حسن نصر اللہ کون تھے؟ جنھوں نے تمام عمر اسرائیل کیخلاف مزاحمت میں گزاری

اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے حسن نصر اللّٰہ نے لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ میں شمولیت کے بعد سے قید و بند، ملک بدری اور روپوشی کے بعد اب شہادت کا درجہ بھی حاصل کرلیا۔

حسن نصر اللہ نے 31 اگست 1960 کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں آنکھ کھولی اور مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی۔

وہ عراق بھی گئے جہاں 3 سال تک سیاست اور قرآن کی تعلیم حاصل کی، یہیں ان کی ملاقات لبنانی امل ملیشیا کے رہنما سید عباس موسوی سے ہوئی۔

جس کی پاداش میں حسن نصر اللہ کو 1978 میں عراق سے ملک بدر کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا جس کے خلاف حزب اللہ نامی تنظیم مزاحمت بن کر ابھری تو حسن نصر اللہ امل ملیشیا چھوڑ کر حزب اللہ میں شامل ہوگئے۔

وہ شعلہ بیان مقرر تھے اور انتظامی مہارت سے مالامال بھی اور ساتھ اپنا پورا وقت تنظیم کے لیے وقف کردیا تھا۔ حسن نصر اللہ جلد ہی حزب اللہ کی مرکزی قیادت کے قریب ہوگئے۔

جب 1992 میں اُس وقت کے جنرل سیکرٹری عباس موسوی کو اسرائیل فضائی حملے میں شہید کردیا تو قیادت حسن نصر اللہ نے سنبھال لی۔

صرف 32 سال کی عمر میں اتنی بڑی ذمہ داری ملنے پر حسن نصر اللہ نے تنظیم میں ایک نئی روح پھونک دی اور کئی محاذ پر اسرائیلی فوج کو شکست دی۔

یہ حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیلی فوج کو دھول چٹانے کا نتیجہ تھا کہ قابض فوج کو 2000ء میں لبنان کے جنونی علاقوں کو خالی کرنا پڑا۔

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اپنی مسلح تنظیم کو میزائل حملوں اور گوریلا کارروائیاں سے روشناس کرایا اور سیاسی میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

2005ء میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللّٰہ کا مدبرانہ سیاسی کردار بھی سامنے آیا جب انھوں نے سیاسی دھڑوں کے درمیان ثالث کا کردار نبھایا۔

حسن نصر اللہ نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی جس طرح کھل کر حمایت کی جس کی پاداش میں اسرائیل نے انھیں گزشتہ روز ایک فضائی حملے میں شہید کردیا۔