کراچی کی سڑکیں اور جوہر چورنگی
اب انڈر پاس کی طرف چلتے ہیں اس میں جو مع اپنی گاڑی کے داخل ہوا، اس نے خسارے کا سودا کر لیا
تقریباً دو سال ہی گزرے ہوں گے جب جوہر چورنگی،کلفٹن اور ڈیفنس کی چورنگیوں کی طرح اپنی شان دکھاتی تھی، سیاہ تارکول کی سڑکیں، ہری لال، پیلی بتیوں سے آراستہ جلتی بجھتی بتیاں، رواں دواں ٹریفک بڑا خوبصورت منظر لگتا تھا، ایک طرف بسیرا مارکیٹ تو دوسری سمت ارم اور تیسری طرف دارالصحت۔ چوتھا راستہ رابعہ سٹی کی طرف جاتا ہوا، چاروں سمت اپنی اپنی منزلوں کی جانب مڑ جاتا تھا۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا انقلاب آیا کہ گلستان جوہرکے رہائشی دیکھتے اور کفِ افسوس ملتے ہی رہ گئے۔ سندھ حکومت نے وہ کمالات دکھائے کہ آج تک ان راستوں سے گزرنے والا ہر مسافر انگشت بدنداں ہے۔ ایسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی کہ راستے گم ہوگئے اور چورنگی کھوگئی، مسافر اپنے راستوں سے بھٹک گئے، مہمان اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچنے لگے، میزبانوں کے چہروں کی روشنیاں گُل ہوتی نظر آئیں، ادھر آنے والے صفائی پیش کرتے کہ آنٹی، بھابی! کیا بتائیں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
جہاں جاتے راستہ بند، تاحد نگاہ ملبہ، بجری، سیمنٹ، مزدوروں کی فوج ظفر موج، میدان جنگ میں سپاہیوں کی طرح منظم نظر آرہی ہوتی، راستہ پوچھ پوچھ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ میزبانوں کی شرمندگی بھی دیدنی، جیسے خدانخواستہ سارا قصور ان کا ہی ہے۔ خیر صلح صفائی کے بعد کھانا گرم کیا جاتا، شام کی چائے پر آنے والوں کو طوعاً و کرہاً کھانا کھلانے کے لیے تیاری کی جاتی کہ بھوکے پیاسے چار، پانچ بجے پہنچنے والوں کا وعدہ وفا نہ ہو پاتا، وقت بدل جاتا، بھوک سے پیٹ میں سوئے ہوئے چوہے جاگ جاتے اور دوڑنے پر مجبور ہوتے۔
عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی،گھر اور باہر ایک سا ہی حال تھا، سال بھی نہ ہوا تھا کہ یہ خوبصورت اور دلکش چورنگی اپنے برے انجام کو پہنچی ۔ بدنما سا فلائی اوور اس کے سر پرکھڑا کردیا گیا، آس پاس گدلے پانی کے گڑھے، مٹی اور وہ بھی گیلی مٹی کی مقدار اس قدر زیادہ کہ پیر چپل سمیت دھنس جائیں، روزگار کے حصول کے لیے مزدور، مستری، کارپینٹر، رنگ ریز اور پھیری والوں کے ٹھیلے اور پتھارے اور ان کے ڈرائیورز آرام کرنے والے زمین کے فرش پر دراز میٹھی نیند کے مزوں میں گم ایسے سوتے کہ گاڑیوں کے ہارن بچنے پر انھیں ہرگز ہوش نہ آتا۔ اس سارے عمل میں ایک بڑا فائدہ بھی ہوا کہ انسانی جانوں کو نگلتا ہوا نالہ بند کردیا گیا۔ یہ تو تھا چورنگی کا احوال۔
اب انڈر پاس کی طرف چلتے ہیں اس میں جو مع اپنی گاڑی کے داخل ہوا، اس نے خسارے کا سودا کر لیا۔ اچھلتی،کودتی گاڑیاں اس طرح گزرنے پر مجبورکردی گئی تھیں، جیسے کسی یتیم و بے کس کی بارات گاؤں یا گوٹھ سے گزر رہی ہو۔ مضبوط فرش کی جگہ ٹائلز نصب کیے گئے ہیں، اسی وجہ سے رفتار میں توکمی واقع ہوئی ہے، اس کے ساتھ ایک طرف سفرکا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے،گویا پکنک کا سفر ہو، دوسری طرف اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچنے والے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، سندھ حکومت کے اس کارنامے پر داد دینے کی بجائے جو منہ میں آتا ہے وہ کہتے ہیں اور ببانگ دہل دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔
