ہاجرہ مسرور آخری اسٹیشن آگیا آخری حصہ

اس وضع کی شگفتہ اور بے ساختہ زندگی گزارنے والی ہاجرہ کراچی میں آکر بجھ سی گئیں۔

zahedahina@gmail.com

تقسیم کا سانحہ گزر چکا تو ہاجرہ مسرور اپنے خاندان کو سمیٹ کر لکھنؤ سے ممبئی اور پھر بحری جہاز سے کراچی پہنچیں۔

کراچی سے انھوں نے لاہور کا رخ کیا جہاں ان کے اور خدیجہ کے منہ بولے بھائی احمد ندیم قاسمی رہتے تھے۔انھوں نے ان لوگوں کے لیے سرچھپانے کا کوئی ٹھکانہ ڈھونڈا۔ مارچ 48ء میں ''نقوش'' جاری کیا۔

ایک بے مثال ادبی جریدہ جوآنے والے دنوں میں بہت سے کمالات دکھانے والاتھا۔ ہاجرہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی کا نام سرورق پر 'مرتبین' کے طور پر درج تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 'نقوش' پر کیا افتاد پڑنے والی ہے۔

اس میں منٹو کا افسانہ 'کھول دو' شایع ہوا اور اس کی اشاعت پر پابندی لگ گئی اور کہیں چھ مہینوں بعد 'نقوش' کی اشاعت پر سے پابندی ہٹی۔ اس واقعے نے اپی کو کس طرح دہلایا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔

احمد ندیم قاسمی نے اپنی منہ بولی بہنوں کی شادی میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ خدیجہ مستور کو انھوں نے اپنے بھانجے ظہیر بابر سے بیاہا اور احمد علی خان سے ہاجرہ مسرور کی شادی ہوئی۔ ان کی بہن طاہرہ معروف صحافی حسن عابدی سے بیاہی گئیں۔

یوں یہ بہنیں ایک بھری پری ذاتی زندگی گزارنے لگیں جس میں ادبی سرگرمیوں کی چاشنی بھی تھی۔ 1959ء میں رائٹرز گلڈ آف پاکستان کا پہلا جلسہ لاہور میں ہوا جس میں کراچی سے قرۃ العین حیدر بھی شریک تھیں۔

وہاں ایک مشہور و معروف ڈراما نگار نے ان تینوں سے کہاکہ میںنے ایک فلم کی کہانی لکھی ہے جس کا پریس شو کل فلاں پکچر ہائوس میں ہے۔ آپ تینوں تشریف لائیے۔ یہ تینوں ادیب خواتین دوسرے دن بہت سج دھن کے ایک عزیز کی لمبی اور شاندار گاڑی میں پکچر ہائوس پہنچیں جہاں ان معروف ڈراما نگار نے ان تینوں کا بے حد گرمجوشی سے استقبال کیا اور انھیں گیلری میں بٹھادیا۔

فلم شروع ہوئی تو بے حد بوگس تھی۔ محمود غزنوی والا ایاز ایک ہاتھی پربیٹھا گا رہا تھا اور اس تاریخی فلم کی ہیروئن باٹاکے سینڈل پہنے ہوئے تھی۔ اس کے بعد یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ تینوں خواتین جو شگفتہ جملہ بازی میں طاق تھیں، خاموش رہ سکتیں۔ ان لوگوں نے فلم کے ہر منظر پر جملے کسنے شروع کیے۔

ان سے آگے بیٹھی ہوئی ایک خاتون نے ان تینوں کو ڈانٹا شروع کردیا کہ میں نے لاکھوں روپے خرچ کرکے یہ فلم بنائی ہے اورآپ لوگ اس کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ لاہور کا سارا پریس موجود ہے وہ کیا سوچے گا۔ یہ سن کر ہاجرہ نروس ہوگئیں لیکن ڈانٹ پھٹکار کے باوجود جملے چست کرنے سے باز نہیں آئیں۔ آخر کار اس خاتون پروڈیوسر نے ان تینوںکو ڈانٹ کر پکچر ہائوس سے نکال دیا۔

