مجھے تو وہ اپنا ہی بیٹا لگا!!

شیریں حیدر  اتوار 29 ستمبر 2024
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چند دن قبل ہم دوستوں کے ایک گروپ میں کسی نے ایک وڈیو شئیر کی،اس وڈیو کو پورا دیکھنا میرے لیے ممکن نہ ہوا، جتنی دیکھ سکی ، وہی میرے حواس پر یوں سوار ہوئی کہ میں رات بھر سو نہ سکی تھی، باقاعدہ ساری رات یوں آنکھوں میں کٹی ۔ وڈیو میں ایک مدرسے کا استاد طالب علم پر تشدد کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔ میں نے اسے بند کردیا۔کیونکہ ایسا ہمارے ہاں معمول ہے۔

پسماندہ اور غریب علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخل نہیں کراسکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ فیس دے سکیں لہٰذا وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے مدارس میں پڑھنے بھیج دیتے ہیں۔ یہاں سارے تو نہیں، بعض استاد غصے کے تیز ہوتے ہیںجو کسی معمولی غلطی پر بچوں پر ظالمانہ تشدد کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی ان حرکتوں سے دینی مدارس کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے جب کہ استاد جیسے مقدس پیشے پر بھی انگلی اٹھتی ہے۔ میرے لیے اس وڈیو کو آخر تک دیکھنا ممکن نہ رہا تھا۔ ہر وہ والدین ، جن کے بچے ہیں اور انھیں احساس ہے کہ کوئی ان کے بچے پر انگلی بھی اٹھائے تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ میںنے اس بچے کو دیکھا تو فقط ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں ایک خیال آیا کہ وہ لڑکا میرا بیٹا بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ وڈیو کہاں کی ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ صیح ہو اور ہوسکتا ہے کہ غلط ہو۔

بہت سال پہلے، اپنے گھر کی تعمیر کے دوران ایک شٹرنگ والا جس کا تعلق خیبرپختونخواہ کے شہر مانسہرہ سے تھا، وہ ہمارے ہاں شٹرنگ کا کام کر رہا تھا۔ گرمیوں میں ایک چھت کی شٹرنگ کے دوران وہ اپنے ایک بیٹے کو بھی ساتھ لے آیا، وہ مجھے ایک کم عمر اور منحنی سا بچہ لگا، میرا اندازہ تھا کہ اس کی عمر ہو گی کوئی دس برس کی اور میں نے اس سے کہا کہ اس چھوٹے سے بچے کو اس نے کام پر کیوں لگا دیا ہے، اسے اسکول کیوں نہیں بھیجتا ہے، جوابا اس نے بتایا کہ اس اس کے اس بیٹے کی عمر بیس برس ہے اور وہ مدرسے کا طالب علم ہے۔

ان دنوں وہ گھر پر چند دن کی چھٹی پر آیا تھا تو وہ اسے ساتھ لے آیا ۔ بیس برس کا تو وہ ہر گز نہیں لگ رہا تھا، میں حیران تھی مگر اس کے باپ کو چیلنج نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے باپ نے بتایا کہ اس کے سات بیٹے ہیں، یہ سب سے بڑا ہے، سب سے چھوٹا بھی بارہ برس کا ہے، ایک بیٹی گھر پر ہے، اس نے اسکول کی شکل بھی نہ دیکھی ہے کیونکہ ان کے ہاں اسے برا سمجھا جاتا ہے۔

اس بچے کی قامت اور صحت دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے صحت بخش غذا نہیں ملتی ہے کیونکہ اگر اسے اچھی خوراک ملتی تو اس کا قدوقامت کہیں زیادہ ہوتا۔ اب میڈیا کی بدولت ہمیں نظر آنا شروع ہوگیا ہے کہ مدارس اور دیہی اسکولوں میں بچوں پر کتنا تشدد ہوتا ہے۔ ان بچوں کو جسمانی تشدد کے علاوہ جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ان میں سے بہت سی ناگفتہ بہ ہیں۔ ان بچوں کا جسمانی اور جنسی استحصال بھی اب کسی سے کہاں چھپا ہے۔ انھیں ذرا سی غلطی پر روئی کی طرح دھنک کررکھ دیا جاتا ہے، یوں مارا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔

اب تو بہت کچھ منظر عام پر آچکا ہے مگر پھر بھی کسی کو سزا نہیں ملتی، کوئی زبان نہیں کھولتا،کسی ظالم کو قرار واقعی سزا نہیں ملتی، جب ریاست اور حکومت بچوں پر تشدد کرنے والے ظالموں کو سزا نہیں دے سکتی تو ایسی ریاست و حکومت کا عوام کو کیا فائدہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