دانشمندی اور تعمیرکا نادر نمونہ، سخت مشقت کے بعد سامنے آیا ہے، اچھی آبادی، پڑھے لکھے لوگ، صاف و شفاف چمکتی دمکتی سڑکیں، انھیں کاٹ رہی تھیں کیا؟ کوئی بھی کام کرتے وقت اس کے فوائد و نقصانات کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں تو منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے والے نہ جانے کہاں جا بسے ہیں۔ لہٰذا یہاں کے مکینوں کے حصے میں خسارہ ہی آیا ہے۔ اب انڈرپاس بننے کے بعد حالات یہ ہو چکے ہیں کہ رابعہ سٹی جو واقعی ایک شہر خرابہ کی مانند ہے، اندر بازار کے بازار سجے نظر آتے ہیں، اس سٹی میں کیا نہیں ہے، ہر چیز یہاں میسر آجائے گی، لیکن باہر بھی بوقت ضرورت جانا پڑتا ہے۔
تو جناب! شہر اور ابن شہر کے درمیان میں انڈرپاس آگیا ہے، لہٰذا جو راستہ منٹوں میں بغیر سواری کے طے ہوتا تھا، وہ اب کافی وقت لیتا ہے۔ پیدل آنے میں تو آدھا ایک گھنٹہ کہیں نہیں گیا اور اگر موسموں کی سنگینی سے بچنے کے لیے سواری کے لیے رکشہ کیا جائے تب کرایہ برداشت کرنا ممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ رکشہ ڈرائیورز اور پرائیویٹ گاڑیوں کو ڈیڑھ سو سے، ڈھائی سو تک کرایہ ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے مہنگائی کے طوفان سے سر ٹکرانا لازم و ملزوم ہوچکا ہے۔
اب آتے ہیں کراچی کی سڑکوں کی طرف۔ آپ جہاں جائیں چند علاقوں کے سوا ہر طرف کھنڈرات کی شکل میں راستے نظر آئیں گے، گاڑیاں اچھلتی کودتی، لڑکھڑاتی مسافروں کی جان نکالتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ صفورا گوٹھ سے بیت المکرم مسجد اور ممتاز منزل تک کا راستہ سفر کرنے والوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ خوبصورت، نئی نویلی گاڑیوں کو برباد ہوتے ہوئے دو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ درکار نہیں ہوتا ہے۔ انھی راستوں پر چھوٹی بڑی گاڑیاں صبح و شام گزرتی ہیں۔
سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور چھوٹے بڑے گڑھوں کا منظر پیش کرتی ہیں اور برسات کے زمانے میں تو پانی سے بھرے نالے، نالیاں، سڑکیں اورکچا و پکا راستہ ایک ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا ہے،گاڑیاں ان راستوں میں پھنس جاتی ہیں یا پھر بارش کی شدت اور پانی جمع ہونے کی صورت میں تیرنے لگتی ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں،کوئی مددگار نہیں۔ ان حالات میں ٹریفک جام ، پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا بند ہونا معمول کی بات ہے، لوگ اپنی ضرورت کے تحت ہی پٹرول ڈلواتے ہیں۔ اب گھنٹوں گاڑی اسٹارٹ رہے گی تو پٹرول کا ختم ہونا لازمی امر ہے۔