یہ تینوں چوروں کی طرح پکچر ہائوس سے باہر آئیں اور تانگا لے کر گھر کو چلیں۔ ایسے میں قرۃ العین نے ہاجرہ اور خدیجہ سے کہا 'بی بیو! عبرت پکڑو۔ صرف گھنٹہ بھر پہلے ہم کس شان و شوکت سے آئے تھے اور کیا ہمارا سواگت ہوا تھا اور اب چوروں کی طرح پچھلے دروازے سے نکالے گئے۔

زندگی میں پل کا بھروسہ نہیں'۔ اب ان لوگوں کو یہ دھڑکا لگ گیا کہ کہیں اخبار میں یہ خبر نہ چھپ جائے کہ ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور قرۃ العین حیدر بہ وجہ غنڈہ گردی سینما ہال سے نکال دی گئیں۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں احمد علی خان پاکستان ٹائمزکے ایڈیٹر تھے۔

اس وضع کی شگفتہ اور بے ساختہ زندگی گزارنے والی ہاجرہ کراچی میں آکر بجھ سی گئیں۔ یہاں وہ فضا نہ تھی جو لاہور میں میسر تھی۔ بہن کا ساتھ چھوٹ گیا تھا۔ ان کی قریبی دوست نثار عزیز بٹ بیمار تھیں جن کا ذکر وہ بہت محبت سے کرتی تھیںاور یاد تو وہ ان کام والیوں کو بھی کرتی تھیں جن سے لکھنؤ کی اس بیٹی نے فراٹے سے پنجابی بولنی سیکھی تھی۔


یہ بات انھوں نے کئی بار اداسی سے کہی کہ زندگی میں وہ حلاوت نہیں رہی۔ یاد وہ مشرقی بنگال کے اس سفر کو بھی بہت کرتی تھیں جب انھوں نے جنوری 1960ء میں وہاں کے مشہور مصور زین العابدین کے اسٹوڈیو میں ان کی مصوری کے نمونوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ 'مصوروں کے لیے آسانی ہے۔ جو تصویر بنادی وہ دیکھنے والے کو نظر آگئی۔ الفاظ بہت گڑبڑ کرتے ہیں۔'

اردو ادیبوں کا ایک وفد خیر سگالی کے دورے پر 60ء میں مشرقی پاکستان گیا تھا ۔ اس سفر کو اسیر کر لینے والی سیپیا رنگ کی اور سفید و سیاہ تصویریں ہیں۔ ان میں سے ایک میں ہاجرہ مسرور، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور اور جمیلہ ہاشمی ہیں۔ پدما (بوڑھی گنگا) کی لہروں سے کھیلتا ہوا اسٹیمر جھاگ اڑاتا چلا جارہا ہے۔

ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور آنکھوں میں وہ چمک ہے جیسے انھیں ابد تک رہنا ہے۔ ابد ایک پُرفریب لفظ ۔ میں اس تصویر کو دیکھتی ہوں جس میں ہماری یہ چار اہم اور مشہور ادیب خواتین جھلک دکھا رہی ہیں۔ شاداں و فرحاں۔ اور وقت سب پر ہنس رہا ہے۔ تمہیں کیا معلوم کہ صرف 10 برس بعد پدما کی لہروں میں خون کی دھارائیں مل جائیں گی۔

1906ء میں نواب صاحب ڈھاکا کے جس گھر میں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی تھی وہ بے بنیاد ہوجائے گا اور دو قومی نظریہ؟ اجی اس کے لیے بس یہی کہیے کہ 'پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے... جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے! اردو، سندھی اور بنگلہ کے وہ ادیب جو ایک دوسرے کے گلے میں بانھیں ڈالے ہوئے تھے، ان میں سے بنگلہ والوں کی گردنیں کرزن ہال میں کٹیں گی، ڈھاکہ یونیورسٹی میں ان کے سینے چھلنی ہوں گے اور پوربو پاکستان میں بیٹھے ہوئے ادیب ایک دوسرے سے نم ناک سرگوشیوں میں سوال کریں گے۔ کون رہا؟ کون رخصت ہوا؟

1976ء میں عصمت آپا کراچی آئیں تو شہر کے ادبی حلقوں کی جیسے عید ہوگئی۔ جلسے، محفلیں، قہقہے، چہچہے۔ ان کے ساتھ میرے گھر پر جو شام افسانہ ہوئی اس میں اپی، رضیہ فصیح احمد، مرزا عظیم بیگ چغتائی کی بڑی بیٹی اور عصمت آپا کی بھتیجی مدحت خان اور کئی دوسرے لوگ شریک تھے۔ اس محفل کی تصویروں میں میری بڑی بیٹی فینی بھی بیٹھی ہے۔

