رحمة للعالمین اتھارٹی کے خواب

ڈاکٹر فاروق عادل  پير 30 ستمبر 2024
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

باڑھ بالآخر کھیت کو کھا جاتی ہے۔ یہاں تو خود کھیت نے ہی طوفان اٹھارکھے تھے پھر طوفانوں کا رخ اس طرف کیوں نہ ہوتا؟ یہ جو کراچی میں مفتی طارق مسعود صاحب پر آ بنی ہے، یہ بھی اسی مرض کا شاخسانہ ہے۔ جب کہیں اس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں توپھر طوفان یہ نہیں دیکھتا کہ نشانہ بننے والا قصور وار ہے یا نہیں، وہ صرف اپنی کر گزرتا ہے۔ ہمارے سماج میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب نہ کسی کی عزت سلامت ہے اور نہ جان محفوظ۔

اس آس آشوب میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جن کا مفاد اس طرز عمل سے وابستہ ہیں۔ ان کا علاج تو جیسے اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ نظر کے سوا کچھ اور نہیں یا پھرقانون کا کڑا شکنجہ ہی انھیں درست کر سکتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال میں علمائے کبارکی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاملات کو ہاتھ میں لے کر صورت حال کو بگڑنے سے بچا لیں لیکن اب شاید اس کا وقت گزر چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے شدت پسندوں کے دباؤ نے ان کی قوت کار کو محدود کر دیا ہو۔ اس صورت حال میں کیا ہو سکتا ہے؟ بہ ظاہر تاریکی دکھائی دیتی ہے لیکن ہفتہ رفتہ میں اسلام آباد میں ایک ایسا واقعہ ہو گزرا ہے جس سے امیدوں کا چمن ہرا ہو گیا ہے۔ اس واقعے کا تعلق ہے رحمة للعالمین اتھارٹی پاکستان کا سیرت فیسٹیول سے۔

سیرت فیسٹیول میں کیا ہوا اور اس میں ایسا کیا تھا جس سے امیدیں وابستہ ہوئیں، اس سے پہلے ایک ضروری بات۔ رحمةللعالمین اتھارٹی اپنی نہاد میں ایک مفید ادارہ ہے لیکن جن لوگوں نے اسے قائم کیا، ان کے مقاصد مختلف تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے دور میں یہ ادارہ عضو معطل بنا رہا۔ جن صاحب کو اس ادارے کا سربراہ بنایاگیا، وہ ذاتی اعتبار سے شائستہ آدمی تھے اور صاحب مطالعہ بھی لیکن علوم دینیہ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ ان کا موضوع سیاسیات تھا اور اس میں بھی ان کی دلچسپی آمرانہ رجحانات کی افادیت سے تھی۔ وہ دور بیت چکا، اب صورت حال مختلف ہے اور رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ ادارہ اپنے مقاصد کی طرف پیش رفت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی اچھے کام کے لیے اس سے مناسبت رکھنے والی شخصیت کے انتخاب کا یہی فائدہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ برادر محترم خورشید ندیم جب سے اس ادارے کے سربراہ بنے ہیں، اس ادارے کا رنگ ہی بدل گیا ہے ۔

رحمة اللعالمین اتھارٹی ان دنوں کیا کر رہی ہے، یہ سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک پاکستانی معاشرے کی کیفیت اور مسائل کو پوری طرح سے سمجھ نہ لیا جائے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں نکلیں تو جو مسئلہ دکھائی دے گا، وہی سب سے بڑا محسوس ہوگا لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں ہمارے ملک پر جو کچھ بیت گیاہے، اس کے نتیجے میں ہمارے سماج میں بے چینی اور ہیجان پیدا ہوا ہے۔اسی سبب سے ہمارے یہاں رویّوں میں شدت، سختی اور ضد پیدا ہوئی ہے۔ اختلاف برادشت کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یہ اختلاف خواہ سماجی ہو، سیاسی یا اس کا تعلق عقیدے سے ہو۔ سیاسی معاملات میں تو مخالف کو دیا جانے والا خطاب غداری سے کم نہیں ہوتا۔ سماجی معاملات میں قطع تعلقی عام ہے جب کہ عقیدے کے معاملے میں سختی مزید بڑھ جاتی ہے جس کے مظاہر داخلی سطح پر مفتی طارق مسعود صاحب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے یا چند دیگر واقعات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔معاملہ اگر دائرے سے باہر ہو تو اس کے نتائج ہم جڑانوالہ، سرگودھا اور جانے کہاں کہاں دیکھ چکے ہیں۔ اتھارٹی نے اس سلسلے میں اپنے چیئرمین خورشید ندیم کی زیر قیادت اسلام اور اقلیتیں کے عنوان سے کام شروع کر رکھا ہے جس کا ایک پہلو تو لٹریری ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے اور ارباب اختیار کے لیے اس میں راہ نمائی بھی ہوگی تاکہ یہ سمجھ میں آ سکے کہ اس قسم کی صورت حال میں سماج کے مختلف طبقات اور اداروں کے کرنے کا کام کیا ہے۔

