینی شقوں کے خلاف جوڈیشل اختیارات کا استعمال غیر آئینی ہے جس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے ایگزیکٹو کے جوڈیشل اختیارات استعمال کرنے کے خلاف لقمان ظفر ایڈووکیٹ کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں 2001 میں ترمیم کر کے صوبائی حکومتوں کا ایگزیکٹو مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار واپس لیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ وفاقی حکومت 23 سال گزرنے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکی، نوٹیفکیشن جاری ہونے تک ایگزیکٹو مجسٹریٹس زیر التوا کیسز کا فیصلہ نہ سنائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ترمیمی آرڈی نینس کے نفاذ کے بعد ایگزیکٹو مجسٹریٹس کیسز کا ریکارڈ متعلقہ سیشن ججوں کو بھجوائیں جو ان کیسز پر قانون کے مطابق فیصلے کے لیے موصول شدہ فائلز جوڈیشل مجسٹریٹس کو بھیج دیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا آئین کا آرٹیکل 175(3) واضح اور غیر مبہم ہے جس میں عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ کیا گیا ہے، عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کے لیے 14 سال کا وقت بھی دیا گیا تاکہ فارمیلیڑیز پوری کی جا سکیں مگر وہ وقت بھی 14 اگست 1987 کو مکمل ہو گیا تھا، اس کے باوجود انتظامی افسران تاحال جوڈیشل اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے فیصلے میں کہا کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے وقت کے بعد تاخیر غیر آئینی ہے، آئین کے ہر لفظ کا ایک مطلب اور مقصد ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کا ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار ختم کیا گیا اور دوسری ترمیم کے ذریعے اس کا دائرہ کار اسلام آباد تک بڑھایا گیا جس کا نفاذ چودہ اگست 2001 کو ہوا۔
عدالت نے کہا کہ 23 سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اور وزارت قانون تفصیلی جواب میں بھی اس تاخیر کی کوئی وجہ نہ بتا سکی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے ایگزیکٹو کے جوڈیشل اختیارات استعمال کرنے کے خلاف لقمان ظفر ایڈووکیٹ کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں 2001 میں ترمیم کر کے صوبائی حکومتوں کا ایگزیکٹو مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار واپس لیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ وفاقی حکومت 23 سال گزرنے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکی، نوٹیفکیشن جاری ہونے تک ایگزیکٹو مجسٹریٹس زیر التوا کیسز کا فیصلہ نہ سنائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ترمیمی آرڈی نینس کے نفاذ کے بعد ایگزیکٹو مجسٹریٹس کیسز کا ریکارڈ متعلقہ سیشن ججوں کو بھجوائیں جو ان کیسز پر قانون کے مطابق فیصلے کے لیے موصول شدہ فائلز جوڈیشل مجسٹریٹس کو بھیج دیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا آئین کا آرٹیکل 175(3) واضح اور غیر مبہم ہے جس میں عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ کیا گیا ہے، عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کے لیے 14 سال کا وقت بھی دیا گیا تاکہ فارمیلیڑیز پوری کی جا سکیں مگر وہ وقت بھی 14 اگست 1987 کو مکمل ہو گیا تھا، اس کے باوجود انتظامی افسران تاحال جوڈیشل اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے فیصلے میں کہا کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے وقت کے بعد تاخیر غیر آئینی ہے، آئین کے ہر لفظ کا ایک مطلب اور مقصد ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کا ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار ختم کیا گیا اور دوسری ترمیم کے ذریعے اس کا دائرہ کار اسلام آباد تک بڑھایا گیا جس کا نفاذ چودہ اگست 2001 کو ہوا۔
عدالت نے کہا کہ 23 سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اور وزارت قانون تفصیلی جواب میں بھی اس تاخیر کی کوئی وجہ نہ بتا سکی۔