میری اسی بیٹی کے سبب 1999ء میں اپی سے قرابت داری بھی ہوئی جب اپی کے شوہر اور 'ڈان' کے ایڈیٹر احمد علی خان کی سگی بھتیجی مرحومہ ریحانہ فردوس کے بیٹے کامران عباس سے فینی کی شادی ہوئی۔ ولیمے کے دن وہ کامران کے پہلو میں بیٹھی فینی کی تعریفوں کے پل باندھتی رہیں جسے سن کر احمد بھائی اور میں مسکراتے رہے۔

اردو کی ایک مشہور افسانہ نگار اختر جمال کے بیٹے طارق سے ان کی چھوٹی بیٹی نوشین کی شادی ہوئی تھی اور پرانی دوستی نئے رشتے میں ڈھل گئی تھی۔ چند مہینوں پہلے اپی کی بڑی بیٹی نوید طاہر جو اس وقت کراچی یونیورسٹی میںایک شعبے کی سربراہ تھیں، ان سے اور خدیجہ مستور کی بہو بشریٰ پرویز سے ''آنگن'' کی ڈرامائی تشکیل کے حوالے سے گفتگو رہی اور ہم گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے رہے۔

ہاجرہ مسرور نے ہمیں 'بھاگ بھری، بندر کا گھائو، صندوقچہ' 'اُمتِ مرحوم' راجا ہل' اور 'ایک بچی' جیسے افسانے دیے۔ان کے آخری افسانوں میں سے 'ایک اور نعرہ' ہے جو انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی وحشت اور بربریت کے بارے میں لکھا جس میں ٹکٹکی پرچڑھے ہوئے ایک نوجوان کو کوڑے لگائے جارہے ہیں ۔

اس عذاب ناک منظر کو دیکھنے کے لیے خلقت امڈ آئی ہے اور میلے کا عالم ہے۔ آج ہم جس شقی القلبی اور وحشت کے دور سے گزر رہے ہیں اس کے ابتدائی دنوں کو انھوں نے بہت ہنرمندی سے لکھا لیکن پھر لفظوں سے کھیلنے والی انگلیاں ساکت و صامت ہی رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اگر کراچی نہ آتیں اور لاہور ہی میں رہتیں تو یہ نہ ہوتا کہ وہ تخلیقی زندگی سے یکسر کنارہ کش ہوجائیں۔ انھوں نے تو ادبی محفلوں میں شرکت کے حوالے سے بھی جوگ لے لیا تھا۔

ہاجرہ، خدیجہ، قرۃ العین، جمیلہ... ان چاروں میں سب سے پہلے خدیجہ مستور 1982 میں فنا کے دریا پاراتریں، پھر جمیلہ ہاشمی گئیں، قرۃ العین حیدر تادیر وقت سے نبرد آزما رہیں اور اب ستمبر 2012 میں ہاجرہ مسرور نے بھی زندگی سے کنارہ کیا۔

کندن لال سہگل کی آواز پوچھتی ہے۔ وہ چہچہاتی بلبلیں جانے گئیں کہاں؟ ادب سرائے کی منڈیر سے اڑنے والی ان خوش نوا بلبلوں کے بارے میں کون جانے کہ انھوں نے کون سا کنج آباد کیا۔ کسے معلوم کہ خود کندن لال سہگل کس گھاٹ اترے؟

انھیںیوں تو بہت سے ایوارڈ ملے لیکن سالہا سال پہلے جب انھوں نے سرور بارہ بنکوی کے لیے ایک فلم ''آخری اسٹیشن'' لکھی تو اس کی بہت دھوم مچی تھی اور اس کی کہانی اور مکالموں پر انھیں 'نگار' ایوارڈدیا گیا تھا۔

وہ دوسروں کے لیے ہاجرہ مسرور اور میرے لیے اپی تھیں، جن کے ساتھ بہت سے یادگار لمحے گزرے اور اب وہ آخری اسٹیشن پر اتر گئی ہیں۔
Load Next Story