کراچی شہرکی سڑکوں کا ایسا ہی بدتر حال ہے، اگر پختہ سڑکوں کی تعمیر ایک دفعہ ہی ہو جائے تو اس مثل کے مصداق سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار، لیکن یہاں کا حال نرالا ہے، ایک بار سڑکیں بنا کر بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم نے سڑکوں کی تعمیر بھی کی تھی، جو اب اپنے زوال پر مدد کے لیے آواز لگا رہی ہیں۔ سن لیجیے افلاس زدہ شہریوں کی طرح شکستہ سڑکوں کا حال۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا انقلاب آیا کہ گلستان جوہرکے رہائشی دیکھتے اور کفِ افسوس ملتے ہی رہ گئے۔ سندھ حکومت نے وہ کمالات دکھائے کہ آج تک ان راستوں سے گزرنے والا ہر مسافر انگشت بدنداں ہے۔ ایسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی کہ راستے گم ہوگئے اور چورنگی کھوگئی، مسافر اپنے راستوں سے بھٹک گئے، مہمان اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچنے لگے، میزبانوں کے چہروں کی روشنیاں گُل ہوتی نظر آئیں، ادھر آنے والے صفائی پیش کرتے کہ آنٹی، بھابی! کیا بتائیں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
جہاں جاتے راستہ بند، تاحد نگاہ ملبہ، بجری، سیمنٹ، مزدوروں کی فوج ظفر موج، میدان جنگ میں سپاہیوں کی طرح منظم نظر آرہی ہوتی، راستہ پوچھ پوچھ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ میزبانوں کی شرمندگی بھی دیدنی، جیسے خدانخواستہ سارا قصور ان کا ہی ہے۔ خیر صلح صفائی کے بعد کھانا گرم کیا جاتا، شام کی چائے پر آنے والوں کو طوعاً و کرہاً کھانا کھلانے کے لیے تیاری کی جاتی کہ بھوکے پیاسے چار، پانچ بجے پہنچنے والوں کا وعدہ وفا نہ ہو پاتا، وقت بدل جاتا، بھوک سے پیٹ میں سوئے ہوئے چوہے جاگ جاتے اور دوڑنے پر مجبور ہوتے۔
عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی،گھر اور باہر ایک سا ہی حال تھا، سال بھی نہ ہوا تھا کہ یہ خوبصورت اور دلکش چورنگی اپنے برے انجام کو پہنچی ۔ بدنما سا فلائی اوور اس کے سر پرکھڑا کردیا گیا، آس پاس گدلے پانی کے گڑھے، مٹی اور وہ بھی گیلی مٹی کی مقدار اس قدر زیادہ کہ پیر چپل سمیت دھنس جائیں، روزگار کے حصول کے لیے مزدور، مستری، کارپینٹر، رنگ ریز اور پھیری والوں کے ٹھیلے اور پتھارے اور ان کے ڈرائیورز آرام کرنے والے زمین کے فرش پر دراز میٹھی نیند کے مزوں میں گم ایسے سوتے کہ گاڑیوں کے ہارن بچنے پر انھیں ہرگز ہوش نہ آتا۔ اس سارے عمل میں ایک بڑا فائدہ بھی ہوا کہ انسانی جانوں کو نگلتا ہوا نالہ بند کردیا گیا۔ یہ تو تھا چورنگی کا احوال۔
اب انڈر پاس کی طرف چلتے ہیں اس میں جو مع اپنی گاڑی کے داخل ہوا، اس نے خسارے کا سودا کر لیا۔ اچھلتی،کودتی گاڑیاں اس طرح گزرنے پر مجبورکردی گئی تھیں، جیسے کسی یتیم و بے کس کی بارات گاؤں یا گوٹھ سے گزر رہی ہو۔ مضبوط فرش کی جگہ ٹائلز نصب کیے گئے ہیں، اسی وجہ سے رفتار میں توکمی واقع ہوئی ہے، اس کے ساتھ ایک طرف سفرکا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے،گویا پکنک کا سفر ہو، دوسری طرف اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچنے والے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، سندھ حکومت کے اس کارنامے پر داد دینے کی بجائے جو منہ میں آتا ہے وہ کہتے ہیں اور ببانگ دہل دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔
