چیئرمین کو ہٹانے سے کراچی انٹر بورڈ میں انتظامی بحران طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا
گیارہویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان چیئرمین کے بغیر ہونے کا امکان
چیئرمین کو ہٹانے کے بعد کراچی انٹر بورڈ میں انتظامی بحران سے طلبا کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔
اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین کو دوران نتائج کورٹ کے حکم پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا جبکہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے نتائج تیاری کے آخری مراحل میں ہیں، امکان ہے کہ نتائج کا اعلان بغیر چیئرمین کے کیا جائے گا۔
اس حوالے سے مرکزی صدر سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسیشن پروفیسر منور عباس نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا سندھ کے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے، گزشتہ 18 سال سے سندھ کے کسی بھی تعلیمی بورڈ میں مستقل ناظم امتحانات، سیکرٹری، ڈائریکٹر فنانس تعینات نہیں کیا گیا جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے سندھ کے تعلیمی بورڈز مستقل چیئرمین سے بھی محروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران من پسند افراد کو ایڈہاک ازم کی بنیاد پر یا کسی اور بنیاد پر اتنے اہم عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ اگر ان کے فیصلے درست ہوتے تو عدالت ان کے خلاف فیصلے کیوں دیتی۔ نتائج کی تیاری کی ذمہ داری ناظم امتحانات پر عائد ہوتی ہے۔
منور عباس نے کہا کہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی میں بارہویں جماعت کے نتائج تقریباً تیار ہیں، نتائج کی تیاری میں چیئرمین بورڈ کا ہونا ضروری نہیں مگر اس کے اعلان کی منظوری چیئرمین بورڈ ہی دیتا ہے اب جب کوئی چیئرمین تعینات نہیں تو پھر نتائج کے اعلان میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
منور عباس نے مزید کہا کہ مسئلہ نتائج کے اعلان کا نہیں ہے کیونکہ کسی کو ایڈہاک پر تعینات کرکے یا کسی بورڈ چیئرمین کو اضافی چارج دیکر نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا، اصل مسئلہ مستقل چیئرمین بورڈ، ناظم امتحانات، سیکرٹری بورڈ اور ڈائریکٹر فائنانس کی مستقل اور میرٹ پر تعیناتی کا ہے، فوری طور پر تمام خالی اہم عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر اہل افراد کو تعینات کیا جائے۔
دوسری جانب محکمہ تعلیم سندھ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دوران نتائج چیئرمین کی تبدیلی امتحان کےنتائج پر اثر انداز ہوگی، بورڈز کا المیہ ہے کہ چیئرمینز کی مدت ملازمت ختم ہونے کے باوجود کوئی چیئرمین نہیں لگایا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ انٹربورڈ میں گزشتہ 6 برس سے انتظامی عہدوں پر تجربات کیے جا رہے ہیں۔ عارضی تعیناتی ہر چند ماہ بعد کی جاتی ہے جس سے انتظامی امور شدید متاثر ہوجاتے ہیں، تین برس میں 3 مرتبہ کنٹرولر اور چیئرمینز کو تبدیل کیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز میں اہم عہدوں پر مستقل تعیناتیاں کی جائیں۔