ہمارے سماج کا ایک اور بڑا مسئلہ معاشی استحصال اور بد دیانتی ہے۔ یہ دونوں مسائل ادارہ جاتی یعنی پالیسی کی سطح پر بھی موجود ہیں اور عوامی سطح بھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی استحصال کا مرض معاشرے میں ہر سطح پر موجود ہے جس کی بیخ کنی صرف تربیت سے ہی ممکن ہے۔ یہ عمل سماجی سطح پر بھی ہونا چاہیے اور پالیسی کی سطح پر بھی۔ اس مقصد کے لیے معاشیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے تحقیقی کام جاری ہے۔ یہ کام بھی پہلے کام کی طرح صرف لٹریری سطح پر نہیں ہو گا بلکہ یہ اطلاقی نوعیت کی تحقیق ہو گی جسے عملی جامہ پہنانا ممکن ہو گا۔

اتھارٹی کے مختلف تحقیقی منصوبوں کے ذکر میں تربیت کا ذکر ہوا ہے۔ کسی بھی معاملے کی تنظیم اور تہذیب کے لیے تربیت کا معاملہ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔ عموما ًہوتا یہ ہے کہ نجی یا سرکاری سطح پر ادارے تو قائم ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارے کام بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے یہاں علمی سرگرمی اور سماج کے درمیان رابطے کا کوئی نظام نہیں ۔ اتھارٹی نے اس مسئلے کے حل کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔اوّل، سماج کے اہم شعبوں سے رابطہ جس کے تحت یوتھ، لائیرز، مینارٹی اور فیملی کلب وغیرہ قائم کیے جائیں گے۔ ان کلبوں کی سرگرمیوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس طرح مرتب کیا جائے گا تاکہ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کا حصہ بن جائیں۔

اسی معاملے کو مزید وسعت دینے کی ایک تجویز بھی خورشید ندیم صاحب کے ذہن میں ہے۔ یہاں تجویز کے لفظ سے تھوڑا اشتباہ پیدا ہو سکتا ہے۔ درست بات یہ ہو گی کہ اس پر بھی کام شروع ہو گیا ہے۔ تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سماج میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی یہاں تک کہ غیر مسلم بھی مسجد میں آکر عبادت کر سکتے تھے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کی مسیحی برادری کو مسجد میں عبادت کی اجازت دی۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے کم از کم 26 معاملات ایسے ہیں، اس زمانے میں جن کا تعلق مسجد سے تھا۔ انڈونیشیا میں اس سلسلے میں عملی تجربات ہوئے ہیں۔ استقلال مسجد کے نام سے وہاں ایسی مساجد قائم کی گئی ہیں جنھیں سماج کا مرکز بنا دیاگیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان میں رحمة للعالمین مساجد قائم کی جائیں گی۔ یہ مساجد کمیونٹی سنٹر کا کردار ادا کریں گی جہاں خواتین بھی جا سکیں گی۔ یہاں تک کہ ان میں جم بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ نوجوانوں کو بھی مسجد کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اس طرح ان سماجی مراکزمیں افراد معاشرہ پاکیزہ ماحول میں اپنی ضروریات بھی پوری کر سکیں گے اور تربیت کے عمل سے بھی گزر سکیں گے۔ خورشید ندیم اس سلسلے میں مسجد سے متصل ایک ایسی جگہ بھی بنانا چاہتے ہیں جہاں غیر مسلم آکر عبادت کر سکیں۔ ان کا خیال ہے کہ سی ڈی اے جیسے اداروں کی زیر نگرانی چلنے والی مساجد میں ابتدائی طور پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اداروں کی مساجد کو مراکز بنانے کے علاوہ مخیر حضرات سے تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

خورشید ندیم صاحب نے اپنے ادارے کے تحت تحقیق و تربیت کے جوپروگرام بنائے ہیں، یہ یقینا ایسی انقلابی جہت رکھتے ہیں جن کے اثرات مثبت اور شاندار ہوں گے۔ اپنے کام کو اتنے اخلاص اور تخلیقی انداز میں کام کرنے والے لوگ کم ہوتے ہیں۔ ان کی کام یابی دراصل سماج کی کام یابی ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ قوم کو ان کی کام یابی کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے اور افراد معاشرہ جس حیثیت میں اس نیک کام میں تعاون کر سکتے ہوں، اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہی طریقہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے عارضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ رحمة للعالمین فیسٹول کا پیغام بھی یہی تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