دانشمندی اور تعمیرکا نادر نمونہ، سخت مشقت کے بعد سامنے آیا ہے، اچھی آبادی، پڑھے لکھے لوگ، صاف و شفاف چمکتی دمکتی سڑکیں، انھیں کاٹ رہی تھیں کیا؟ کوئی بھی کام کرتے وقت اس کے فوائد و نقصانات کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں تو منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے والے نہ جانے کہاں جا بسے ہیں۔ لہٰذا یہاں کے مکینوں کے حصے میں خسارہ ہی آیا ہے۔ اب انڈرپاس بننے کے بعد حالات یہ ہو چکے ہیں کہ رابعہ سٹی جو واقعی ایک شہر خرابہ کی مانند ہے، اندر بازار کے بازار سجے نظر آتے ہیں، اس سٹی میں کیا نہیں ہے، ہر چیز یہاں میسر آجائے گی، لیکن باہر بھی بوقت ضرورت جانا پڑتا ہے۔
تو جناب! شہر اور ابن شہر کے درمیان میں انڈرپاس آگیا ہے، لہٰذا جو راستہ منٹوں میں بغیر سواری کے طے ہوتا تھا، وہ اب کافی وقت لیتا ہے۔ پیدل آنے میں تو آدھا ایک گھنٹہ کہیں نہیں گیا اور اگر موسموں کی سنگینی سے بچنے کے لیے سواری کے لیے رکشہ کیا جائے تب کرایہ برداشت کرنا ممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ رکشہ ڈرائیورز اور پرائیویٹ گاڑیوں کو ڈیڑھ سو سے، ڈھائی سو تک کرایہ ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے مہنگائی کے طوفان سے سر ٹکرانا لازم و ملزوم ہوچکا ہے۔
اب آتے ہیں کراچی کی سڑکوں کی طرف۔ آپ جہاں جائیں چند علاقوں کے سوا ہر طرف کھنڈرات کی شکل میں راستے نظر آئیں گے، گاڑیاں اچھلتی کودتی، لڑکھڑاتی مسافروں کی جان نکالتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ صفورا گوٹھ سے بیت المکرم مسجد اور ممتاز منزل تک کا راستہ سفر کرنے والوں کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ خوبصورت، نئی نویلی گاڑیوں کو برباد ہوتے ہوئے دو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ درکار نہیں ہوتا ہے۔ انھی راستوں پر چھوٹی بڑی گاڑیاں صبح و شام گزرتی ہیں۔
سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور چھوٹے بڑے گڑھوں کا منظر پیش کرتی ہیں اور برسات کے زمانے میں تو پانی سے بھرے نالے، نالیاں، سڑکیں اورکچا و پکا راستہ ایک ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا ہے،گاڑیاں ان راستوں میں پھنس جاتی ہیں یا پھر بارش کی شدت اور پانی جمع ہونے کی صورت میں تیرنے لگتی ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں،کوئی مددگار نہیں۔ ان حالات میں ٹریفک جام ، پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا بند ہونا معمول کی بات ہے، لوگ اپنی ضرورت کے تحت ہی پٹرول ڈلواتے ہیں۔ اب گھنٹوں گاڑی اسٹارٹ رہے گی تو پٹرول کا ختم ہونا لازمی امر ہے۔
کراچی شہرکی سڑکوں کا ایسا ہی بدتر حال ہے، اگر پختہ سڑکوں کی تعمیر ایک دفعہ ہی ہو جائے تو اس مثل کے مصداق سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار، لیکن یہاں کا حال نرالا ہے، ایک بار سڑکیں بنا کر بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم نے سڑکوں کی تعمیر بھی کی تھی، جو اب اپنے زوال پر مدد کے لیے آواز لگا رہی ہیں۔ سن لیجیے افلاس زدہ شہریوں کی طرح شکستہ سڑکوں کا حال۔